بدقسمتی سے پختونخوا میں ولی خان کے بعد سیاسی عوامی مفکر پیدا ہی نہیں ہوا۔ میرے محدود علم کے اور معلومات کے مطابق ایسا کوئی بندہ اب کے پختونخوا میں ہے ہی نہیں جس کی عوامی مقبولیت بھی ہو اور علم سماجیات کا ماہر بھی ہو۔ افراسیاب خٹک، لطیف آفریدی، خادم حسین ،ڈاکٹر سہیل ،سید عالم محسود وغیرہ جو کہ اس کل وقتی خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ان کو پختونوں کے سب مسائل کا ادراک بھی ہے اور حل بھی ان کے پاس ہے مگر یہ کتابی لوگ زمینی حقائق کا سے نابلد اور نا خبر ہیں، کیونکہ سماج کا مرکزی نقطہ عوام ہوتے ہیں اور عوام کی اجتماعی رائےقوموں کی مستقبل کا تعین کرتی ہے ۔
آپ اندازہ لگا لیں جب وزیرستان کے جوشیلے نوجوان جذبات کی عروج پر تھے اور یہاں تک چلے گئے تھے کہ اپنے علاوہ کسی کو پختون نمائندہ سمجھتے ہی نہیں تھے حتیٰ کہ اپنے احتجاجوں میں پارٹی جھنڈا لانے پر پابندی لگا دی اور یہ تاثر دیا کہ احتجاج کے لیے پارٹی چھوڑنی ہو گی، جو کہ ایک بچگانہ فیصلہ تھا، تو یہ سارے دانشور صاحبان بجائے ان نوجوانوں کو سمجھانے کےخود اسٹیج اور شہرت کے لالچ میں بہہ گئے۔اگر ان حالات میں حاجی غلام بلور اور اسفندیار ولی خان کچھ غیرمقبول فیصلے نہ لیتے تو تشدد اور انارکی کی ایک نئی لہر سب کچھ بہا لے جاتی۔
یہی حال کچھ نام نہاد دانشوروں نے پختون اور افعان کے مسئلے کا کیا ہے۔اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ دریائےآمو سے لیکر اباسین ( دریائے سندھ) اور چترال سے لیکر بولان بشمول مارگلہ اٹک میانوالی یہ افعان قوم کا علاقہ ہے اور اس میں رہنے والے سب کے سب برابر کے افعان ہیں۔ اس علاقے میں شمال میں تاجک ازبک وغیرہ،سنٹرل اور جنوب میں پختون ،ہندکو اور اوپر مارگلہ پر جدون ،تنولی، گجر ،اعوان وغیرہ جن کو مجموعی طور پر ہزارہ کہتے ہیں اور ساتھ چترالی یہ سب افعان ہیں۔
عددی اعتبار سے پختون باقی قوموں زیادہ ہےاور تقریبا ٪55 ہیں مگر ایسا نہیں کہ غیر پختون افعان نہیں ہیں۔ افعانستان میں پشتو کے ساتھ ساتھ فارسی کو بھی دفتری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے اور پختونخوا میں یا پاکستان میں رہنے والوں کا یہ مسئلہ ولی خان نے اس طرح ختم کیا کہ رابطہ کی زبان اردو ہو گی یہاں تک کہ صوبائی اور دفتری زبان بھی اردو ہو گی اور مادری زبانوں کی ترویج اور ترقی کے لیے کام ہو گا۔ ولی خان کے پورے سیاسی کئیریر میں پختونوں کے نام سے کوئی سیاسی پارٹی ہے ہی نہیں۔
آج کچھ وقتی دانشور جو کے پختونوں کی کم علمی سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ولی بابا پر تنقید بھی کرتے ہیں ان کو مسائل کی حساسیت کا ادراک ہی نہیں ۔ان کو معلوم ہی نہیں افعانیت ہے کیا۔ اگر بات افعانیت کی ہو گی تو سب کی برابری کی ہو گی۔
بشیر بلور شہید کی دعائے قل ہندکو میں پڑھائی گئی حاجی عدیل ،بلور فیملی،سید عاقل شاہ،ارم فاطمہ ترک،خدیجہ چترالی یہ سب افعان ہی ہے۔ہر پختون افعان ہے مگر ہر افعان پختون نہیں ہے۔اب اس خطے کے قوم پرستوں کو ہزارہ اور چترال کے محرومیوں کے ازالہ کے لیے جامع منصوبہ بنانا ہو گا۔اس بات کی سائنسی تحقیق کرنی ہو گی کہ ہزارہ، چترال ،میانوالی ڈیرہ اسماعیل خان میں قوم پرست پارٹیاں کیوں کمزور ہو رہی ہیں۔
نوجوان قوم پرست لیڈرز کو بھی ان حساس معاملات کا ادراک ہونا چاہیے۔لر او بر کے فلسفے کو سمجھنا ہو گا کیونکہ بات ووٹ کے نہیں نظریات کی ہے۔بیان بازی سے پہلے چیزوں کو سمجھنا ضروری ہے اور یہ مشورہ بھی دوں گی کہ ولی خان بابا نے ولی باغ میں جو کتابیں لائبریری میں جمع کی ہیں ان کو پڑھنا لازم ہے۔ اسی طرح پختونخواہ وطن میں بہت ساری چھوٹی زبانیں ہیں جو کہ وقت کے ساتھ معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ نظریہ باچا خان کے پیروکاروں کی ذمہ داری ہے کہ ان زبانوں کے تحفظ کے لیے کام کیا جائے ورنہ ایسا نہ ہو ہم تاریخ میں تنگ نظر کہلائیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn