Qalamkar Website Header Image

کرونا۔۔۔ اور قلم کا رونا!!

رونا یہ نہیں کہ کرونا جان لیوا ہے… رونا یہ ہے کہ تیرے نام لیوا کدھر جائیں، تُو نے اپنا حرم بند کیا تو تیرے حرم کی طرف جانے والے سب راستے بھی بند ہو گئے، تیرے دوستوں نے بھی اپنے حرم کے دروازے بند کر لیے۔ میرے مولا! تُو اسباب کے جہان کا خالق ہے ، تیرا اَمراَسباب کے پردے میں کام کرتا ہے، ظاہر میں سبب کرونا ہے‘ لیکن درپردہ تیرا اَمر یہی ہے کہ ہم تیرے حرم سے دُور ہو جائیں۔ مریض کے لواحقین کو یہی بتایا جاتا ہے کہ مریض کا ہارٹ فیل ہو گیا لیکن اصل میں تو تیرا قاصد تیرے بندے کو لینے کیلئے آتا ہے۔ حادثہ ایک دم کہاں ہوتا ہے‘ فلک برسوں پرورش کرتا ہے۔ حادثہ تو صرف میری توقع کے ٹوٹ جانے کا نام ہے… وہ توقع جو میں سبب اور نتیجے کی دنیا میں قائم کر لیتا ہوں۔ حادثے کا وجود تو مجھ ایسے غافل بندے کیلئے ہے، باطن میں ٗ تیری منشا کے عارفوں کیلئے حادثے کا کوئی وجود نہیں۔

اے مالک ِ ارض وسما! زمین و آسمان میں تیرے لشکر موجود ہیں، اِن میں نظر نہ آنے والے لشکر بھی ہیں… اہل ِ نظر کو نظر آجاتے ہیں۔ اے مالک الملک! ایسے ہی ایک لشکر نے تیرے اِذن سے بنی نوعِ آدم پر حملہ کر دیا ہے۔ اے مالک! تو نمرور کے غرور کو مچھر ایسے حشرے سے خاک میں ملا سکتا ہے، بے شک تجھے مچھر یا اِس سے بھی کم تر کوئی مثال دینے میں کچھ عار نہیں۔
بے شک ہم بنی نوعِ آدم اِس سزا کے مستحق تھے۔ تو نے ہمیں اپنی مادّی دنیا پر ذرا سا تصرف دیا تو ہم فرعون بن بیٹھے، تیرے ہونے کے بارے میں شکوک کا اظہار کرنے لگے، یہاں تک اپنے بے خدا ہونے کو فخریہ بتلانے لگے۔ اطاعت سے انحراف معصیت تک نہیں ٹھہرا بلکہ بغاوت تک جاپہنچا، ہم تجھے ماننے والوں کو بیوقوف سمجھنے لگے، دراں حالیکہ ہم خود بیوقوف تھے لیکن اپنے بے شعور ہونے کا شعور نہ رکھتے تھے۔

اے خالقِ ارض وسما! تُو نے ہمیں اُمت ِ واحدہ پیدا کیا… اور ہم گروہوں میں بٹ گئے، اپنے اپنے مفادات کو مذہب کا رنگ دے کر ایک دوسرے کی گردن مارنے لگے۔ ملک گیری کیلئے تیرے امن و سلامتی والے دین اسلام کو بھی استعمال کرنے سے دریغ نہ کیا۔ تیرے نبی ﷺ تمام جہانوں کیلئے رحمت بن کر آئے اور انہیں ماننے والے ایک دوسرے کیلئے بھی رحمت نہ بن سکے۔ تیرے نبیﷺ نے سبق دیا تھا کہ کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں، ہم نے عرب و عجم کے فاصلے رکھ کو ملکوں کو بھی بانٹ لیا اور تیری عبادات و حرم کو بھی۔ اے ہمارے مالک! اگر تُو نے اپنے حرم کے دروازے ہم پر بند کر لیے تو کچھ تعجب نہیں کہ ہم اِسی کے مستحق تھے۔ تُو مرمر کی سلوں سے ناخوش وبیزار ہے، سنگ و خشت کے زور پراس قدر توسیع در توسیع کے باوجود تُو جب چاہے ٗ ہمیں اپنے حرم سے دُور کر سکتا ہے۔ یہاں ہماری پیشانی جھکی‘ لیکن دل جھکے ہوئے نہ تھے۔ تیرے حرم کے وسیع و عریض کھلے صحن میں ہم اکٹھے ہوئے مگر ہمارے دل بدستور تنگ رہے، یہاں آکرہم تجھ سے معافی طلب کرتے رہے لیکن ایک دوسرے کو معاف نہ کیا۔ ہم نے زیارت کو سیاحت اور تجارت بنا لیا، رسم و رواج کو دین کا درجہ دے دیا، ہم نے نماز پڑھی لیکن نماز قائم نہ کر سکے‘ ہماری نماز دکھاوے کی تھی،شاید حج عمرے بھی دکھاوے کے تھے، ہم نے نماز پڑھی لیکن مسکین کو کھانا کھلانے کی طرف رغبت نہ کی، اپنی غیر ضروری چیزیں بھی کسی ضرورت مند کو نہ ددے سکے، عام روز مرہ چیزیں عاریتاً بھی نہ دیں، ہم نے ایک دوسرے کی زندگی آسان نہ کی۔ ہم نے زندگی یوں بسر کی جیسے یوم الدین گویا قائم ہی نہیںہونا، ظاہر میں ہم نمازی تھے، لیکن بباطن بے نمازی!

یہ بھی پڑھئے:  سیرل المیڈا ساگا اور جعلی لبرل بت کا انہدام

اے ہمارے مالک ! ہم نے تیرے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، ہم اپنی جماعت اور فرقے کی تبلیغ کو دین کی تبلیغ کہتے رہتے رہے، ہمیں اپنے سوا کوئی مسلمان نظر نہ آیا۔ ہمارے طرزِ عمل نے تیرے سچے دین کو دنیا میں بدنام کر دیا۔ سچا دین سچے لوگوں کے کام ہی آنا تھا۔ ہم نے روحانیت کے نام پر بھی کاروبار شروع کر دیے، جائے روحانیت جائے تزکیہ تھی، ہم نے اسے بھی جسمانیات سے آلودہ کر دیا۔ لوگ ہمارے پاس تزکیہ کیلئے آتے، انہیں بے غرض کرنے کی بجائے ہم نے اپنی غرض کو اُن سے منسلک کر لیا۔ الغرض‘ مسجد، مدرسہ اور خانقاہ سے لے کر اسکول، کالج اور یونیورسٹی تک، عدل کے ایوانوں سے لے کر شفا خانوںتک ہم نے کوئی ادارہ ایسا نہیں چھوڑا جسے اپنے مفادات کی بھینٹ نہیں چڑھا دیا۔ معالج اور مریض کا رشتہ شفا اور اخلاص کا رشتہ ہے۔ اخلاص کے بغیر شفا کیسے ملے؟ ہم نے معلمی اور مسیحائی دونوں کو کمائی کا ذریعہ بنا لیا!! اے ہمارے مالک! ہمارے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔ اس موقع پر جب ہم اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں تو سوائے ندامت کے کچھ نظر نہیں آتا۔ ہمارے دامنِ اعمال میں کوئی ایسا بے لوث عمل بھی تو نہیں جو ہم اُن لوگوں کی طرح تیرے سامنے پیش کر سکیں جن کے غار کے دہانے پر سرک آنے والی چٹان کو تُو نے ہٹا دیا تھا۔ بد نظری سے لے کر بدعہدی تک کتنے گناہ ہیں جو ہمارے خلاف فردِ جرم بن چکے ہیں۔ اے ہمارے مالک! ہم اپنی تمام غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں، ہم اپنے گناہوں پر نادم ہیں، تیرے حبیبﷺ کا کہنا ہے کہ ندامت توبہ کی شاخ ہے۔ شاید ہم توبہ کے بھی اہل نہیں، کہ تیرے ایک ولی واصف علی واصفؒ کے بقول توبہ قبول ہو جائے تو وہ گناہ دوبارہ سرزد نہیں ہوتا۔ بس! تو ہماری ندامت ہی قبول فرما لے۔ ہم پر سے یہ عذاب ہٹا لے!!

انسان کیلئے اس سے بڑا عذاب اورکیا ہوگا کہ انسان کو انسان سے دُور کر دیا گیا ہے۔ اِنسان شادی پر اکٹھے ہو سکتے ہیں ‘نہ جنازے پر۔ انسان سے کوئی ایسی غلطی تو ضرور سرزد ہوئی ہے کہ انسان ایک دوسرے سے اپنا چہرہ چھپانے پر مجبور ہو گیا ہے۔
اے رب العالمین! ہم نے تیرے عطا کیے ہوئے اختیار سے تجاوز کیا ہے، بے شک ہم نے اپنی جانوں پر خود ظلم کیا ہے۔ تُو نے ایک جنت نظیر سیارہ ہمیں کچھ عرصہ رہائش کیلئے دیا، اور ہم تیرے بندے بن کر خلافت ِ ارضی کے سفر روا نہ نہ ہو سکے بلکہ ہم بندہ ٔ درہم و دنیار بن گئے ، اپنی ہوس میں اِس جنت ِ ارضی کا حسن مٹانے کے درپے ہو گئے ، ہم نے جنگل کاٹے، اور پھر ایک دوسرے کے گلے کاٹے۔ ہم دوسری مخلوقات کیلئے جلاد بن گئے، ہواؤں میں سبک اڑان بھرنے والے معصوم پرندوں ، سمندر میں تیرنے والی خوشرنگ مچھلیوں اور جنگلوں میں کلیلیں بھرنے والی خوبصورت ہرنیوں سے ہم نے جینے کا حق چھین لیا۔ ہم ایک دوسرے کے حق میں بھی ظالم بن گئے ، جو ظالموں کی فہرست میں نہ تھے ‘وہ بے حس بن گئے۔ ہم نے دنیا میں ظلم کی چکی میں پسنے والے مظلوم انسانوں کے حق میں آواز نہ اُٹھائی، ہم پر سیاسی اور معاشی مصلحتیں غالب آتی رہیں‘ اور اپنے کانوں میں غفلت کی رؤئی لپیٹے ہم اپنی دنیا میں مگن رہے۔ اب تُو نے ہم سے ہماری دنیا بھی چھین لی۔ ہم کشمیر، فلسطین، برما اور شام میں ہونے والے ظلم پر خاموش رہے، اُن پر لاک ڈاؤن رہا اور ہم اپنی آزادی اور آزاد روی میں مست رہے…کچھ حال مست اور کچھ مال مست رہے۔

یہ بھی پڑھئے:  امجد صابری کی بےضرر آواز خاموش ہوگئی

اب تُو نے ہم سب کو لاک ڈاؤن میں ڈال دیا ہے۔ شاید تُو نے اُس معصوم شامی لڑکی کی وہ ساری بات سن لی ہے ‘ جو اُس نے مرنے سے پہلے کہی تھی، اُس نے روتے ہوئے کہا تھا” میں اللہ کے پاس جا کر سب کچھ بتا دوں گی” تجھ تک محصور و مجبورکشمیری بہنوں بیٹیوں کی آہیں بھی یقینا پہنچ چکی ہوں گی۔ ہم نے شام کی خوبصورت زمین کو لڑائی کا اکھاڑا بنا دیا، اپنا جدید اسلحہ چلانے کیلئے ہمیں گویا ایک ایمی تھیٹر مل گیا‘ جہاں ہم محصور انسانوں پر اپنے نئے میزائلوں کی کارکردگی دیکھتے اور اسلحے کے خریداروں کو دکھاتے تھے۔ ہم نے انسانوں کو ایک گنی پگ سمجھ لیا تھا ‘جن پر اپنے نت نئے ایجادکردہ اسلحے کے تجربے کرتے رہے۔ اے میرے مالک! تیری فوجیں زبردست ہیں، تُو نے اپنا آپ منوا لیا ہے۔

ہم گھروں سے فرار ہو چکے تھے‘ تُو نے ہمیں واپس گھروں کا راستہ دکھا دیا ہے۔ ہم نے تیری دنیا کی شفاف فضا کو کالے دھویں سے مسموم کر دیا تھا‘ تُو نے ہمارے کارخانوں کو لاک ڈاؤن کرکے اس فضا کو دوبارہ صاف کر دیا، ہم نے تیرے سمندروں کو آلودہ کر دیا تھا‘ تُو نے ہمیں گھروں میں بند کردیا کہ تیری سمندری مخلوق کیلئے سمندر نئے سرے سے شفاف ہو جائیں۔ ہم اپنی سائنس اور ٹیکنالوجی پر مغرور اور خود سر ہو گئے تھے‘ تُو نے ہمیں سبک سر کر دیا، تیرے ایک جرثومے نے ہمیں ایسا عاجز کر دیا کہ ہم میں اَز خود عاجزی کی خو آگئی… یہ جرثومہ تیرا بنایا ہوا ہے یا تیرے بندوںکے ہاتھوںکی کمائی ‘ تیری ہی فوجوںمیں سے ہے۔ تیرے نبیﷺ نے بتلایا کہ مخلوق خدا کا کنبہ ہے ‘ لیکن ہم ملکوں اور نسلوں میں بٹ گئے تھے، تُو نے ہمیں دوبارہ ملت ِ واحدہ بنا دیا۔ اب ہم سب نے ایک ہی خدا کو پکارنا ہے ، ایک ہی رسولﷺ کو ماننا ہے۔قرآن چھیننے والوں نے قرآن تقسیم کرنے شروع کر دیے ہیں، کلیساؤں میں تیرے اسمائے حسنہ کے نغمے گونجنے لگے ہیں۔

اے مالک الملک! تو رب العالمین ہے، تیرا حبیب رحمت اللعالمینﷺ ہے، تجھے اپنی مجسم رحمت کا واسطہ! تجھے وجۂ کائنات کا واسطہ! تو ہمیں معاف فرما دے، ہم اپنی تمام بدعہدیوں سے توبہ کرتے ہیں… تو ہماری توبہ قبول فرما لے۔ ہم پر اپنے دروازے کھول دے، اپنی رحمت کے دروازے کھول دے ، اپنے حرم کے دروازے کھول دے!!

حالیہ بلاگ پوسٹس