جب معاشرہ تعفن زدہ ہوجائے اور انسانوں کی شکل میں بھیڑیے روپ بدل بدل کر حیوانیت کا پرچار کریں۔ حوروں کے رومانوی قصے کہانیاں سنا سنا کر نوجوان نسلوں کو دماغ کی بجاۓ کہیں اور سے سوچنے پر مجبور کر دیا ہو تو شہوت بھرے وجود بچوں کو بھی مسل کر رکھ دیتے ہیں۔
پہلے بیٹیاں پیدا نا ہونے کی دعا مانگتے تھے اب بیٹوں کو بھی اسی فہرست میں شامل کر لیں؟ کیا کریں ؟ نسل آدم ختم کر دیں ؟ ماؤں کی کوکھ بانجھ ہو جائے کیا ؟ جہاں اپنی درندگی اور ہوس کے لیے معصوم بچوں کو نشانے پر رکھا جائے تو وہاں یہ بچے لاشیں بنے سوال کرتے ہیں کہ ہم کیسے معاشرے کا حصہ ہیں؟ یہ کون سا معاشرہ ہے جہاں ہماری عزتیں اور جانیں بھی محفوظ نہیں۔
ہمیں تو الف ب پ پڑھنا ہے۔ اے بی سی پڑھنی ہے مگر ہمارے ساتھ یوں درندگی کی جاتی ہے کہ ہماری ماں بستہ ہاتھ میں پکڑے ہماری راہ تکتی رہتی ہے۔ وہ جسم جسے وہ ہر بری نظر سے بچا کر سنوار کر رکھتی ہے یوں منٹوں میں ادھیڑ کر رکھ دیا جاتا ہے۔
روز ایک ایسی درندگی کی مثال ملتی ہے کہ ذہن ماؤف ہو جاتا ہے۔ آج پھر تین نچڑی ہوئی ، دو ٹانگوں والے ہوس کے مارے حیوانوں کی بھوک مٹی ، کھائی ہوئی لاشیں قبر کے اندھیروں میں جانے کو تیار ہیں۔ یہ لاشیں ہمارے ضمیر، بدعنوان نظام، قانون اور نااہل عدلیہ کی ہیں۔
آئیں مل کر ان کو دباتے ہیں زمیں میں – کچھ مذمتی پوسٹس لگاتے ہیں – ایک آدھی لعنت کرتے ہیں اور پھر ایک اور کلی کے کچلے جانے کا انتظار کرتے ہیں۔
کیونکہ یہی دستور ہے !
خدایا یہ تیری کیا مصلحت ہے !
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn