مصر میں جمعرات کی رات سے شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے قاہرہ اور اسکندریہ کے علاوہ مزید 8 شہروں تک پھیل گئے ہیں۔ مصر کی سیاسی طاقتوں میں سے سوشلسٹ پارٹی اور اسلام پسند اخوان المسلمین نے اپنے الگ الگ بیان میں حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ داعش اور صحرائے سینا میں روپوش حکومت مخالف مسلح گروہوں نے بھی عبد الفتاح السیسی کی حکومت کے خلاف ہونے والی ان مظاہروں کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
مصر حکومت نے جہاں متعدد مظاہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو گرفتار کرلیا ہے وہیں ذرائع ابلاغ خصوصاً سوشل میڈیا پر بھی پابندیاں لگانا شروع کردی ہیں۔
مصر میں شروع ہونے والے ان مظاہروں کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے بیان کے علاوہ کوئی خاطر خواہ ردعمل اب تک سامنے نہیں آیا البتہ خبریں ہیں کہ متحدہ عرب امارات نے جہاں ان مظاہروں کی مذمت کی اور اسے مصر کی اسلام پسند کالعدم جماعت اخوان المسلمین کہ شرارت قرار دیا ہے وہیں مصر میں اپنے مفادات اور اثرورسوخ کی حفاظت کے لیے مصر کی دوسرے درجے کی فوجی قیادت سے رابطے کیے ہیں۔ تاکہ اگر حکومت مخالف تحریک سے سیسی حکومت سرنگوں ہوتی ہے تو امارات کے پاس مصری طاقت کے مراکز میں متبادل آپشن موجود ہو۔
مصر میں حکومت مخالف مظاہروں کی یہ نئی لہر 45 سالہ مصری بزنس مین اور اداکار محمد علی کے انکشافات کے بعد شروع ہوئی ہے۔ 15 سال حکومت اور فوج کے ساتھ بطور کنٹریکٹر کام کرنے والے اسپین میں مقیم اس شخص نے ستمبر کے اوائل میں سیسی حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے کرپشن کے انکشافات کئے تھے اور عوام خصوصاً جوانوں کو سڑکوں پر نکلنے کی دعوت دی تھی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn