Qalamkar Website Header Image

اپنے دیس میں اجنبی – حصہ سوم

دو دن کی بوریت اور یکسانیت سے  اکتائے ہوئے اگلا دن بھرپور طریقے سے گزارنے کا عزم کیا۔ ہڑتال ختم ہونے کے بعد ہم اپنا مشن جاری رکھ سکیں گے میں دفتری دورہ پر تھا اس لیے صرف تین دن میسر تھے۔ جس میں دفتری مصروفیات کے ساتھ ساتھ اپنے سیاحتی شوق کو بھی کسی تئیں پورا کرنا تھا۔ اس دوران ادھر ادھر نکلنا تو بہت مشکل ہوجاتاہے  ۔ایک  طرف دن بھر کی  تھکاوٹ کے بعد شام کو کچھ دیر آرام کرنا، عشائیہ کرنا ا س کے بعد رات دیر تلک  ای میلز دیکھنا اور ان کا جواب دینا  ،دوہری مشقت ہوتی ہے ۔ اس دوران آپ سیا ح بن جائیں تو بچگانہ پن، غیر ذمے دارانہ کا ٹھپہ لگ جاتا ہے ۔اس لیے ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا پڑتا ہے تاکہ کسی کو  آپ پر بات کرنے کا موقع نہ مل  پائے کہ یہ تو سیر سپاٹے کے لیے آیا ہے۔ میں اس سے  پہلے بھی کئی بار بیرونی دورے کر چکا تھا ۔دیگر دفتری احباب کے نزدیک یہ آؤٹنگ ہوتی تھی لیکن یہ دفتر میں بیٹھ کر کام کرنے سے زیادہ مشقت والا کام ہوتا ہے ۔آپ کو دو تین ماہ  تیاری کے لیے  درکار ہوتے ہیں۔ ہر چیز کا خیال، طرح طرح کی دستاویز تیار کرنا، بہت کٹھن کام ہے ۔اس کے علاوہ مصنوعات کے نمونے تیار کرانا،ان کی قیمت، مصنوعات کی ورائٹی کی لسٹ تیار رکھنا ، سٹال کی مکمل ڈیزائننگ کرانا  بھی میری ذمے داری میں شامل ہو چکا تھا  ۔ فنون لطیفہ سے شغف بھی تھا لہذا کوئی چیز مجھے تب تک نہیں بھاتی تھی جب تک میں اس کو اس زاویے پر نہ لے آؤں کہ دور سے گزرنے والے کی پہلی نظر میرے سٹال پر پڑے۔ اور وہ کچھ دیر رکنے اور بات کرنے پر مجبور  نہ ہوجائے ۔ رنگوں اور خیالات کی یہ آمیزش میری اعلیٰ قیادت کو ہمیشہ ناگوار گزرتی ہے کہ تم بہت کھلے ہو یہ نہیں چلے گا۔ میرا ہمیشہ جواب ہوتا کہ آپ فیشن انڈسٹری میں ہیں  اس میں رنگوں اور منفرد خیال کی ہی جگہ ہے ۔سادہ کتابچہ یا پوسٹر کسٹمر زکو بھی نہیں بھائے گا  اس بات پر میرا اکثر اپنے سینئرز سے جھگڑا  رہتا  اور یہی سننے کو ملتا۔
’’ ویکھو! شاہ جی کیہ بنالیائے نیں‘‘

 ایک بار میں پمفلٹ میں چند مردوزن طالب علموں کی شارٹس نیکر میں اچھلتے ہوئے تصویر لگادی۔ بس پھر کیا میرے ڈائریکٹر صاحب بولے ’’ شاہ جی! یہ نہیں چلے گا‘‘ میں نے کہا ’’ سر! اس میں کیابے ہودگی ہے؟‘‘ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا بس اتنا کہا ’’یہ بہت شوخ ہے۔‘‘

گزشتہ شام سٹال کا وزٹ کر چکا تھا وہ واقعی دیدہ زیب اور کمپنی کی حیثیت سے مطابقت رکھتا تھا۔ شکر ادا کیا  اب کی باردلجوئی سے بھرپور کام کرنے کا موقع ملے گا۔ ان چند ساعتوں میں اپنے دیس میں اجنبیت ختم ہورہی تھی۔پاکستانیوں سے زیادہ میل ملاقات تھی لیکن شہر گردی کے  دوران احساسات  میں بنگلہ دیش نہیں  بلکہ مشرقی پاکستان موجزن تھا ۔ میں گاڑی میں بیٹھا باہر دکانوں اوربازاروں میں گم ہوچکا تھا ایک ایک دکان، گلی ، محلے سے  مشرقی پاکستان کی میٹھی میٹھی خوشبوآرہی تھی۔ میں پنجابی کا گرمکھی رسم الخط لکھ اور پڑھ بھی سکتا تھا اس کے ساتھ ساتھ میں نے ہندی کے دیوناگری رسم الخط میں بھی مہارت حاصل کر لی تھی۔ اب یہ دونوں رسم الخظ میرے لیے اجنبی نہیں رہے تھے ۔ میں مشہور پنجابی دانشورڈاکٹر منظور اعجاز صاحب کی پنجابی ادبی ویب سائٹ ’’وچار ڈاٹ کام‘‘ سے بھی منسلک رہا اور گرمکھی ادبیات کا شاہ مکھی اور شاہ مکھی کا گر مکھی میں ترجمہ بھی کرتا رہا ہوں۔ ان چند دنوں کی یاترا کے دوران بنگالی پر ہاتھ صا ف کرنا چاہ رہا تھا ۔اور بنگالی زبان میں لکھے ہوئے ہورڈنگز  اب میری توجہ کا مرکز تھے۔ ایک جگہ کھڑے کھڑے میں نے گاڑی  کی نمبر پلیٹ پر غور کیا  تو بنگالی کا  ’’ک ‘‘، ’’ا‘‘  اور ’’ ڈ‘‘ دیوناگری  سے مماثل تھے میں نے نور صاحب سے کہا ’’ نور صاحب ! ایہہ گڈی ڈھاکے دی اےـ‘‘
نور صاحب ’’ بلے وئی بلے ! شاہ کتھوں پتہ چلیا‘‘
میں ’’ ڈاکا لکھیا اے ڈھاکہ نہیں‘‘نور صاحب ’’ واہ پیرا! اساں اینے چر اچ پڑھ نہیں سکے تے دو دناں اچ بنگالی پڑھنی شروع کردتی ‘‘

یہ بھی پڑھئے:  کیفین سے آگہی کا مہینہ

خیر اب معلوم ہوچکا تھا کہ یہ ’’ڈھاکہ ‘‘ نہیں بلکہ ’’ ڈاکا یا ڈکا‘‘ لفظ ہے ۔نور صاحب کی اس ’’بلے وئی بلے ‘‘سے ہمت بندھی کہ بنگالی جاننا کوئی مشکل نہیں ،کم ازکم الفاظ تو پڑھے جاسکتے ہیں۔ اب ہورڈنگز کے ذریعے بنگالی پڑھنے کی کوشش تیز کردی اور کافی حد تک میں بنگالی پڑھنے کے قابل ہوگیا تھا  ۔لیکن بعد میں مصروفیت کے باعث  میں مشق جاری نہیں رکھ سکا اورچینی زبان جاننے کا شوق سر پر سوار ہو گیا ۔خیر بڑی کوشش کے باوجود اس میں مہارت نہیں حاصل ہوسکی لیکن ابھی بھی کوشش جاری ہے۔اس دوران یہ معلوم ہوچکا تھا کہ "ا” کا بنگالی تلفظ انگریزی کے حرف "O” کے مشابہ ہے۔ اب بنگلہ دیش نہیں "بونگلہ دیش” ہے۔ نرائین گنج اب "نروئین گونج” ہو چکا تھا۔ اور میں بھی عمار نہیں بلکہ "OMORE” ہو چکا تھا۔

نور صاحب نے ڈرائیور کو بنگالی میں چلنے کو کہا مجھے لگا کہ ڈرائیور کو ’’عباس ‘‘  کہہ کر پکارا ہے  میں نے دو تین بار متوجہ ہوکرسننا چاہا لیکن  کچھ سمجھ نہ آیا تو نور صاحب سے پوچھ ہی لیا  اس کا نام کیا؟
’’ عباس ‘‘
جی ’’ کیا ؟عباس‘‘

اب میرے اندر ایک کشش اور چاہت  نے کھینچا ۔ عباس اور بنگلہ دیش کبھی سننے کو نہیں آیا ۔ عباس ایک  سمارٹ ڈرائیور تھا جو صرف بنگالی جانتا تھا اور انگلش ذرا بھی نزدیک سے نہیں گزری تھی۔ مجھے کئی دن کی کوشش  کے باوجود اس سے الگ بات کرنے کا موقع نہیں مل پا رہا تھا۔ میں نے بھی کوشش ختم نہیں کی اور وقت کا انتظار کرنے لگ پڑا کہ کبھی تو یہ موقع ہاتھ ملے گا ہی۔
خیر ہم نمائش گاہ کی طرف چل رہے تھے آج چودہ دسمبر ہو چکی تھی۔ ایک نئے روٹ سے جاتے ہوئے ہم ڈھاکہ  کے ایک  مرکزی چوک میں پہنچے تو نور صاحب   نےسامنے کی طرف اشارہ کیا
’’ یہ ڈھاکہ کا کینٹونمنٹ ہے ‘‘

کینٹونمنٹ کا لفظ سنتے ہی ہمارے کان کھڑے ہوگئے  ، دماغ یک جنبش میں 45 سال پیچھے کی جانب چل گیا آنکھوں میں مناظر فلم کی طرح چلنا شروع ہوگئے۔ نور صاحب فرماتے گئے  کہ16 دسمبر کو اس کا گھیرا ؤ ہوچکا تھا سارا ڈھاکہ امڈ آیا تھا  گرجدار آوازوں میں صرف ایک ہی نعرہ تھا
’’ مکتی‘‘ یعنی آزادی۔
اسی دوران ہم کینٹونمنٹ کے قریب پہنچ چکے تھے اور نور صاحب نے ہماری زبان سے لفظ کھینچ لیے
’’ اساں ایتھوں لنگھ کے جاواں گے‘‘
یہ تو دل کی مرادکے پورے ہونے کا وقت تھا۔ کینٹونمنٹ کے صدر دروازے پر  تنکے جتنی جسامت  اور کوئی پانچ فٹ قد و قامت کا حامل خاکی وردی میں ا یک فوجی ٹریفک کو ادھر ادھر جانے کے اشارے کر رہا تھا۔ میں نے نور صاحب سے کہا
’’ نور صاحب ! ایہہ بالڑے جیہے ساڈی گھبرو فوج نال لڑے سن‘‘

دل میں پستہ قد، پتلی پتنگ جسامت والے کو فوجی کہتے ہوئے ہنسی بھی آرہی تھی درحقیقت ان پستہ قد بنگالیوں نے ہمارے  ہمالیائی چٹان جیسے بلند اور گھبرو افواج کو ایک ہزیمت سے  دوچار کیا تھا۔ یہ ان  ارباب اختیار کے لیے ایک سبق تھا جنہوں نے سمجھ لیا تھا کہ آمریت ، سختی، اسلحہ اور تعداد  کے بھروسے پر وہ حکومت کر سکتے ہیں لیکن عوامی طاقت کے سامنے یہ سب ہیچ  ہوتے ہیں ۔ زمین و رقبہ کی فتوحات  ہمیشہ عارضی ہوتی ہیں ۔دل و دماغ  کو مسخر  کرنے والا اصلی فاتح ہوتا ہے۔ سارا بنگال آپ کے خلاف ہوچکا تھا اب آپ ایک ڈویژن یا دس ڈویژن فوج بھی لگا لیں وہ کبھی عوامی تحریک کے سامنے نہیں ٹھہرسکتی تھیں اور تاریخ بھی یہی بتلاتی ہے کہ افواج کبھی عوامی طاقت کے سامنے نہیں ٹھہرا کرتیں۔  کینٹونمنٹ ہماری چھاؤنیوں کی نسبت رقبہ میں چھوٹا تھا اورپرانی عمارات پر مشتمل تھا۔ ہم ہر ایک عمارت کو حسرت سے دیکھ رہے تھے کہ جہاں ہمارے جوان قید ہو کر رہ گئے تھے ۔ نور صاحب نے سب سے منفرد  بڑی عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ جنرل کی رہائش گاہ اور آفس تھا۔ تو آنکھوں میں بیچارگی کے احساسات آگئے یوں محسوس ہورہا تھا کہ ’’ ایک میز کے سامنے دوکرسیاں رکھی گئی ہیں ایک کرسی کے بائیں جانب ہند سینا کا سکھ جرنیل بیٹھا ہے جب کہ دائیں جانب پاکستان آرمی کے جنرل  اے۔کے۔ کے نیازی بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک بڑی سی فائل  دونوں دستخط کرنے میں مصروف ہیں‘‘ یہ دستاویز  تاریخ اسلام و پاکستان کی سب سے بڑی ہزیمت تھی۔

یہ بھی پڑھئے:  بنگلہ دیش - حسینہ واجد کی جگہ فوج

آج صبح صبح دل مغموم ہو گیا تھا۔ چھاؤنی سے گزرتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے ہم ابھی ابھی شکست کھائے ہوئے ہیں۔ ایک شکست خوردہ ٹیم گاڑی بیٹھی اپنے دیس سے آخری وداع کر رہی ہو ۔ سب کے چہرے بجھے بجھے ہوئے تھے لیکن ابھی ایسی مزید ندامتیں ہمارا استقبال کررہی تھیں۔ چھاؤنی سے نکل کر بڑی شاہراہ کی طرف گامزن تھے تو چوک کے بیچ و بیچ ایک طرف مینار نظر آئے تو ان کی طرف اشارہ کیا کہ یہ ’’ شہداء کا مینار ‘‘ ہے۔ یہ یادگار ان طلباء کی یاد میں بنائی گئی تھی جنہوں نے بنگالی زبان تحریک میں کردار ادا کیا تھا۔ لیکن نور صاحب موجب اس یادگار شہدا ء میں ہتھیار ڈالنے والی پاک فوج کے سپاہیوں کی وردیاں بھی لٹکائی گئیں ہیں ۔ خیر ہم یادگار شہداء کا دورہ نہیں کرسکے ۔ آگے چل کر دو رویہ سڑک پر کھمبوں پر جابجا بنگلہ دیش کے جھنڈے لٹک رہے تھے ۔جوں جوں آگے بڑھتے جارہے تھے جھنڈوں کی جگہ پوسٹرز نے لے لی تھی۔ کسی پر مجیب الرحمان کی تصویر تھی، کسی  کھمبے پر مکتی باہنی کے لوگوں کی ،کسی سرکاری عمارت پر قبضہ کرنے کے بڑے بڑے پوسٹرز آویزاں تھے ۔ایک بڑے پوسٹر میں مجیب الرحمان عوامی جلسہ سے خطاب کرتے نظر آئے ۔عوام کا جم غفیر تھا۔ اس کے بعد ایک بڑے پوسٹر پر جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخظ کرتے ہوئے تصویر نے بہت ہی دل دکھی کردیا۔ ہماری گاڑی کے بائیں جانب ایک بڑے سے لان میں سفید عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نور مصطفیٰ صاحب نے اشارہ کیا کہ
’’ یہ گورنر ہاؤس تھا‘‘ جو اب وزیراعظم ہاؤس میں تبدیل ہوچکا ہے۔

گورنر ہاؤس وہی مشہور جگہ تھی جہاں پر مغربی پاکستان کی اعلیٰ قیادت مشرقی پاکستان میں بڑھتے ہوئے احساس محرومی کا ادراک نہیں کر سکی تھی ۔ یہ پرانی روش اور پالیسی پر کاربند رہے اور یوں مملکت خداداد کا ایک بازو کٹ گیا ۔ ڈھاکہ کی ان گلیوں اور بازاروں سے گزرتے ہوئے یہ محسوس ہورہا تھا کہ ہم اپنے ہی ملک میں ایک اجنبی ، غیر قانونی قابض لوگوں کی طرح چل رہے ہیں ۔اس سرزمین پر چلنے والا ہر شخص مشرقی پاکستانی سے بنگالی بن چکا ہے اور باغی ہو چکا ہے ۔ وہ ہم سے الگ شناخت کا حامل ہے۔
اس دکھی دل کے ساتھ ہم نمائش گاہ پہنچ چکے تھے جہاں ایک حسین  چہرہ منتظر تھا۔

جاری ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس