Qalamkar Website Header Image
Shah Rukh Khan Films Poster DDLJ Bazigar Jawan

شاہ رخ خان: ناکامیاں، غلط فیصلے اور تین پراسرار سال

سال 1993 شاہ رخ خان کے کیریر کا اہم ترین سال تھا ۔ دلی کے لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اس کم رو، گندمی رنگت اور عجیب و غریب بالوں نوجوان نے بالآخر تقدیر کے دھارے کا رخ اپنے حق میں موڑ لیا ۔اس برس شاہ رخ کی فلمز "بازی گر” اور "ڈر” ریلیز ہوئیں ۔ ایسی فلمز، جس میں مرکزی کردار کو روایت کے برعکس منفی شیڈز میں پیش کیا گیا تھا ۔ فلمز جنھیں دیگر اسٹارز نے ٹھکرا دیا۔ اور یہی فلمز اس کے کیریر کا نکتہ آغاز ثابت ہوئیں ۔ مگر یہ سب یک دم نہیں ہوا۔ اس کے پیچھے جدوجہد کی ایک طویل داستان ہے ۔ اُس کے پیچھے تھیٹر، چھوٹے موٹے کردار اور کم بجٹ کی وہ سنجیدہ فلمز ہیں، جنھیں آج اس کے ناقدین بڑی سہولت سے نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ اور پھر ٹیلی ویژن کا تجربہ ۔ یہ دور درشن تھا، جس نے پہلے پہل اسے ملک گیر پہچان عطا کی ۔ البتہ اس کے باوجود فلم نگری ابھی دور تھی۔ وہ الگ جہاں تھا ۔ کوئی حوالہ نہیں ۔ کوئی گاڈ فادر نہیں ۔ اس نے پانچ ہزار کے عوض اپنی پہلی فلم سائن کی۔ "دیوانہ” ہو، "دل آشنا”، "کنگ انکل”، "مایا میم صاحب”؛ اسے مرکزی کردار میسر نہیں تھے، مگر 1993 میں "بازی گر” اور "ڈر” کے بعد سب بدل گیا ۔

شاہ رخ خان کے کیریر میں دوسرا بڑا واقعہ 1995 میں رونما ہوا، جب اس نے ایک بڑی تخلیقی جست لگائی اور ایک فن کار سے سپر اسٹار تک سفر طے کر ڈالا۔ اُس برس کا آغاز "کرن ارجن” جیسی روایتی، مسالا فلم سے ہوا، جو توقع سے بڑی بلاک بسٹر ثابت ہوئی ۔ پھر ہم نے اسے "دل والے دلہنیا لے جائیں گے” میں دیکھا، جس نے اسے ایکشن کی دنیا سے نکال کر رومانوی فلموں کی اُس راہ پر ڈال دیا، جہاں وہ رجحان ساز ثابت ہونے والا تھا۔ اسی فلم کے وسیلے اسے رومانس کا بادشاہ اور کنگ خان جیسے لیبل عطا ہوئے اور وہ بین الاقوامی دنیا میں بالی وڈ کا چہرہ بن گیا۔ 1995 کے آخر میں ہم نے اسے "رام جانے” میں دیکھا۔ ایک اور کام یابی، مگر شاید اس ژانرا کی آخر فلم۔آنے والے برسوں میں وہ طرح طرح کی کمرشل فلمز میں نظر آیا۔ کبھی کامیڈی، کبھی ایکشن، کبھی ڈراما، مگر اکثر رومانس۔ اور رومانس ہی میں اس نے کام یابی کے جھنڈے گاڑے۔ گو اس کی کچھ فلمز ناکام ہوئیں، کچھ ایوریج رہیں، مگر کام یابی کی شرح زیادہ تھی۔اس دوران اس نے بہ طور اداکار اشوکا، دل سے، سوادیس جیسے اہم تجربات کیے، مگر سوائے "چک دے” کے لگ بھگ سب ہی کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ البتہ وہ سرگرم رہا۔

یہ کرن جوہر تھا، جس کے ساتھ اس کی جوڑی نے ملکی و غیر ملکی ناظرین کو وہ دیا، جس کے وہ منتظر تھے۔ "کچھ کچھ ہوتا ہے”، "کبھی خوشی کبھی غم”، "کبھی الوداع نہ کہنا” اور "کل ہو نہ ہو”؛ سب ہی کامیاب ٹھہریں۔ہم نے اسے یش چوپڑا کی "ویر زارا” اور "جب تک ہے جاں” جیسی کام یاب فلمز میں دیکھا ۔ یا پھر فرح خان کی "میں ہوں ناں” اور "اوم شانتی اوم” میں، ایسے کردار جو اسے سامنے رکھ کر ہی لکھے گئے۔ یا پھر فرح اختر کی "ڈان” اور بھنسالی کی "دیوداس”۔

ذاتی پروڈکشن ہاؤس کا تجربہ خوش گوار ثابت نہیں ہوا۔ ریڈ چلیز کی ابتدائی فلمز – دل ہے ہندوستانی/ ون ٹو کا فور – ناکام ثابت ہوئیں۔ "چلتے چلتے” کے ساتھ اس نے بدبختی کا حصار توڑنے کی کوشش کی، مگر ذاتی پروڈکشن ہاؤس اس کے لیے مستقبل میں مزید تلخیاں لانے والا تھا۔ ریڈ چلیز کی حقیقی خوش بخت بہت دور تھی۔ اس عرصے میں اسے درپیش سب سے بڑا چیلنج ریتک روشن تھا، جس کی فلم "کہو ناں پیار ہے” کی کام یابی کے بعد خان کے خاتمہ ہی کا اعلان کر دیا گیا۔ یہ پہلا دھچکا تھا۔ البتہ پہلے پہل "محبتیں” اور پھر "کبھی خوشی کبھی غم” کے ذریعے اس نے اپنی بادشاہ کی کرسی، اپنے مخصوص اسٹائل میں، پھر حاصل کر لی۔

یہ بھی پڑھئے:  سالگرہ مبارک قلم کار - سخاوت حسین

"اوم شانتی اوم” تک وہ تنہا سنیما کو لیڈ کرتا رہا۔ اور "رب نے بنا دی جوڑی” کے ذریعے اس نے اپنے ریکارڈز کو مزید بہتر کیا، مگر پھر "گجنی” کے ساتھ عامر خان کی بڑی واپسی ہوئی، جسے بعد ازاں "تھری ایڈیٹیس” کی کام یابی نے مہمیز کیا۔ ادھر سلمان خان ساؤتھ انڈین فلمز کے ری میک "وانٹڈ”، "ریڈی” اور "باڈی گارڈ” کے ذریعے برسوں پر محیط ناکامی کے حصار کو توڑنے میں نہ صرف کام یاب رہا، بلکہ یک دم اپنی "دبنگ” واپسی کے ساتھ باکس آفس پر چھا گیا ۔ ادھر "مائی نیم از خان”، "را-ون” اور "ڈان” جیسی فلمز گو سرائی گئیں، بالخصوص مگر "مائی نیم از خان” نے انٹرنیشنل مارکیٹ میں کئی ریکارڈز اپنے نام کیے، مگر مجموعی طور پر یہ فلمزکام یابی کی دوڑے میں پہلے استھان سے دور دکھائی دیں۔ یہ پہلا موقع تھا، جب اپنے طویل کیریر میں شاہ رخ خان باکس آفس کی جنگ میں کچھ پیچھے رہ گیا تھا۔

گو اس نے "چنائی ایکسپریس” کے ذریعے ریکارڈ ساز کم بیک کیا، اور "ہپی نیو ایئر” کے ذریعے کام یابی کا تسلسل قائم رکھنے کی ایک حد تک کوشش کی، مگر ایک جانب جہاں اس کی آنے والے فلمز کو ناکامی کا سامنا رہا، وہیں اس کے حریفوں کے ستارے پورے قوت سے دمکنے۔ عامر خان نے "پی کے” اور "دنگل” جیسی بلاک بسٹرز فلمز دیں، تو ادھر سلمان خان نے "کک”، "ٹائیگر سیریز”، "سلطان” اور "بجرنگی بھائی جان "کے ذریعے سپر ہٹ فلمز کے ڈھیر لگا دیے۔ شاہ رخ خان، جو کل تک اکیلا بادشاہ تھا، اب باکس آفس کی ریس میں ہمیں تیسرے یا کہیں کہیں چوتھے نمبر پر دکھائی دینے لگا تھا۔وہ فن کار، جو کل تک کہا تھا کہ وہ اپنے مدمقابل کسی کو نہیں دیکھتا، اب تسلیم کرنے لگا کہ باکس آفس پر عامر اور سلمان اس سے آگے ہیں۔

اس نے جو بھی فیصلے لیے، وہ غلط ثابت ہوئے۔اس نے تھری ایڈیٹس، منا بھائی، لگان، ایک تھا ٹائیگر، جودھا اکبر اور روبوٹ جیسی فلمز کو ہاتھ جانے دیا تھا، مگر کیریر کے اس موڑ پر مزید غلطیاں اس کی منتظر تھیں۔ "دل والے” میں روہیت شیٹھی نے "چنائی ایکسپریس” کے تجربے کو دہرانے کی کوشش کی گئی، اور پہلی بار اپنی فلم میں تھوڑی بہت کہانی اور ٹوئسٹ شامل کیے، مگر خان کی خوداعتمادی، بھنسالی سے کلیش اور عدم برداشت تنازع فلم کو لے بیٹھا اور چار سو کروڑ کرنے کے باوجود وہ یک سر بھلا دی گئی۔”جب ہیری میٹ سجل” میں وہ ایک نیم پخت، ناکام اسکرپٹ کے ساتھ لوٹا، جو کچھ بھی ثابت نہیں کرسکا۔ "رئیس” میں کچھ دم تھا، مگر وہ ایک غلط ریلیز ڈیٹ کے باعث لاحاصل کلیش میں الجھ گئی اور باکس آفس پر موجودگی کا پوری طرح احساس نہیں دلوا سکی۔

برسوں قبل "را-ون” سے وہ وی ایف ایکس کے عشق میں مبتلا ہوا تھا، اور اب وہ اس عشق کی بھاری قیمت چکانے والا تھا۔ "فین” اور "زیرو” میں وہ یہ سمجھ ہی نہیں سکا کہ ناظرین کے ذہن میں وی ایف ایکس فلمز سے جڑے مطالبات اور توقعات کیا ہیں ۔ نہیں پرکھ سکا کہ جب فلم بین "باہوبلی” جیسے دیوقامت مناظر دیکھ چکے ہوں، تو بھلا ببوا جیسا پست قامت کیوں دیکھیں گے ۔ رہی سہی کسر کمزور اسکرپٹ نے پوری کر دی۔ بھاری بجٹ سے بنی "زیرو” کی بدترین ناکامی کے بعد یہ اعلان کر دیا گیا کہ خان کا خاتمہ ہوچکا ہے ۔ اور یہ بے سبب نہیں تھا۔ انٹرنیشنل مارکیٹ میں اس کے اسٹارڈم میں واضح دراڑ نظر آنے لگی تھی اور لوکل مارکیٹ میں اس کے فیصلوں نے اسے اجنبی بنا دیا تھا۔ ادھر ساؤتھ سے آنے والے نئے رنگوں نے بالی وڈ کو لپیٹ میں لے لیا تھا۔

گو بازگشت تھی کہ وہ کچھ ہدایت کاروں سے رابطے میں ہے، مگر کسی نوع کا بڑا اعلان نہیں ہوا۔اس نے خاموشی اختیار کی اور مداحوں میں مایوسی بڑھنے لگی۔ پھر کورونا آن دھمکا۔ اس وبا کے دوران عالمی سنیما ہی کی موت کا فیصلہ سنا دیا گیا ۔ ادھر او ٹی ٹی کے پر پھیلنے لگے۔ 2022 میں جب انڈین سنیما کی خوف اور اندیشوں کے ساتھ واپسی ہوئی، تو بالی وڈ پر ساؤتھ کی فلمز کا غلبہ واضح نظر آنے لگا۔ فقط راجا مولی اور پرشانت نیل ہی کی فلمز ناظرین کو سنیما گھروں میں واپس لا سکیں۔
ایسے میں جب خان کی جانب سے 2023 میں تین فلمز کا اعلان کیا گیا، تو اس خبر نے مداحوں اور فلم بینوں کے تجسس کو تو مہمیز کیا، مگر ہنوز کئی سوالات تھے۔ سوالات کہ کیا وہ لوٹ سکے گا؟ لوٹا، تو کیا اپنی کرسی دوبارہ حاصل کرسکے گا؟ کیا بالی وڈ میں اب اتنا دم ختم ہے کہ دنگل جیسی بلاک بسٹر فلم دے سکے؟ ابھی یہ خدشات گردش کر رہے تھے کہ اس کے بیٹے کی ڈرگس کیس میں گرفتاری سے مزید سوالات پیدا ہوگئے۔ اور ہمیں شاہ رخ خان کا کیریر اس گلیشئر سا لگنے لگا، جو تیزی سے پگھل رہا ہو۔ اور کسی بھی وقت ڈھے جائے گا۔

یہ بھی پڑھئے:  ہندی سینما اور عقیدہِ آواگون

مگر سال 2023 کے لیے اس کے ارادہ یک مختلف تھے ۔ یہ ایک نیا روپ تھا۔ چار سالہ ناکامی، "بے شرم رنگ” سے جڑا تنازع، بیٹے کا کیس اور بائیکاٹ گینگ کا شور، اس کے باوجود خان نے "پٹھان” کی صورت ریکارڈ ساز واپسی کی، جس نے مخالفین کو ششدر کر دیا۔ صرف خان ہی نہیں، بالی وڈ بھی لوٹ آیا۔ کورونا کا خوف ٹوٹا، بند سنیما گھر کھلنے لگے، اور نمبرز گیم میں ایک ڈرامائی جست دکھائی دی۔ بالی وڈ نے پہلی بار پانچ سو کروڑ نیٹ اور عالمی مارکیٹ میں ہزار کروڑ کا بے بدل ذائقہ چکھا۔ سال کے وسط میں ہم نے اسے ایٹلی کی فلم "جوان” میں دیکھا، جس نے نہ صرف تاریخ ساز کام یابی حاصل کی، بلکہ نارتھ اور ساؤتھ سنیما کے درمیان ایک پل کا بھی کردار ادا کیا۔ سال کے آخر میں ہم نے اسے راج کمار ہیرانی کی "ڈنکی” میں دیکھا، جسے پھر ایک کلیش درپیش تھا، مگر حالات اس بار ساز گار تھے۔ فلم کسی نہ کسی طرح اس بحران سے نکل ہی گئی۔

تو ہم نے تین برسوں کا ذکر کیا، 1993، 1995 اور 2023 اور آخری برس یوں اہم ترین رہا کہ 2023کے بعد شاہ رخ خان کی کام یاب فلموں کی ترتیب یک سر بدل گئی ۔ اب جب ہم اس کی کام یاب ترین فلموں کی فہرست بنائیں گے، تو پہلے نمبر پر جوان، دوسرے پر پٹھان، اور ممکنہ طور پر تیسرے نمبر پر ڈنکی کو رکھیں گے۔ خان نے ایک سال میں ڈھائی ہزار کروڑ کا ناقابل یقین بزنس کر کے ہندوستانی فن کاروں میں ایک انوکھا مقام حاصل کر لیا۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا، جس کا سال 2023 میں تصور بھی محال تھا۔ کوئی تجزیہ کار، یہاں تک کوئی جذباتی مداح بھی دعوی کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ مگر یہ رونما ہوا۔ سوال یہ ہے کہ کیا شاہ رخ خان کو ایک بار پھر 2023 جیسا سنہری سال میسر آئے گا؟ کیا وہ پھر اس نوع کی کام یابی دہرا سکے گا؟ بہ ظاہر یہ مشکل نظر آتا ہے کہ ایک سال میں کسی فن کار کی دو فلموں کا ہزار ہزار کروڑ کا سنگ میل عبور کرنا کسی طور سہل نہیں۔ مگر کیا خبر، آنے والے برسوں میں ایک اور 2023 اس کا منتظر ہو۔

حالیہ بلاگ پوسٹس