Qalamkar Website Header Image
Qamar Abbas Awan - Qalamkar

دھند میں موٹروے کی بندش: غیر محفوظ راستوں پر خطرے کا سامنا

دو جنوری کی شام 7 بج کر 19 منٹ پر ملتان سے لاہور آتے ہوئے خانیوال کے انٹرچینج سے موٹروے پر سفر شروع کیا۔ موسم اچھا بھلا تھااور دھند کےآثار نہیں تھے۔ بڑے مزے سے سفر جاری و ساری تھا۔ تقریباََ دس بجے کے قریب جڑانوالہ پہنچے تو  نیشنل ہائی وے پولیس نے آگے جانے کا راستہ بند کر رکھا تھا اور جڑانوالہ انٹرچینج سے ساری ٹریفک کو موٹروے سے ایگزٹ کروا رہے تھے۔ وجہ دھند بتائی گئی۔ ایک طویل قطار میں لگ گئے کہ ٹول ٹیکس ادا کریں اور سفر کو جاری رکھیں۔ سست روی سے یہ عمل رواں دواں تھا۔ تقریباََ پندرہ منٹ لگ گئے ٹول پلازہ کراس کرتے ہوئے۔ جوں ہی باہر نکلے آگے سڑک دائیں اور بائیں مڑ رہی تھی اور ہمیں کس طرف جانا ہے اس کا نہ تو  اندازہ تھا اور نہ ہی نشاندہی تھی کہ لاہور جانے والے کس طرف مڑیں۔ قریبی علاقوں کا بورڈ پر لکھا ہوا تھا۔ گوگل کا میپ گھما کر موٹروے کی سمت ہی لے جا رہا تھا۔ خیر باقی گاڑیوں کی پیروی کرتے ہوئے بائیں جانب کو گاڑی موڑی اور سفر پھر شروع کر دیا۔ دھند بالکل ہلکی تھی اور جس روڈ پر جا رہے تھے سنگل روڈ تھا۔ آسانی یہ رہی کہ مخالف سمت سے آنے والی گاڑیاں چند ایک ہی تھیں۔  حیران ہو رہا تھا کہ موٹروے کو ایگزٹ دینے والے روڈ کی ایسی حالت کیسے گزارہ کرتی ہو گی؟ روڈ کی حالت ہی گزارے لائق تھی۔ تھوڑی ہی دیر بعد دھند شدید ہونا شروع ہو گئی۔ اور وہی روڈ جس پر آسانی سے جا رہے تھے سفر مشکل ہونا شروع ہو گیا۔ کافی سست روی سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے ایک چوک میں پہنچے جہاں سے مڑنے کے لیے راستے میں ایک شخص نے مشورہ دیا تھا۔ وہ روڈ گو کہ  پہلی روڈ کی طرح سنگل روڈ نہیں تھا لیکن حالت پہلے والی سے بہت بری تھی۔ جگہ جگہ کھڈے اور ٹوٹا ہوا روڈ۔  اوربجائے اس کے کہ گاڑی کی رفتار بڑھتی پہلے والے روڈ کی نسبت بھی سست ہو گئی۔ حدِ نگاہ کم سے کم ہوتی گئی کچھ آگے گئے تو پتہ چلا روڈ زیرِ تعمیر ہے۔ اوپری حصہ اکھاڑ دیا گیا ہے اور نیچے پتھر ڈال کر اوپر مٹی وغیرہ ڈالی گئی ہے۔  اچانک زور سے بریک کو دبانا پڑا۔ زیرِ تعمیر سڑک کا  ملبہ پڑا ہوا تھا اور سڑک کا بیشتر حصہ بند تھا۔ لیکن روڈ کی بندش یا متبادل راستے کا کوئی نشان نہیں لگایا گیا تھا۔ گاڑی کی رفتار سست ہونے کی وجہ سے بچت ہو گئی۔ خیر آہستہ آہستہ اس خراب روڈ سے جان چھڑوا کر آگے نکلے۔ ایک چوک میں پہنچے اور پوچھا لاہور جانے کا راستہ کون سا ہے؟ وہاں سے ایک راستہ براستہ شرق پور لاہور پہنچ رہا تھا اور دوسرا پھول نگر سے ہوتا ہوا لاہور لاتا۔ پھول نگر والے کا مشورہ وہاں ریڑھی لگائے دو لوگوں نے اختیار نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ سنگل روڈ ہے۔ یہ سن کر براستہ شرق پور لاہور کا ارادہ کیا۔ سست روی سے جیسے تیسے رات تین بجے گھر پہنچ سکا۔

یہ بھی پڑھئے:  تابوتوں میں لڑھکتے ہوئے نبیؐ کے لاڈلے - مستنصر حسین تارڑ

اس دوران چند دن قبل کا لاہور رنگ روڈ کا سفر یاد آ گیا۔ رات دو بجے کا وقت تھا اور ایسی ہی شدید دھند تھی۔ سندر انڈسٹریل اسٹیٹ سے نکلا۔  ساتھ بیٹھے کولیگ سے کہا کہ رنگ روڈ بند ہوگا دھند کی وجہ سے ۔ اور ہمیں ایک لمبا چکر کاٹ کر جانا پڑے گا۔ اڈا پلاٹ پہنچ کر دکھائی تو نہ دیا کہ رنگ روڈ کھلا ہے یا ٹریفک کے لیے بند پھربھی  قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا اور رنگ روڈ کی طرف مڑ گیا۔ خدا کی مہربانی یہ رہی کہ ٹریفک کے لیے رنگ روڈ کھلا تھا۔ کھلا علاقہ ہونے کی وجہ سے دھند کی شدت مزید بڑھ گئی۔ لیکن سفر سست روی کے باوجود پرسکون اس لیے رہا کہ روڈ ہموار اور محفوظ تھا۔ ایگزٹ پوائنٹ تک نظر تو نہیں آ رہے تھے لیکن گوگل میپ نے متعلقہ ایگزٹ پوائنٹ تلاش کرنے میں کافی سہولت بنائے رکھی۔ سڑک پر بنی لینز اور لائنزز نےکافی مدد کی اور گاڑی سیدھی چلانا آسان رہا۔

موٹروے سے اتر کر جو انتہائی خطرناک سفر کیا  اس نے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ ہموار سڑک پر سے دھند کی وجہ سے گاڑیاں اتروا کر خطرناک روڈ پر اسی شدت والی دھند میں گاڑیوں کو جانے پر مجبور کیا گیا؟ ایسی ہنگامی صورتحال سے نبٹنے کا  کوئی ذریعہ موٹروے کی بندش کے علاوہ کیوں نہیں سوچا جاتا؟ یہ بات بجا ہے کہ بہت سے لوگ دھند کی شدت کو نظر انداز کرتے ہوئے تیز رفتاری سے باز نہیں آتے اور حادثات کا شکار ہو کر دوسروں کو بھی حادثوں میں ملوث کرتے ہیں۔ لیکن کیا اس چیز کو کنٹرول کرنے کا طریقہ کار نافذ نہیں کیا جاسکتا؟  ایک عدد نئی گاڑی کی تیز رفتاری تو شرق پور روڈ پر بھی مسلسل دیکھی ۔ وہاں کنٹرول کرنے والا کوئی بھی نہیں تھا۔ کیا طریقہ کار بنا کر ایسی تیز رفتاری موٹرووے پر روکی نہیں جا سکتی؟ شدید دھند میں ایک منظم روڈ موٹروے کو خالی کروا کر غیر منظم اور آبادی کے درمیان سے ٹوٹے پھوٹے روڈ پر  بے تحاشہ ٹریفک موڑ کر حادثات کا امکان بڑھایا نہیں جاتا؟

اگر کسی ایسے علاقے میں دھند چھا جائے جہاں مناسب روڈ نہیں ہیں تو گاڑیوں کے پہلے ہی مناسب انٹرچینج سے ایگزٹ کروایا جا سکتا ہے بجائے اس خطرناک علاقے میں جا کر اتارنے سے۔ دھند سے صاف علاقوں میں موٹروے پر چڑھنے والی گاڑیوں کو پہلے ہی بتا دیا جائے کہ فلاں علاقے میں دھند کی وجہ سے گاڑیاں جانے کی اجازت نہیں ۔ مناسب ہے کہ فلاں متبادل راستہ یہیں سے اختیار کریں۔ موٹروے پر آگے کسی علاقہ کے دھند زدہ ہونے کی صورت میں وہ گاڑیاں جو ایسی ابتدائی تدابیر سے پہلے داخل ہو چکی ہیں انہیں خطرناک علاقوں میں موٹروے سے ایگزٹ کروانے کی بجائے کیوں نہ ایسی ہنگامی صورتحال کے لیے کوئی بہتر طریقہ کار بنایا جائے؟ ہم کیوں نہ ایسا نظام وضع کریں جس میں گاڑیوں کو ایک کانوائے کی شکل میں منزل تک پہنچایا جائے، جہاں نیشنل ہائی ویز اتھارٹی کی جانب سے ہائی بیم فوگ لائٹس والی گاڑیوں کو آگے لگا کر گاڑیوں کی رفتار پر کنٹرول رکھا جائے۔ اس طرح سے نہ صرف سفر محفوظ ہو گا بلکہ دھند کے اثرات کو بھی کم کیا جا سکے گا۔

یہ بھی پڑھئے:  پاکستانی قانون شکن قوم ہے۔۔۔؟؟ انور عباس انور

تھوڑی سی محنت سے دھند میں پھنسے لوگوں کو آسانی مہیا کی جا سکتی ہے۔ جہاں لوکل روڈ غیر محفوظ نہ ہوں اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوں وہاں سے ایگزٹ کروانے پر اس قدر مسئلہ نہیں ہوگا۔ کافی سال قبل اسلام آباد سے رات کے وقت لاہور آتے موٹروے سے گاڑیوں کو جب جی ٹی روڈ کی طرف موڑا گیا تب ایسے خطرات سامنے نہ آئے جیسے جڑانوالہ سے اتر کر لاہور آتے ہوئے محسوس ہوئے۔ موٹروے پر باقاعدہ لائنز ہیں اور لین  کی نشاندہی بہتر طریقے سے ہو رہی ہے۔ لوکل روڈ پر ایسا کم ہی نظر آتا ہے۔ جی ٹی روڈ پھر بھی بہت بہتر ہے لیکن ہر انٹرچینج ایسی صلاحیتوں والے روڈ  کے ساتھ منسلک نہیں۔ جب روڈ پر کوئی لائن ہی نظر نہ آئے اور دھند اتنی شدید ہو کہ چند فٹ آگے کچھ نظر نہ آئے تو گاڑی سنبھل سنبھل کر چلانے کے باوجود حادثے کا شکار جلد ہو سکتی ہے۔    ایسے حالات سے نبٹنے کے لیے انٹرچینج جو شہر سے باہر بنے ہوں انہیں اپ گریڈ بھی کیا جانا چاہیے۔ اور دھند کی صورت میں وہاں بھی حفاظتی انتظامات کے تحت گاڑیاں چلانے کی نگرانی ہونی چاہیے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس