Qalamkar Website Header Image

سرائیکی وسیب دی شان۔۔۔۔۔۔شاکر شجاع آبادی

abdul-razaq-shareefاللہ تعالیٰ نے انسان کوکائنات میں بھیجا تو ساتھ ہی اسے جذبات کے اظہار کے لیے زبان جیسا خوبصورت تحفہ بھی عطا کیا۔اور یہ زبان ہی ہے جس کے بہترین استعمال سے انسان کسی کے دل میں ہمیشہ کے لیے جگہ بنا لیتا ہے تو کوئی اسی زبان کے نا مناسب استعمال کی وجہ سے نفرتوں کا باعث بنتا ہے۔تہذیبی ارتقاء کے ساتھ ساتھ جذبوں کے اظہار کے لیئے شاعری جیسا لطیف ذریعہ وجود میں آیا جسے دنیا کی ہر قوم اور زبان میں فروغ ملا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔شاعری ایسے جذبے کا نام ہے جو دلوں میں گداز اور روح میں شائستگی پیدا کرتا ہے۔اسی شاعری نے اگر ایک طرف اقبال کو مولانا روم کا شا گرد بنا دیا تو دوسری طرف اولیاء اللہ نے اسی شاعری کے ذریعے مخلوق خدا کو خدا کے در پر جھکانے کا کام لیا۔اقبال کی شاعری اگر قوم کو خواب غفلت سے بیدار کرتی ہے تو بابا فرید کی شاعری عقل و معرفت کے اسرار و رموز سمجھاتی ہے جبکہ جالب اور فیض جیسی نابغہء روزگا ر ہستیوں کی شاعری ایک عام شہری کو ظالم قوتوں کے آگے ڈٹ جانے اور انقلاب کاپیغام دیتی ہے۔آج اس نفسا نفسی اور مادہ پرستی کے دور میں جب ہر انسان کا قبلہ دھن دولت اور لا تعدا مادی خواہشات کا حصول ہے اورہر طرف سے مفاد پرستوں کا ٹولہ ہالہ بنائے ہوئے ہے تو ایسے میں سکون کے متلاشی لوگ ہمیشہ اچھی موسیقی،عمدہ کتاب یا سبق آموز فلم کے انتظار میں ضرور رہتے ہیں
گو آج اظہا ر خیالات کے ذرائع تبدیل ہو گئے ہیں پرنٹ میڈیا کی جگہ سوشل اور الیکٹرانک میڈیانے لے لی ہے مگر آج بھی با شعور قارئین کے شوق کا تسلسل قائم ہے۔
ایسے شعراء جن کی شاعری انسان کو سر دھننے پر مجبور کر دے اور لوگ سننے کیے لیئے کھنچے چلے آئیں آج کے دور میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ایک ایسی ہی نابغہء روزگار ہستی جنہوں نے اپنے سرائیکی اور پنجابی کلام سے شہرت کی بلندیوں کو چھوا ،شاکرشجاع آبادی ہیں جنطکا اصلی نام محمد شفیع اور جن کا تعلق جنوبی پنجاب کے ایک پسمانده علاقے سے ہے۔انہوں نے ایام جوانی میں ہی شاعری شروع کر دی تھی لیکن ان کو اصلی شہرت ۱۹۸۶میں ریڈیو پاکستان ملتان کے ایک مشاعرے سے ملی۔یہ شاکر کی بلندیوں کا نکتہء آغاز تھا جسکے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔وہ ملتان،بہالپور،لاہور کے علاوہ پاکستان کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں یکساں مقبول ہوئے۔انہوں نے اپنی شاعری میں مظوم اور پسے ہوئے طبقے کے لیئے آواز اٹھائی جسے نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بڑی سنجیدگی کے ساتھ سنا گیا۔مثلا ایک جگہ وہ یوں رقم طراز ہیں۔۔۔۔۔۔۔
فکر دا سجھ ابھردا ہے
سچیندیں شام تھی ویندی
خیالاں وچ سکوں اج کل
گولیندے شام تھی ویندی
انہاں دے بال ساری رات روندن
بکھ توں سمدے نہیں
جنہاں دی کہیں دے بالاں کوں
کھڈیندے شام تھی ویندی
ان کی مشہور زمانہ کتابوں میں لہو دا عرق،بلدیں ہنجو،،منافقاں تو خدا بچاوے،پیلے پتر،روسیں توں دھاڑیں ما ر مار کے شامل ہیں جن کے قلیل مدت میں درجنوں ایڈیشن چھپے اور عوام میں بہت مقبول ہوئیں۔حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے سلسلے میں2007ء میں انہیں پرائیڈآف پرفارمنس سے نوازا۔لیکن قسمت کی ستم ظریفی کہ فالج کے حملے کے نتیجے میں ان کی بولنے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی اور اپنے زورکلام سے لوگوں کو متاثر کرنے والے شاعر کو بیماری نے بری طرح متاثر کیا۔ وہ ایک طویل عرصے سے صاحب فراش ہیں۔اگرچہ حکومت نے ان کی دیکھ بھال اورعلاج معالجے کے لیئے اقدامات تو کیے ہیں۔مگر ان کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صحت کی وجہ سے یہ اقدامات ناکافی نظر آتے ہیں،اس لئے ارباب اقتدار سے التماس ہے کہ ان کو جلد از جلد جدید اور فوری علاج کے لیئے بیرون ملک بھجوایا جائے اور ان کے خاندان کے افراد کی بھرپور مالی اعانت کی جائے۔بقول شاکر۔۔۔
میڈا چن غیراں دی محفل دی ہووی گفت شنید مبارک
میکوں اپنے خام نصیباں دا ہر دور شدید مبارک
تیڈی سوچ توں ودھ رل شاکر گئے ہاں ہووی یار مزید مبارک
میکوں روندے سال دی رات ولی تیکوں دوجی عید مبارک

حالیہ بلاگ پوسٹس

آئس کینڈی مین – تقسیم کی ایک الگ کہانی

بپسی سدھوا پاکستانی، پارسی ناول نگار ہیں۔ اِس وقت ان کی عمر اسی سال ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان کے ان چند انگریزی ناول نگاروں میں سے ایک ہیں جنہوں

مزید پڑھیں »

زیف سید کا ناول گل مینہ

زیف سید کا ایک تعارف بی بی سی پر لکھے گئے کالم ہیں۔ وہ اپنے منفرد اسلوب کی بنا پر بی بی سی کے چند مقبول کالم نگاروں میں سے

مزید پڑھیں »

جنگ جب میدانوں سے نکل کر آبادیوں کا رخ کرتی ہے۔

”سر زمین مصر میں جنگ“ مصری ناول نگار یوسف القعید نے 1975 لکھا ہے۔ جو ہمیں بتاتا ہے کہ جنگ کی وجہ سے کسی ملک کے غریب باشندوں پر کیا

مزید پڑھیں »