Qalamkar Website Header Image

شوریہ – کورٹ مارشل کی ایک انوکھی کہانی

ایک کیپٹن کے کورٹ مارشل سے شروع ہونے والی کہانی جو بالآخر ایک بریگیڈیئر کے کورٹ مارشل شروع ہونے پر ختم ہوتی ہے۔
کیپٹن جاوید خان پلوامہ ڈسٹرکٹ کے ایک گاؤں کے سرچ آپریشن کے دوران برستی بارش میں رات کے وقت اپنے میجر کے سر پر گولی مار کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ جسے باقی ٹیم حراست میں لے لیتی ہے۔ کیپٹن جاوید خان کے کورٹ مارشل کی تاریخ فائنل ہو جاتی ہے۔ میجر آکاش کپور(جاوید جعفری) اور میجر سدھانت ایس چوہدری نک نیم سڈ (راحل بوس) دونوں آرمی لائرز ہیں اور دونوں ہی اچھے دوست بھی ہیں۔میجر آکاش کے لیے آرمی جاب ایک پیشن ہے لیکن دوسری طرف میجر سدھانت جاب کے لیے اتنا ہی غیر سنجیدہ۔ میجر سڈ کے والد بارڈر پر 32 گولیاں کھا کر شہید ہوتے ہیں۔ میجر آکاش کپور کو سری نگر پوسٹ کیا جاتا ہے تاکہ وہ اس کیس میں مقتول میجر کی طرف سے وکالت کرے۔ میجر سدھانت بھی ضد کرتا ہے کہ اپنے ساتھ اس کی بھی پوسٹنگ سری نگر کروائے۔ میجر آکاش اپنے ہونے والے سسر کے توسط سے میجر سدھانت کو کیپٹن جاوید خان کا وکیل مقرر کروا دیتا ہے۔

سری نگر میں میجر سدھانت کو ہدایات ملتی ہیں کہ پیشی پر اس نے کیپٹن جاوید خان کو Guilty تسلیم کر لینا ہے۔ بہت سادہ سا کیس ہے۔ موقع پر موجود تمام گواہ اور ثبوت اس کے خلاف ہیں اور وہ خود بھی تسلیم کر رہا ہے کہ اس نے میجر کو گولی مار کر اس قتل کیا ہے۔
اس دوران ایک نوجوان لوکل صحافی کاویہ شاستری اپنے طور پر کیپٹن جاوید خان کی سٹوری کوور کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ کیپٹن جاوید کا مرحوم باپ صوبیدار تھا۔ وہ کیپٹن جاوید کی ماں سے مل کر اس سے معلومات لیتی ہے۔ اور بالآخر وہ کیپٹن کے وکیل میجر سدھانت سے ملتی ہے۔ میجر سدھانت اپنی رنگین طبیعت کے مطابق فقط لڑکی سے ملاقات کی خاطر اس سے ملتا ہے اور اس کو الٹی سیدھی باتیں بتاتا ہے اور کیس کے متعلق کوئی بھی سیدھی بات نہیں بتاتا۔ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ کیس کے متعلق اس نے خود بھی کچھ نہیں پڑھا ہوتا۔ اور وہاں موقع واردات پر بریگیڈئیر پرتاب سنگھ ( کے کے مینن) کی موجودگی کا ذکر کر بیٹھتا ہے۔ جس کی فوج اور حکومتی حلقوں میں بہت پسندیدگی ہوتی ہے اور متعدد ایوارڈ اسے مل چکے ہوتے ہیں۔ اگلے دن اخبار کے فرنٹ پیج پر سٹوری چھپ چکی ہوتی ہے۔ جس پر میجر سدھانت کی افسران سے اچھی خاصی کلاس ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  ہندی سینما اور جرائم

وہ کاویہ سے ملتا ہے اور شکوہ کرتا ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ لیکن پھر اس کے کہنے پر وہ کیس پر تحقیق کرنا شروع کرتا ہے۔ بریگیڈئیر پرتاب سے ملتا ہے ، موقع واردات پر جاتا ہے جہاں اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ کیپٹن جاوید خان اسے کچھ بتانے پر راضی نہیں ہوتا۔ اس دوران کیس کی پہلی پیشی پر وہ کیپٹن جاوید خان کو Guilty ماننے سے انکار کر کے سب کو چونکا دیتا ہے۔ اس کے مدمقابل اگلی تاریخوں پر میجر آکاش کپور چشم دید گواہوں اور ثبوتوں سے کیپٹن کو قصور وار ثابت کر رہا ہوتا ہے۔ میجر سدھانت مقتول میجر کی بیوی سے ملتا ہے اور وہاں سے واپسی پر اسے اچانک کلیو ملتا ہے کہ پستول میں بارہ گولیاں ہونے کے باوجود اس نے فقط ایک گولی سے اکیلے میجر کو قتل کیوں کیا؟ باقیوں پر فائرنگ کیوں نہیں کی؟

اگلی پیشی پر رپورٹ بنانے والے آفیسر پر سوالات کر رہا ہوتا ہے کہ آفیسر سوالات پر پھنس جاتا ہے اور کورٹ کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔ اگلی پیشی سے پہلے آفیسر غائب ہوجاتا ہے۔ اور ایک دن گن پوائنٹ پر میجر سدھانت کو اپنے ساتھ لے جاکر سب سین بتا دیتا ہے کہ کیپٹن نے میجر کو گولی اس لیے ماری کہ وہ بریگیڈئیر پرتاب کے کہنے پر مسلمان کشمیریوں کو بے گناہ مار رہا تھا۔ لیکن وہ یہ بات کورٹ میں نہیں کہہ سکتا۔ اگلی پیشی سے قبل ہی وہ آفیسر خودکشی کر لیتا ہے۔

اس دوران کاویہ شاستری کیپٹن جاوید خان کی بے گناہی کے لیے ثبوت اکٹھے کر رہی ہوتی ہے کہ پولیس اسے گرفتار کر لیتی ہے۔ اس پر ملٹری بیس میں گھومنے پھرنے اور "حساس معلومات” پر مبنی ڈاکومنٹس رکھنے کا جرم لگا دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف میجر سدھانت اگلی پیشی پر بریگیڈئیر پرتاب کو کورٹ پیش کرنے کی اجازت لے لیتا ہے۔ لیکن اس کے پاس کوئی ثبوت بھی نہیں ہوتا کہ کیپٹن کو بے گناہ ثابت کر سکے۔

یہ بھی پڑھئے:  رئیس‘‘ کی بندش-ڈاکٹر لال خان

سوالات کے دوران بریگیڈئیر کی بیٹی ، بیوی اور ماں کی اس کے 9 سالہ مسلمان ملازم کے ہاتھوں قتل اور بیٹی کے ریپ کا تذکرہ کر کے میجر سدھانت بریگیڈئیر کو جذباتی کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور پھر بریگیڈئیر پرتاب بتا بیٹھتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ملک میں زندہ نہیں چھوڑے گا یہی اس کا مشن ہے۔ اسی پوائنٹ پر عدالت اس کے کورٹ مارشل کے احکامات کا آرڈر کرتی ہے اور کیپٹن کو باعزت بری کر کے اسے بحال کر دیتی ہے۔

مجموعی طور پر ایک اچھی ڈرامہ سٹوری بنائی گئی ہے۔ جسے ثمر خان نے ڈائریکٹ کیا ہے۔ ایک حساس موضوع پر بنائی گئی اس فلم نے گو کہ باکس آفس پر کوئی ریکارڈ بریک نہیں کیے لیکن نسبتاََ غیر معروف کاسٹ کے ساتھ ایسے موضوع پر فلم بنانا بھی ایک مشکل کام ہے۔ سری نگر کے مقام پر بنی فلم میں مناظر یقیناََ قدرت کا حسن دکھا رہے ہیں۔ سوا دو گھنٹے دورانیے کی یہ فلم انڈین آرمی کے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متاثر ہوکر بنائی گئی ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

Shah Rukh Khan Films Poster DDLJ Bazigar Jawan

شاہ رخ خان: ناکامیاں، غلط فیصلے اور تین پراسرار سال

سال 1993 شاہ رخ خان کے کیریر کا اہم ترین سال تھا ۔ دلی کے لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اس کم رو، گندمی رنگت اور عجیب و

مزید پڑھیں »

ارطغرل غازی – ترک ڈرامہ – پہلا سیزن

”کیا ڈرامہ لگا رکھا ہے؟“ امید ہے کہ اس فقرے کا مطلب سمجھتے ہوں گے۔ وہ کیا ہے کہ فلمیں یا ڈرامے مکمل حقیقت نہیں ہوتے۔ ڈرامہ تو پھر ڈرامہ

مزید پڑھیں »

ہندی سینما اور عقیدہِ آواگون

آواگون یعنی روح کا ایک جسم کو چھوڑ کر دوسرے جسم میں داخل ہونا ہندو مذہب کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے ـ یہ عقیدہ البتہ صرف ہندوؤں سے

مزید پڑھیں »