Qalamkar Website Header Image

اپنے دیس میں اجنبی – حصہ اول

یہ دسمبر 2015 کی بات ہے جب ہماری کمپنی نے بنگلہ دیش ٹیکسٹائل مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن  ( بٹما) کے زیر انتظام پارچہ جات کی نمائش میں اپنا سٹال لگانے کا فیصلہ کیا ۔ اس سے پہلے بھی دیگر ممالک میں ایسی نمائشوں میں شرکت کرچکا تھا لیکن اس بار بہت خوشی محسوس ہورہی تھی کہ بنگلہ دیش یا سابقہ مشرقی پاکستان دیکھنے کا موقع ملے گا ۔ نمائش کی تیاری کے دوران خیر یہ خیال نہیں رہا کہ یہ دسمبر کے اہم مہینےاورایسے ایام میں منعقد ہورہی ہے جب سقوط بنگال کا عظیم سانحہ پیش آیا تھا۔ کمپنی کی طرف سے اجازت نامہ ملنے پر بھاگم بھاگ ویزا کی تیاری شروع ہو گئی اس بار ایک ایسے ملک کے سفارتخانےمیں جانا تھا جو ہماری طرح ہی ایک پسماندہ اور غریب ملک تھا  آن لائن ویزہ  کی سہولت موجود نہیں تھی اور سفارتخانہ بھی ڈپلومیٹک انکلیو میں نہیں تھا بلکہ اسلام آباد جی فور کی کسی کوٹھی میں قائم تھا۔

کاغذات کی مکمل تیاری کے بعد صبح صبح قطار میں لگ گئے۔ یہاں بتانا ضروری سمجھتا ہوں ہمارا وہاں پر پہلے بھی ایک یونٹ چل رہا تھا اور ہم یہاں سے کپڑا تیار کرکے اپنے یونٹ بھیجتے تھے وہیں سے سل کر گارمنٹ کی صورت میں یورپ ایکسپورٹ ہوتا تھا ۔ وہاں پر دیگر پاکستانی کمپنیوں نے بھی اپنے  آپریشنز  قائم کیے تھے جس کی بڑی وجہ  کمترین مزدور اجرت، بجلی کی فراہمی اور یورپی منڈی میں جی ایس پی پلس کی سہولت تھی جو کہ پاکستانی مصنوعات کو حاصل نہیں تھی جس کی وجہ سے ہماری مصنوعات کی قیمت زیادہ ہونے کے باعث مارکیٹ  میں پذیرائی نہیں مل پاتی تھی ۔اس پر ایک معروف کالم نگار نے ایک ایسا کالم لکھا تھا جیسے پیسہ پاکستان سے چرا کر بنگلہ دیش منتقل کیا جارہا ہے ایک لغو، غیر حقیقی اور زمینی حقائق سے سراسر منافی تھا۔ ان کو کاروبار کی الف ب تک معلوم نہیں تھی بس کانا پھوسی پر ایک کالم لکھ کر سیاسی نمبر سکورنگ کی گئی تھی یہ الگ بات ہے بنگلہ دیش جانے والے بیشر صنعتکاروں کے لیے یہ تجربہ بھیانک خواب بن گیا  تھا ۔  کئی لوگوں نے اپنی فیکٹریا ں بند کیں اور واپس پاکستان چلے گئے ایک آدھ فیکٹری ابھی بھی چل رہی ہے جو کہ جرابوں کی صنعت سے منسلک ہے ۔حسینہ واجد کے اقتدار سنبھالنے پر اب پاکستانیوں کے لیے ویزہ ایسے ہی  ہے جیسے اس نے اسرائیل کے ویزے کے لیے درخواست کی ہے ۔دستیاب معلومات تک پاکستانیوں کو ویزہ جاری نہیں کیا جارہا ہے اور اگر ویزہ مل رہا ہے تو اس کا بھاؤ ایک لاکھ سے اوپر ہے۔ خیر بات کہیں سے کہیں نکل گئی ویزوں کی بات میں دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔ میں قطار میں کھڑا تھا جب میں اپنے کاٖغذات ویزا آفیسرکے آگے کرتا  تو کہتا  ’’ بابا! اس کمپنی سے ہو بیٹھ جاؤ میں ابھی بلاتا ہوں‘‘ میں سمجھتا شاید پروٹوکول ہے   جو مل رہا ہے کیونکہ ہمارے بہت سے افسران بنگلہ دیش جاتے رہتے ہیں اسی کشمکش میں دوپہر ہوگئی میں نے تھک ہار کر کہا  ’’ بھائی میرے کاغذ کیوں نہیں لے رہے سبھی جا چکے ہیں ‘‘ آفیسر بولا ’’آپ فلاں کمپنی سے ہو؟‘‘ میں نے سر ہلایا

’’ سر غریب آدمی ہے کچھ ہمارے بچوں کے لیے دو‘‘
’’ بخشش‘‘
میرے لیے بڑے اچھنبے کی بات تھی کہ سفارتی عملہ بھی رشوت طلب کررہا ہے میں نے دوہزار روپے فی پاسپورٹ کو پانچ سو روپے فی پاسپورٹ منایا اور دل میں کہا
’’آخر یہ بھی تو پاکستانی تھے‘‘ اتنی جلدی قومی مزاج کہاں بدلتاہے۔

یہ بھی پڑھئے:  جس تن لاگے وہی جانے

خیر کراچی سے ڈھاکہ بذریعہ پاکستانی قومی ایئر لائن سے ذریعے عازم سفر ہوئے ۔بنگلہ ایئر لائن کی پرواز میں جانے کو دل کررہا تھا کیونکہ جس ملک میں جارہے ہوں اس ملک کی قومی یا نجی ایئر لائن جانے سے کم ازکم اس ملک کے حسن و تہذیب کی کافی جانکاری ہوجاتی ہے۔ بنگلہ دیش یا سابقہ مشرقی پاکستان کی میڈیا میں آئی تصاویر سے یہ تو اندازہ ہو چکا تھا کہ بنگلہ دیش میں نئی وسیع و عریض عمارات کا فقدان ہو گا ۔ ڈھاکہ کا انٹر نیشنل ایئر پورٹ، مشرقی پاکستان ، بنگالی حسن و جلال کے خیالاات آنکھوں میں گردش کرنے لگ گئے ۔ بنگلہ دیش کی ظاہرا کثریت مسلمان اہل سنت و الجماعت کی شاخ سے منسلک تھے اور ٹونکی کا مشہور تبلیغی اجتماع سے کافی حد تک جانکاری تھی لیکن جب قومی ایئر لائن کے پرواز سے اعلان ہوا کہ’’ تھوڑی دیر بعد ڈھاکہ کے حضرت شاہ جلال انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر لینڈ کریں گے ‘‘ تو خیال آیا کہ  بنگلہ دیش نے کس  طرح اپنے دارالخلافہ کے انٹر نیشنل ایئر پورٹ کے ایک صوفی بزرگ کے نام سے منسوب کیا ہوا ہے جبکہ اکثریتی مسلمان صوفی ازم کے قریب تر نہیں میں کافی دیرتک ایئر پورٹ  کے ٹرمینل پر جلی حروف میں لکھے ہوئے ’’ حضرت شاہ جلال انٹرنیشنل ایئر پورٹ‘‘ کو پڑھتا رہا۔

جہاز سے اتر کر جب ٹرمینل پر پہنچے تو ایئر پورٹ کی پرانی عمارت دیکھ کر اندازہ ہوا کہ کوئی خاص دل لبھانے والی عمارات دیکھنے کو نہیں ملیں گے تنگ راہداریاں اور دیگر فلائٹ کے بیک وقت آمد کی وجہ سے سنبھل سنبھل کر دھیرے دھیر ے چلنا پڑ رہا تھا ۔ کوئی بنگالی حسن نظر نہیں آرہا تھا مرد حضرات کی بہتا ت تھی۔ ذہن میں ساڑھی بندھی اور بالوں میں گجرے سجائے بنگالی حسیناؤں کی خیالی تصاویر کہیں بھی پوری ہوتی نظر نہیں آرہیں تھیں ایک دم لندن سے آنے والی فلائٹس کے مسافر راہداری ملنے شروع ہوئے تو شلوار قمیض کی بجائے جینز اور شرٹ میں ملبوس سفید چہرے نظر آنا شروع ہوئے تو گمان گزرا دیسی اورولائتی جنم اور پرورش میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے جتنا ایک نمانے اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے میں۔ امیگریشن پر پاسپورٹ اور ویزہ کی جانچ پڑتال کراتے ہوئے ایک درمیانے قد کی سرخ ٹی شرٹ اور جینز میں ماہیلا آ کر رکی جب نگاہ اٹھا کر دیکھا تو ہرنی جیسی آنکھوں  کے حاشیے پر کاجل کی کالی دھاری  گول سا سفید چہرہ دیکھ کر مبہوت ہو گی’’ ہاں! یہی ہے وہ بنگال کا حسن‘‘

ہرن جیسی لمبی تیکھی اور موٹی آنکھیں ہو بہو مشہور اداکارہ شبنم کی مانند بنگالی حسن  فریفتہ بنا رہا تھا واقعی بنگالی خاتون کی آنکھیں دنیا کی سندر آنکھیں ہوتی ہیں۔

ایئر پورٹ کوئی بڑا نہیں تھا جلد ہی مین روڈ پر آگئے مغرب کا وقت ہو چکا تھا ایئر پورٹ پر دھند تھی لیکن ہم ٹی شرٹ میں ملبوس تھے کوئی سردی محسوس نہیں ہورہی تھی۔ ایئر پورٹ کے بالکل سامنے ایک فلائی اوور تعمیر ہورہا تھا ہمارے کولیگ نے بتایا یہ سب ہندوستان کی کمپنیاں بنارہی ہیں بنگلہ دیش کی سرمائے اور تجربے کی کمی کے باعث ساری انویسٹمنٹ ہندوستان کی ہے اور ہرمنصوبہ ہندوستان کی سرمایہ کاری کے بغیر نہ ممکن ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  لالٹین کی روشنی

ہماراآفس اور ہوٹل ڈھاکہ کے مشہور علاقے گلشن میں تھا ایک دو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے ہم گلشن میں پہنچ چکے تھے ۔ گلشن کا علاقہ ڈھاکہ کا جی او آر اور کینٹونمنٹ ہے۔ سڑکوں کی حالت پنجاب کے  افتادہ اور پسماندہ شہروں کی طرح تھیں ۔ہموار سڑک نہیں  تھی جابجا چھوٹے گڑھے اور معیار سے لگتا تھا کہ کافی پرانی سڑک ہے البتہ صاف ستھرائی تھی۔ گھر عمارات اتنی وسیع نہیں تھے تین چار چار منزلہ رہائشی عمارات فلیٹ نما تھیں۔ دفتر پہنچ کر اپنے کولیگز سے ملاقات ہوئی اور پاکستانی کھانا کھایا۔

دوست نے کہا کہ ڈھاکہ کا مشہور گول گولا بہت مشہور ہے وہاں پر لمبی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں بنگالی اور خاص کر ڈھاکہ والے اس پر مرتے ہیں۔ دل میں خیال آیا کیا مزے دار چیز ہوگی پہلے اس کا سواد لیا جائے بہت ساری سڑکیں پار کرتے ہوئے جب اس مشہور دکان پر پہنچے تو گاڑیوں کا رش دیکھ کر اندازہ ہوا کہ واقعی کوئی خاص بنگالی سوغات ہے جو ہم کو معلوم نہیں تھا خیر آرڈر دیا  گیا اورصاحب کی تعریفیں سن سن کر منہ میں پانی آرہا تھا کہ کیا  جنتی سوغات ہے جس کی تعریف کیے رک نہیں رہا اور باہر گاڑیوں کا ہجوم  دیکھ کر لگتا تھا کہ پورا ڈھاکہ دیوانہ ہے۔ اللہ اللہ کرکے  ویٹر ایک بڑا جگ لا یا جس میں املی آلو بخارا ملا کر شربت بنایا گیا تھا پھر دہی کے بھر ے ہوئے کٹورے ہر ایک فرد کے سامنے رکھ دیئے اور ساتھ میں  چمچ

’’ جی شاہ جی بسم اللہ  کرو تہانوں بوہت سواد آئے گا فیصل آباد  جا کر یاد کرو گے‘‘
اچھا جی کہہ کے میں پہلا چمچ کٹورے میں ڈالا تو ایک گو ل گول چیز کا احساس ہوا جو بار بار پھسل  پھسل کر دوبارہ ٹکورے میں گر جاتی تھی بڑی مشکل سے اس کو قابو کرکے دہی کے سمندر میں نکالا تو نظر پڑی یہ تو  ہمارے گول گپے جیسی چیز ہے

خیر پھر دل کو دلاسا دیا کہ پنجاب اور بنگال میں تین چار ہزار میل کا فاصلہ ہے یہ کوئی اور چیز ہو سکتی ہے پنجابی  سوغاتوں سے کیاتعلق ، چلیے ذائقہ کر کے دیکھتے ہیں جیسے ہی منہ کو اپنے پوری طاقت سے کھول کر اس گول چیز کو منہ لیا تو آلووں کے ساتھ گول گپے کا ذائقہ محسوس ہوا تو بے ساختہ نکلا

’’ نور صاحب ایہہ تاں گول گپے ہین اوہ وی  بھرے ہوئے‘‘
نور صاحب بضد تھے یہ بنگالی سوغات ہے اور ڈھاکہ ااس کا دیوانہ ہے جبکہ ہمارا اسرار تھا کہ یہ ’’ گول گپے ‘‘ ہیں اور وہ بھی بھرے ہوئے۔
جاری ہے

حالیہ بلاگ پوسٹس