جیسا کہ ہر سال یونیسکو کی طرف سے 20 مئی کو میٹرولوجی کا دن پور ی دنیا میں عالمی طور پر منا یا جاتا ہے ، ہمارے لیے یہ سمجھنا اہم ہے کہ میٹرولوجی کیا ہے اور اس کی اہمیت اور ہماری روزمرہ زندگی پر اس کے گہرے اثرات کو اجاگر کرنا کیوں ضروری ہے ۔ اگرچہ عام لوگوں کی اطلاع میں میڑولوجی صرف ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں آگاہی تک محدود ہوتی ہے کہ اس سے ہمیں موسم کا حال بروقت مل جاتا ہے لیکن یہ علم صرف اس حد تک محدود نہیں۔ میٹرولوجی پیمائش کا سائنسی مطالعہ ہے۔ یہ پیمائش کے تمام نظریاتی اورعملی پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے، یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پیمائش درست، قابل اعتماد، اور وقت کے ساتھ اور مختلف خطوں میں مطابقت رکھتی ہے۔ میٹرولوجی کو تین اہم شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے پیمائش کی اکائیوں کے قیام اور پیمائش کے نئے طریقوں کی ترقی سے متعلق سائنسی یا بنیادی میٹرولوجی کہا جاتا ہے ۔ مصنوعات کے معیار اور پیداوار کو یقینی بنانے کے لیے مینوفیکچرنگ اور دیگر عمل میں پیمائش کرنے کی سائنس کو اپلائیڈ یا انڈسٹریل میٹرولوجی کہا جاتا ہے وہ پیمائشیں جو براہ راست صارفین کو متاثر کرتی ہیں، تجارت، صحت، حفاظت اور ماحولیاتی تحفظ میں انصاف کو یقینی بناتی ہیں ان کو قانونی میٹرولوجی کہا جاتا ہے۔ میٹرولوجی سائنسی دریافت، صنعتی پیداوار، اور تجارت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ علم اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پیمائش درست، قابل اعتماد، اور عالمی طور پر قبول کی گئی ہے۔ چاہے وہ مینوفیکچرنگ میں درکار درستگی ہو، طبی تشخیص میں درکار درستگی، یا عالمی تجارت کے لیے ضروری ہو، میٹرولوجی تکنیکی اور اقتصادی ترقی کا مرکز ہے۔
میٹرولوجی کی تاریخ انسانی تہذیب کی ترقی کے ساتھ گہرائی سے جڑی ہوئی ہے، کیونکہ معاشروں کو ہمیشہ تجارت، تعمیرات اور مختلف سائنسی کوششوں کے لیے پیمائش کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیمائش کے نظام کے ابتدائی ریکارڈ قدیم تہذیبوں جیسے مصر، میسوپوٹیمیا اور وادی سندھ سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر مصریوں نے اہرام کی تعمیر کے لیے فرعون کے بازو کی لمبائی کی بنیاد پر ہاتھ کا استعمال کیا۔یونانیوں اور رومیوں نے پیمائش کے نظام کو مزید تیار کیا۔ یونانیوں نے زیادہ منظم طریقے متعارف کرائے، جبکہ رومیوں نے اپنی وسیع سلطنت میں پیمائش کو معیاری بنایا، تجارت اور انجینئرنگ کے منصوبوں میں سہولت فراہم کی۔قرون وسطیٰ کے دوران، پیمائش کے معیارات اکثر مقامی ہوتے تھے اور ایک خطے سے دوسرے خطے میں نمایاں طور پر مختلف ہوتے تھے۔ یکسانیت کا یہ فقدان اکثر تجارت میں تنازعات کا باعث بنتا تھا۔
علم چونکہ کسی ایک قوم ونسل کی میراث نہیں اس فن میں بھی بہت سے صاحب علم گذرے ہیں جنہوں نے اس فن میں بہت سی خدمات سر انجام دیں ۔ جہاں گیلیلیو گیلیلی نے فلکیاتی پیمائش کو بڑھاتے ہوئے دوربین کے ڈیزائن کو بہتر بنایا آئزک نیوٹن نے حرکت اور عالمگیر کشش ثقل کے قوانین وضع کیے، جن کے لیے قوت اور کمیت کی درست پیمائش کی ضرورت تھی وہیں پر مختلف مسلمان اسکالرز اور سائنسدانوں نے میٹرولوجی کے میدان میں خاص طور پر اسلامی سنہری دور (8ویں سے 14ویں صدی) میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ اس دور کو پوری اسلامی دنیا میں سائنس، ریاضی اور انجینئرنگ کے فروغ کے ساتھ جانا کیا گیا تھا، اسکالرز نے قدیم تہذیبوں سے وراثت میں ملنے والے علم کی تعمیر اور ترقی کی۔
ان مسلمان سکالرز میں الخوارزمی ایک بہت بڑا نام جن کو ریاضی اور فلکیات میں اپنے کام کے لیے جانا جاتا ہے انہوں نے اعشاریہ نمبر کے نظام اور الجبرا پر بڑے پیمانے پر لکھا۔ ان کی تحریروں میں عین حساب اور پیمائش کی تکنیک متعارف کروائی گئی جو زمین کے سروے اور فلکیات کے لیے اہم تھیں۔ اس کے علاوہ البیرونی جو کہ جغرافیہ میں اپنے کام کے لیے مشہور ہیں ۔ انہوں نے قابل ذکر درستگی کے ساتھ زمین کے فریم کی پیمائش کرنے کے طریقے تیار کیے اور زمین کے طول و عرض کی نقشہ سازی اور سمجھنے کے لیے تکنیک وضع کی۔ ان کی کتاب "شہروں کے نقاط کا تعین” میں جغرافیائی فاصلوں اور مقامات کی پیمائش کے تفصیلی طریقہ کار شامل ہیں۔
مسلمان سائنسدانوں نے جہاں اور بہت سارے اس فن کے قوانین متعارف کروائے وہیں ستاروں کی اونچائی معلوم کرنے کا آلہ (اسٹرولوب) بھی دریافت کیا جو وقت اور ستاروں سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ فلکیات نیویگیشن، فلکیات اور سروے کے لیے یہ بہت اہم آلہ تھا۔ کہ جس پہ کام کرکے ماڈرن ایکوپمنٹ کو بھی ڈیزائن کیا گیا ۔ جہاں اور بہت سے نام ہیں وہیں اس شعبے میں ابن الہیثم کو جدید نظریات کے بانیوں کے طور پر جانا جاتا ہے آپ نے نے روشنی اور بصارت کی تفہیم میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی کتاب "کتاب المناظر” (بک آف آپٹکس) روشنی کے انعکاس اور انعطاف پر تجربات کی تفصیل دیتی ہے، جو درست نظری آلات کی نشوونما کی بنیاد بناتی ہے۔ بعد کے ادوار میں خلافت عباسیہ کا دور بہت اہم ہے کہ بغداد اس وقت میں علم وحکمت کے ترجمے اور توسیع کا مرکز بن گیا تھا۔ اسکالرز نے اہم یونانی، فارسی اور ہندوستانی سائنسی علوم کا عربی میں ترجمہ کیا، قدیم میٹرولوجیکل علم کی حفاظت کی۔مسلم سکالرز کی طرف سے تیار کردہ درست پیمائش اور ہندسی اصولوں کا اطلاق یادگار عمارتوں، جیسے مساجد، محلات اور پلوں کی تعمیر میں کیا گیا۔ درست پیمائش کے استعمال نے ان تعمیراتی عجائبات کی ساخت سالمیت اور جمالیاتی ہم آہنگی کو یقینی بنایا۔
اسلامی سنہری دور میں میٹرولوجی میں مسلمانوں کی شراکت نے جدید پیمائشی سائنس کی بنیاد رکھی۔ آلات میں ایجادات ، اکائیوں کی معیاری ترتیب، اور مختلف سائنسی شعبوں میں پیش رفت کے ذریعے، مسلم اسکالرز نے پیمائش کی درستگی میں نمایاں اضافہ کیا۔ ان کے کام نے نہ صرف اسلامی دنیا کو متاثر کیا بلکہ یورپ اور اس سے آگے میٹرولوجی کی ترقی پر بھی دیرپا اثر ڈالا، کیونکہ ان کا علم بعد کی صدیوں میں تراجم کے ذریعے منتقل ہوتا رہا۔ بعد ازاں میٹرولوجی کا جدید دور فرانسیسی انقلاب کے دوران شروع ہوا 1795 میں، فرانس نے میٹرک سسٹم متعارف کرایا، جو میٹر، کلوگرام اور سیکنڈ پر مبنی ہے، تاکہ مقامی نظاموں کے ہزارہا کو تبدیل کیا جا سکے۔ یہ بین الاقوامی معیار کی طرف ایک یادگار قدم تھا۔ 1875 میں، میٹر کے معاہدے (کنونشن ڈو میٹر) پر 17 ممالک نے دستخط کیے، جس کے نتیجے میں فرانس میں انٹرنیشنل بیورو آف ویٹ اینڈ میژرز کا قیام عمل میں آیا۔ بی آئی پی ایم نے بین الاقوامی پیمائش کے معیارات کو تیار کرنے اور برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ کلوگرام، ایمپیئر، کیلون، اور مول کو فطرت کے بنیادی (ایس آئی) یونٹس کو متعارف کروایا گیا جس سے پیمائش میں استحکام اور عالمگیریت کو یقینی بنایا گیا۔
جہاں اس سائنسی علم نے بہت ترقی کی وہیں اپنی اہمیت کے باوجود، میٹرولوجی کو اہم چیلنجوں کا سامنا ہے۔ تیز رفتار تکنیکی ترقی تیزی سے درست پیمائش کا مطالبہ کرتی ہے۔ ڈیجیٹلائزیشن کی طرف تبدیلی نئی پیچیدگیوں کو متعارف کراتی ہے، جیسے ڈیٹا کی سالمیت کو یقینی بنانا اور معلومات کی وسیع مقدار کا انتظام کرنا۔ مزید برآں، ترقی پذیر ممالک اکثر پرانے پیمائش کے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ جدوجہد کرتے ہیں، جو عالمی منڈیوں اور سائنسی برادریوں میں ان کی شرکت میں رکاوٹ بنتی ہے ۔
دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان کو بھی میٹرولوجی کے شعبے میں منفرد چیلنجز کا سامنا ہے۔ ملک کے پیمائشی ڈھانچے کو بین الاقوامی معیارات پر پورا اترنے کے لیے جدید کاری کی ضرورت ہے۔ جدید میٹرولوجیکل ٹولز اور مہارت کی کمی کے نتیجے میں تجارت، کوالٹی کنٹرول اور سائنسی تحقیق میں تضادات پیدا ہو سکتے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنا پاکستان کی اقتصادی ترقی اور عالمی معیشت میں شمولیت کے لیے اہم ہے۔ پاکستان میں ماضی میں عموما جو موسم کی پیش گوئی ہی کی جاتی تھی وہ بھی اکثر تنقید کا باعث بنتی تھی کیونکہ عالمی اداروں سے ملنے والی معلومات اور پرانے نقشوں سے موسم کا حال بتایا جاتا تھا مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میٹرولوجی ڈیپارٹمنٹ کو جدید آلات سے مزین کر رہا ہے۔ اس میں جدید سیٹلائٹ تصاویرکا حصول اور ریڈارز کی تنصیب اہم پیش رفت ہے جس سے بروقت پل پل کی بروقت صورتحال سے آگاہی ملتی رہتی ہے ۔
تاہم عالمی سطح پر، میٹرولوجی ڈیجیٹل انقلاب کی وجہ سے ایک تبدیلی سے گزر رہی ہے۔ جدید میٹرولوجیکل سسٹم والے ممالک پیمائش کی درستگی اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے نئی پیمائش کےمعیارات اور تکنیکی (BIPM) ٹیکنالوجیز کا فائدہ اٹھا رہے ہیں جب کہ ترقی پذیر ممالک کے پاس جدید میٹرولوجیکل آلات کی کمی ہے۔
ایسے وقت میں میٹرولوجی میں درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے، کئی اقدامات کیے جا سکتے ہیں پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کو جدید میٹرولوجیکل انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ اس میں لیبارٹریوں کو اپ گریڈ کرنا، جدید ترین آلات کا حصول، اور پیمائش کی جدید تکنیکوں کو سنبھالنے کے لیے اہلکاروں کو تربیت دینا شامل ہے۔ بین الاقوامی میٹرولوجی اداروں میں شرکت اور ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ تعاون سے ممالک کو بہترین طریقوں کو اپنانے اور عالمی معیارات کے ساتھ اپ ڈیٹ رہنے میں مدد مل سکتی ہے۔ حکومتوں کو ایسی پالیسیاں مرتب کرنی چاہئیں جو میٹرولوجیکل انفراسٹرکچر اور معیارات کی ترقی میں معاون ہوں۔ اس میں میٹرولوجی میں تحقیق اور ترقی کی فنڈنگ اور صنعتوں کو بین الاقوامی پیمائش کے معیارات پر عمل کرنے کی ترغیب دینا شامل ہے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے اور حل کو اپناتے ہوئے، ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ دنیا جس طرح ترقی کر رہی ہے پاکستان بھی میٹرولوجی کے اوپر کام کرکے ترقی اور خوشحالی کے سفر کو آگے بڑھا سکتا ہے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn