Qalamkar Website Header Image

تو بھی بول ہاں میں بھی بولوں گا

bolایک سال قبل اسی جون میں بول آئی ٹی فرم ایگزیکٹ کے خلاف نیویارک ٹائمز میں ایک خبر چھپی تھی اور اس کے بعد پاکستان کی میڈیا انڈسٹری میں طوفان کھڑا ہو گیا دن رات ایک ہی خبر کو اس طرح چلایا گیا جیسے کہ کسی خلائی مخلوق نے دنیا پر حملہ کر دیا ہو نیوز انڈسٹری نے اپنی ساری سپیس اسی خبر کو دیے رکھی اور ملزم کو مجرم ثابت کرنے پہ زور لگاۓ رکھا
یہ سارے چینلز اصل میں ایک نئے چینل سے خوفزده تھے اس لیے اس سکینڈل کو موقع غنیمت جان کر ایگزیکٹ کے چیف ایگزیکٹو شعیب شیخ پر ٹوٹ پڑے کیونکہ نیا آنے والا چینل بول نیوز شعیب شیخ کی ملکیت تھا اور تمام پاکستانی چینلز اس سے خوفزده تھے.کسی بھی نیوز چینل یا اخبار کے لیے اس کی ریڑھ کی ہڈی اس کا نیوز ڈیسک ہوتا ہے بڑے بڑے نیوز کاسٹر اور نیوز اینکر اپنی بلٹ پروف گاڑیوں میں آتے ہیں منہ پہ پف لگا کر ٹائی سیدھی کر کے سارا دن ذلیل ہو کے خبریں اکٹھے کرنے والے نیوز رپورٹرز کی محنت پر گھنٹہ بھر بول کر یہ جا وه جا اور رپورٹرز کسی بس یا وین سے لٹک کے اپنے کراۓ کے مکانوں میں تھک چور کے بلوں کی ادائیگی اور بچوں کی فیس کا سوچ رہے ہوتے ہیں.
بول پاکستان کا واحد چینل تھا جس نے لانچنگ سے پہلے ہی اپنی ایمپلائیز فرینڈلی پالیسیز اور مراعات سے دھوم مچا دی ہوئی تھی. پاکستانی میڈیا انڈسٹری کے بڑے بڑے ناموں نے بول کو جوائن کرنا شروع کر دیا بول نے اپنی تشہیر کے لیے پورے پاکستان میں ساٹھ ہزار کے قریب رکشوں ویگنوں اور دیگر گاڑیوں وغیره کو بول کا رنگ دیا.
رپورٹرز کو تنخواہ دینا تو دور کی بات چینل کے لوگو اور اتھارٹی لیٹرز دینے سے قبل سیکیورٹی کے نام پر پیسہ لینے والے چینلز سے یہ کہاں برداشت ہو سکتا تھا کہ بول ایک نیا معیار سیٹ کرے. کیونکہ بول چینل کی انتظامیہ نے اپنے چھوٹے سے چھوٹے ملازم کے لیے بھی پرکشش تنخواہوں کا اعلان کر رکھا تھا اب آتے ہیں خبر کی طرف.
یہ نیویارک ٹائمز کی خبر تھی نیویارک ٹائمز ایک متنازعہ اخبار جس نے عراق میں ایک ملین لوگ مرنے کی جھوٹی خبر دی تھی اس اخبار کی اس طرح کی بے شمار پراپیگنڈہ خبریں جن کی کوئی بنیاد نہیں تھی کو ہمیشہ کی طرح معتبر مانا گیا۔ من و عن تسلیم کیا گیا۔
اس خبر کے مطابق ایگزیکٹ جعلی ڈگریاں فروخت کرتی ہے اور ثبوت کے لیے ایگزیکٹ کے اک سابق ملازم کے بیان کو پیش کیا گیا. اگر یہ سچ بھی ہےاب آپ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کون سا ایسا ملک ہے جہاں اس قسم کی جعلسازی نہیں ہوتی ہو گی. ابھی ایگزیکٹ پر الزامات ہی لگے تھے کہ ہماری ایف آئی اے کو ہوش آیا اور ایگزیکٹ اور بول کے دفاتر پر ہلہ بول دیا گیا
کبھی پرنثنگ پریس سے لاکھوں کی تعداد میں جعلی ڈگریز پکڑی جا رھی ھیں اور کبھی ایگزیکٹ کے مین سرور کو قبضے میں لیا جا رہا ہے
کیا اس آئی ٹی فرم نے بندے مار دیئے ؟ کیا وه دہشتگرد تھے ان کی فرمز کی 1300 کے قریب گاڑیوں کو بھی قبضے میں لے لیا گیا اور سارے اکاونٹس فریز کر دیے گیے. شعیب شیخ کو دھر لیا گیا
پھر کتنا عرصہ شعیب شیخ کو جیل میں رکھا گیا اور حتمی چالان پیش کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا جاتا رہا. آخر چھ ماه سے زائد عرصے کے بعد حتمی چالان پیش کیا گیا جس میں ایف آئی کے پاس سواۓ چند غیر ملکیوں کے خطوط کے ایک بھی شکایت کننده نہیں جو کہے کہ ایگزیکٹ نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا ہے.
شعیب شیخ کی ضمانت منظور نہیں ہو رہی مجھے اس کوئی غرض نہیں کہ بول والے کون ہیں ۔ وہ شاید چاہے موجودہ میڈیا گروپس سے بھی بڑے فراڈئیے ہوں۔ لیکن کسی پر جرم ثابت ہونے سے پہلے اسے مجرم بنا کر پیش کیا جاتا رہا ۔ اس کی تو کوئی تک نہیں بنتی۔ بلکہ یہ اخلاقاََ اور قانوناََ ایک جرم ہے ۔ اور اب جب ایک بھی شکایت کننده سامنے نہیں تو کیا ایف آئی اے شعیب شیخ کو سال بھر جیل میں رکھنے اس کا نام خراب کرنے اور اس کے کاروبار تباه کرنے کا کیا جواب دے گی اور حکومت اس بات کا جواب دے گی کہ ایگزیکٹ پر الزامات تھے بول کو کیوں بند کیا گیا. چلیں انہوں نے مشینری منگواتے وقت ٹیکس چوری کی تھی تو بھائی ثبوت کہاں ہیں؟ ٹیکس چوری میں معاونت کرنے والے کتنے سرکاری افسران کو دھرا گیا
اور پانامہ لیکس جس کے نتیجے میں کئی صاحب اقتداروں کو گھر جانا پڑا اس حوالے سے ہماری میڈیا انڈسٹری کی پھرتیاں اداروں کی فرض شناسیاں کہاں گئیں؟
یہ صرف میڈیا گروپس کی آپس کی مقابلہ بازی ، حسد کے علاوہ اور کچھ بڑا معاملہ نہیں تھا میرا بول سے کوئی تعلق نہیں میں بطور صحافی کسی اور ادارے سے منسلک ہوں مگر مجھے میرا ضمیر یہ کہنے پہ اکساتا ہے کہ میں کل بھی بول کے ساتھ تھا میں آج بھی بول کے ساتھ ہوں

حالیہ بلاگ پوسٹس