بیس بائیس سال کی لڑکی آیک بچی کو گود میں اٹھائے کلینک میں داخل ہوئی اور بولی کہ یہ بچی صبح سے روئے جا رہی ہے نہ کچھ کھا رہی ہے نہ پی رہی ہے بس مسلسل رو رہی ہے …میں نے پوچھا کہ کیا یہ ماں کا دودھ بھی نہیں پی رہی تو وہ لڑکی بولی کہ اس بچی کے ماں باپ کی لڑائی ہو گئی ہے باپ اپنے گھر ہے اور ماں اپنے میکے چلی گئی اور بچی کسی ہمسائے کے ہاتھ پھپھی کو بجھوا دی کہ اسے سنبھالو….. کیا دنیا میں آنا قصور ہے یا ایسے ماں باپ کی اولاد ہونا سب سے بڑا قصور جو بچے پیدا کرکے بھی اپنی اپنی انا کی جنگ لڑتے رہتے ہیں…. کاش ہم اپنے بچوں کو تعلیم کےساتھ ساتھ تربیت کا بھی اہتمام کریں..لڑکا ہو یا لڑکی جب شادی کرنے کا ٹائم آئے تو بجائے جہیز اور بری کی تیاری کریں مہنگے مہنگے کپڑے اور جوتے بنوائیں کیوں نہ آن بچوں کو آنے والے وقت کے لیے تیار کیا جائے ۔ان کی شادی کے بعد کے مسائل کے حوالے سے تربیت کی جائے ۔یہ بتایا جائے کہ شادی دو لوگوں نہیں دو خاندانوں کا ملاپ ہوتا ہے ۔اور جب بچے ہو جائیں تو خود کو اور اپنی اناوں کوپس پشت ڈال دیا جائے . اولاد الله پاک کی بہت بڑی نعمت ہے اور کفران نعمت کرنا الله پاک کی ناشکری… لہذا جب بچے ہو جائیں تو ان معصوموں کا خیال کرتے ہوئے آپس کے لڑائی جھگڑوں سے احتراض کیا جائے تو بہتر ہے ….کتنی ہی خواتین ہیں جو اپنے بچوں سے دور ہیں بلاوجہ کی جدائی کا کرب برداشت کر رہی ہیں….بھلا یہ کہاں کی انسانیت ہے کہ چار پانچ بچوں کی ماں کو مختلف بہانے بنا کر لڑائی کرکے یا بد چلنی کا الزام لگا کر گھر سے نکال دیا جائے…کیا کوئی جان سکتا ہے کہ اس ماں کی تڑپ کیا ہو گی وہ کس اذیت سے گزرتی ہو گی… ہمارے معاشرے کا راوج ہے کہ جو لڑکا بگڑا ہوا ہو مان باپ کا نافرمان ہو سب کہتے ہیں کہ اس کی شادی کر دو خود ہی جب ذمے داری پڑے گی تو سدھر جائے گا ..بھلا جو اپنی ماں کے کہنے سے نہ سدھرا اسے کوئی بھی عورت کیسے سدھار سکتی ہے …اسی کا خمیازہ اس کی بیوی اور بچے ساری عمر بھگتتے ہیں ..لوگوں کے طعنے الگ اور ذاتی پریشانیاں الگ… ایک بات تو پلے سے باندھ لیں کہ اس دنیا کا جو انسان اپنی ماں کا نہیں بنتا وہ کسی کا بھی نہیں بنتا … اللہ کے واسطے سے اپنے بچوں کی شادیاں کرنے سے پہلے سب لوگ ان کی عملی زندگی کے لیے لازمی تربیت کریں ان کو ان کی ذمے داریوں کے بارے میں بتائیں کہ مان باپ بننا بہت بڑی سعادت بھی ہے اورذمے داری بھی.. بچے پیدا کرنا کوئی کمال نہیں بلکہ ان کی بہتر تعلیم اور تربیت کرنا اصل میں کرنے والا کام ہے۔جانتے تو بہت سے لوگ ہیں پر ماننے کے لیے بہت کم راضی ہوتے ہیں… آج آپ کسی کی بیٹی کو تکلیف دیں گے تو سکون آپ کو بھی میسر نہیں آئے گا ..جان لیجئے کہ ہمت اور صبر چاہیے رشتے نبھانے کے لیے اور بہتر ہے کہ بگڑے ہوئے اور بے حوصلہ لوگ شادی کے بارے میں نہ ہی سوچیں تو بہتر ہے۔تاکہ بہت سے لوگوں اور خاندانوں کی زندگی جہنم بننے سے بچ سکے… جیو اور جینے دو
ڈاکٹر زری اشرف ایک ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ سوشل ورکر بھی ہیں۔ اور اس کے علاوہ مطالعہ کی بیحد شوقین۔ قلم کار کے شروع ہونے پر مطالعہ کے ساتھ ساتھ لکھنا بھی شروع کر دیا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn