دوستووئیفسکی کے ”جرم و سزا“ نے وحشت ذدہ کر دیا تھا۔ جیل میں ہونے والے مظالم کا پہلا تعارف تو ”زندان کی چیخ“ کے کچھ حصے تھے۔۔ طاہر بن جلون نے ”یہ بصارت کش اندھیرے“ جو فضا تخلیق کی بطور قاری اس تجربے سے گزرنا بہت منفرد تجربہ تھا۔ یہ تصور کس قدر حواس پر طاری ہونے والا ہے کہ کوئی شخص اپنی زندگی کے کئی دن اور رات تنہائی اور بے سر و سامانی کی ایسی حالت میں گزار دیتا ہے جس کو سننا بھی پاگل کر دینے کے مترادف ہے۔

عمر ریوابیلا کا یہ ناول وحشت، ظلم و جبر آمریت کی سزاوں اور سفاکیت کی اس داستان کو بیان کرتا ہے کہ جسے کئی جگہوں پر بطور قاری برداشت کرنا مشکل ہو
جاتا ہے۔ اس قدر ظالمانہ سزاوں کو تصور میں لانا نہ صرف خوف اور بے چینی کی کیفیت پیدا کرتا ہے بلکہ اس کو برداشت کرنے کے لیے بے حسی کے الگ درجے پر فائز ہونا پڑتا ہے۔
ناول ارجینٹینا میں آمریت کے بعد ہونے والے ظلم و جبر کے واقعات پر مبنی ہے۔ جسے صاف شفاف تکنیک اور اظہار کی سادگی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ کہانی اپنے آغاز سے اختتام تک آپ کو ساتھ جوڑے رکھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ کارلوس فوینتیس سے ایک امریکی ادیب نے سوال کیا کہ تم لاطینی امریکہ والے شیطان کی آنت جتنے لمبے ناول کیسے لکھ لیتے ہو جبکہ ہمارے ناول مختصر سے مختصر ہوتے جا رہے ہیں۔ کالوس فوینتیس نے کہا ”ہمارا مسئلہ یہ احساس ہے کہ ہمارے پاس لکھنے کے لیے سب کچھ ہے۔ کہ ہمیں چار صدیوں کی خاموشی کو پُر کرنا ہے۔ کہ اس شے کو قوت گویائی بخشنی ہے جسے تاریخ نے خاموش کر دیا“۔
یہاں عمر ریوابیلا نے 125 صفحات میں جو لکھا ہے وہ صدیوں کی داستان نہیں بلکہ بس دو مہینوں کے واقعات کی روداد ہے جس میں اپنے قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے کی مکمل طاقت ہے۔ اس کے بعد 75 صفحات کی وہ گفتگو جو ناول پر آصف فرخی، انور سن رائے اور پروفیسر ڈاکٹر ہارون صاحب کے درمیان ہوئی وہ تیسری دنیا کے ممالک اور خاص کر ہمارے ہاں مخصوص ادوار میں ابھرنے والے متشدد گروہوں اور ریاستی سفاکیت کو سمجھنے اور اس کے پیچھے کارفرما نفسیاتی عوام کو جاننے کے لیے نہایت مفید ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn