آیت اللہ علامہ طالب جوہری قبلہ جیسی ہستی کا اس دنیا سے گزر جانا پوری ملت اسلامیہ کے لیے ایک عظیم صدمہ ہے اور قارئین اس بات کا بخوبی احساس کر سکتے ہیں کہ جب ہر مسلک و مکتب سے بالاتر ہو کر علامہ سے محبت کرنے والے سوگوار ہیں ایسے عالم میں اس عظیم سانحہ پر علامہ صاحب کے خانوادے کا کیا حال ہوگا۔
علامہ کا پورا خانوادہ اس سوگ کے عالم کے باوجود خود عزم و حو صلے کی مثال بن کر انتہائی خندہ پیشانی سے تعزیت پیش کرنے والوں سے دن رات مل رہا ہے اور فون پر بھی تعزیت کا جواب دے رہا ہے۔ ایک ایسے عالم میں جب خانوادے کو پہلے ہی بہت تکلیف اور دکھ کا سامنا ہے ایسے وقت میں سوشل میڈیا کا بے لگام استعمال ان کے دکھ اور تکلیف میں مزید اضافہ کا سبب بن رہا ہے۔
اس وقت ہر شخص سوشل میڈیا پر علامہ کی شخصیت و حیات سے منسلک اپنےخیالات و تاثرات کا اظہار کر رہا ہے، کچھ بہت اچھی تحریریں بھی لکھی گئی ہیں مگر زیادہ تر انتہائی غیر مصدقہ، جھوٹی و بے بنیاد باتیں علامہ صاحب سے منسلک کی جا رہی ہیں۔ لوگ ایسا ظاہر کر رہے ہیں جیسے علامہ صاحب کا قریبی ساتھ ہو یا وہ بہت قریب سے انھیں جانتے ہوں۔
ایسی ہی ایک تحریر "علامہ طالب جوہری کی زندگی کے کچھ پوشیده سچ” نظر سے گزری جو اپنے عنوان یعنی سچ سے متضاد تھی۔مجھے نہیں معلوم کہ فاضل مصنف نے کس سے سن کے یا گڑھ کے وہ واقعات تحریر کیے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان جھوٹی باتوں کا جواب دینا واجب ہے تاکہ ایسی تحریریں کسی اور جگہ شایع نہ ہوں۔
پہلی بات یہ کہ قبلہ جوہر صاحب کا کوئی ہدیہ طے نہیں تھا اور یہ بات بالکل جھوٹ ہے۔ دوسری بات علامہ طالب جوہری صاحب سال میں ایک مرتبہ ضرور پاکستان ایک سے ڈیڑھ مہینے کے لیے تشریف لاتے تھے اور زیادہ تر رمضان کا مہینہ پاکستان میں گزارتے تھے تو آٹھ سال بعد آنا اور مسئلہ کلالہ سے منسلک بات کا سرے سے وجود نہیں ہے۔ علامہ سن 65 میں پاکستان واپس تشریف لاچکے تھے اور ایسا نہیں ہوا کہ وہ تعلیم مکمل کر کے آئے ہوں اور پھر جوہر صاحب قبلہ کے کہنے پر دوبارہ گئے ہوں۔ یہ واقعہ سو فیصد جھوٹ پر مبنی ہے۔
تیسری بات کیا ایسا ممکن ہے کہ علامہ طالب جوہری قبلہ اپنے والد ماجد مولانا محمد مصطفیٰ جوہر صاحب سے وسائل کی تنگی کا ذکر کریں گے۔ مجھے بہت افسوس ہے مصنف کے سخت الفاظ پر جو یہ نہیں جانتے کہ علامہ طالب جوہری صاحب قبلہ کی آنکھوں میں عالی جناب مولانا محمد مصطفیٰ جوہر صاحب کا کیا مقام و مرتبہ تھا۔ علامہ صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ میرے والد دنیا پر آشکار نہیں ہوئے اور دنیا انھیں ٹھیک سے نہیں جانتی ہے۔
آخری بات جوہری علامہ صاحب کا تخلص ہے اور کا نام ابو طالب ہے۔ اسی طرح قبلہ جوہر صاحب کا نام محمد مصطفیٰ ہے اور جوہر تخلص ہے۔ علامہ طالب جوہری اپنے والد کے تخلص کی نسبت سے "جوہر” سے "جوہری” ہوئے تھے۔ آخر میں دست بستہ درخواست ہے کہ اول تو ایسے واقعات جو مبنی برحقیقت نہ ہوں انھیں نہ لکھا جائے اور اگر کسی سے سنے ہوں تو ان کا نام لکھا جائے تاکہ راوی کے مستند ہونے میں شبہ نہ ہو۔
آخر میں آپ سب کو علامہ جیسی ہستی کے اس دنیا سے گزر جانے پر تعزیت پیش کرتا ہوں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn