Qalamkar Website Header Image

“ یوم مئی ۔۔ ایک پُرانا دُکھڑا “

"بیٹا پلیز اب ٹینشن نہ لو ۔۔۔ دیکھو میں کہہ رہی ہوں نہ ۔۔ آپ کے پاپا جیسے ہی دوبئی سے آئیں گے ہم سمر وکیشن پر اس بار انگلینڈ جائیں گے ۔۔۔۔ میرا آپ سے وعدہ ہے ۔۔ اب جلدی جلدی یہ نوڈلز کھا لو ۔ آُپ نے صبح بھی ٹھیک سے ناشتہ نہیں کیا”
"نو ماما نو ۔۔۔میرے ہر کلاس فیلو نے کل کلاس میں مجھے بہت چھیڑا ہے کہ تم صرف وکیشن پر مری ہی جا سکتے ہو”
"نو ماما ۔ میری دبئی پاپا سے بات کروائیں ۔۔ جب تک وہ پرومس نہیں کریں گے میں کھانا نہیں کھاؤں گا ”
” اچھا بیٹا ویٹ کرو ۔ میں آپ کی پاپا سے بات کرواتی ہوں ، بس ٹھیک ہے "۔

چائے کے ڈھابے پر چلتے ٹی وی ڈرامے کو دیکھ کر وہاں بیٹھے ہر غریب کی آنکھیں حسرت کی اُدھڑی ہوئی چادر میں پیوست ہو رہی تھیں ۔ 12 سال کا چھوٹا گلو گندہ رومال کاندھے پر ڈالے ہر نئے گاہک کو چائے کو پوچھتا اور خان مالک کو آڈر لگاتا ۔ اونچی آواز میں لگےہوئے ڈرامے کے ایک سین نے سب کو متوجہ کر لیا ۔

"بیٹا پنٹو!  پلیز بابا اس وقت میٹنگ میں ہیں فون پک نہیں کر رہے ۔ آپ ٹینشن نہ لو ۔ یہ نوڈلز کھا لو ، تھوڑی دیر میں کال آ جائے گی "۔  لیکن پنٹو نے رونا شروع کر دیا۔ ماما کی جان پر بن گئی، کبھی کچھ دلاسے دلاتی کبھی کچھ بہانے سے چُپ کرواتی ۔ ڈھابے پر کام کرنے والا گُلو گندی میز پر چائے کے داغ مٹاتے ہوئے ڈرامے پر ٹکٹی باندھے سین کو اپنی پتھرائی آنکھوں سے محو ہوئے دیکھ رہا تھا ۔ اچانک ٹھابے کے مالک کی آواز آئی ۔
"گُلو !کہاں مر گیا؟ اتنی دیر ؟ یہ چائے بن گئی ہے گاہکوں کو نمٹا جلدی جلدی ، ورنہ میں آیا تیری خبر لینے "۔

گُلو جلدی سے مالک کی آواز کی طرف لپکا ۔۔ اُس کی آنکھیں ڈرامے میں پیش ہوئی معاشرتی ناہمواریوں کی قدروں سے ہٹ نہیں رہی تھیں ۔صرف مُڑتے مڑتے جانے وہ کتنی بار ٹوٹا ہو گا ، تڑپا ہو گا ، اپنی بےچارگی پر خون ریز آنسو بہائے ہوں گے ۔اپنے کئی دنوں سے گندے کپڑوں کو دیکھ کر پنٹو کے زیب تن کپڑوں کی قیمت میں کھو گیا ہو گا ۔یہ معاشرہ جو اللہ کے نام پر بنا تھا،جس میں یکساں حقوق کی بازگشت نے اپنا گھروندہ خود بنایا تھا ، جس معاشرے کی آخری بلند آواز کلمہ پر منحصر تھی،جہاں پھول یکساں رنگ کے تھے ، جہاں ہر کسی کو آباد جہاں کا بلند منصب ملنا تھا، جہاں زندگی اپنے یقین سے بے شمار سانسیں لے سکتی تھی ،وہ معاشرہ  طبقے کے ظالم قدآور رویوں کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے ۔ جہاں خواہشیں دوسری دہلیز پر جانے سے جھلس جاتی ہیں ۔ جہاں ہر دوسرا پہلے کے سروں پر پاؤں رکھے کھڑا ہے ۔ جہاں روشنی اُدھار ملتی ہے اندھیرا مفت ملتا ہے ۔ جہاں بصیرت نظر نہیں آتی اندھیرا جا بجا بکھرا پڑا ہے ۔ جہاں سوکھتے جذبات کی چیخ مارتی لاشیں جا بجا گل سڑ رہی ہیں ۔ جہاں وسوسوں کےدوڑنے کےلئے کھُلے میدان خالی پڑے ہیں ۔ جہاں یقین ڈھونڈنے سے نہیں ملتا جبکہ ظن کے بازار مصر لگے ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  پانی پانی کرگئی مجھ کو ’جاپانی ‘کی یہ بات - گل نوخیز اختر

ایسے معاشرے میں پنٹو اور گلو کے درمیان کا فاصلہ کیسے مٹ سکتا ہے ؟ کیسے برابری کا چولا ہر نگاہ دونوں زیب تن کر سکتے ہیں  ؟ کیونکر ممکن ہے کہ پنٹو کی خواہشوں میں گُلو کا نصیب جُڑ جائے ؟؟ آخر وہ کون سی منطق ہے کہ معاشرے میں انسان تو مل جاتے ہیں لیکن ” بندے ” نہیں ملتے ؟

لفظوں کی بہتات میں جُڑی یہ سوچیں اُسی ڈھابے میں ایک کونے کی ٹیبل پر بیٹھے حساس طبعیت جاوید کے وجود کو شل کر رہی تھیں ۔ وہ پنٹو اور گلو کے حالات ، خیالات ، رویہ ، چہرے کی روشنی اور اندھیرے بغور دیکھ رہا تھا۔جاوید یہ وجوہات تلاش کر رہا تھا کہ آخر ان دونوں میں یہ زندہ رہنے کی امید کا فاصلہ یک زبان ، یک لہجہ کیوں نہیں ہو سکتا ؟کیا یہ میرے خدا کا کیا دھرا ہے ؟؟؟ جاوید سٹپٹایا ۔ رات مسجد میں مولوی صاحب تو یہی کہہ رہے تھے ۔ یہ تقسیم خدا کی مرضی کا حصہ ہے ؟ کائنات کا کوئی پتا اُس کی اجازت کے بغیر نہیں ہل سکتا۔ پھر یہ تو انسان ہیں ، ان کی تقدیر ان کی زندگی کی آزمائش اللہ ہی نے بنائی ہے ۔ اُس کے کاموں میں ہم مداخلت نہیں کر سکتے ۔

نہیں ایسا نہیں ہو سکتا،  پنٹو میرے خدا کا رشتہ دار نہیں ۔ اور گُلو کے خاندان نے خدا کی ملکیت پر قبضہ نہیں کیا ہوا ۔یہ سماج کی اپنی بنائی دیواریں ہیں ،اپنی کھودی ہوئی خندقیں ہیں جو ایک دوسرے سے فاصلہ اور ایک دوسرے کو غرق کرنے کی غرض سے بنائی ہوئی ہیں ۔معاشرے نے اپنی خاک کو خدا کی ہدایت پر ڈال دیا ہے ۔معاشرہ خدائی راستے سے بھٹکا ہوا ہے ۔ وہ بے سمت منزل کی طرف گامزن ہے جہاں صرف سفر کا گھنگھور اندھیرا ہے ۔۔ ہم اپنے لئے کے علاوہ کسی کےلئے نہیں سوچتے ، ہم تبدیل نہیں ہوناچاہتے لیکن سارا معاشرہ تبدیل کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے ۔۔

یہ بھی پڑھئے:  عریاں مناظر اور ننگی گالیاں، کیا یہی ہے نیا بھارتی فارمولہ؟ دوسرا حصہ

وہ خدا یکساں پالن ہار ہے ۔ وہ ایسا نہیں کرسکتا ، اگر پنٹو اور گلو میں فاصلہ مٹانا ہے تو ہم سب کو مل کر ہی کچھ کرنا ہوگا ، ریاست کو اپنا حصہ ڈالنا ہو گا ،، میڈیا کو امرا کے مسائل سے باہر نکل کر حقیقت کے اوراق کو پیش کرنا ہو گا ۔۔ معاشرتی ناانصافیوں ، ناہمواریوں ، بے قدر رویوں ، اونچ نیچ کی گہرائیوں ، مفلس کی داد رسیوں کو بے لوث عبادت سمجھ کر عیاں کرنا ہو گا ۔

تبھی سوکھی فصلوں میں آبیاری کا موسم آئے گا ۔
تبھی اندھیر سماج میں روشنی کی امید جاگے گی ۔
تبھی طبقاتی ناہمواری کی جڑیں ختم ہوں گی ۔
تبھی معاشرے میں انسان سے بندے بنیں گے ۔
تبھی سورج کی روشنی ہر گھر میں یکساں پڑے گی ۔
تبھی بنیادی سہولتیں ہر گھر کی زینت بنیں گی ۔
تبھی حسرت صرف خواہش نہ ہوگی بلکہ خوشی ہوگی ۔
تبھی زندگی ہر آنگن ناچے گی اور خوف دور کھڑا شرمندہ ہو رہا ہو گا ۔
تبھی چاندنی اپنی ٹھنڈک سے مسحور کن نیند دے گی ۔
تبھی سحر نموکی سُرخی ظلمت کے اندھیروں کے خاتمے کا پیغام لائے گی ۔

ان تمام "تبھی "کے بعد کیا ہوگا ؟
"پھر ہم پنٹو اور گلو کو ایک میدان میں اکٹھا کھیلتا دیکھ پائیں گے "۔
جاوید ٹھنڈی چائے کا آخری گھونٹ پی کر امید بھری آنکھیں لئے ڈھابے سے رخصت ہو گیا ۔۔۔

حالیہ بلاگ پوسٹس