چوہنگ لاہور کا مضافاتی علاقہ ہے جو لاہور ملتان جی ٹی روڈ پر واقع ہے۔ لاہور ملتان موٹر وے کے آغاز سے پہلے ملتان اور کراچی جانے والی ساری ٹریفک یہاں سے ہی گزرتی تھی مگر جب سے موٹر وے بنی ہے تو ٹریفک کا دباؤ بھی بہت کم ہو چکا ہے۔ واضح رہے کہ چوہنگ کے عقب میں چند ایک گاؤں کے علاوہ بحریہ ٹاؤن لاہور جانے کا راستہ بھی نکلتا ہے جس کی وجہ سے اس کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔ چوہنگ اس لحاظ سے بھی بہت مشہور ہے کہ یہاں بہت بڑے رقبہ پر بنا ہوا پولیس ٹریننگ سکول بھی مین روڈ پر واقع ہے جبکہ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے دفاتر اور تفتیشی سیل بھی اسی وسیع عمارت میں واقع ہیں۔ ان تفتیشی سیلوں سے متعلق بہت سی ہوش ربا اور لرزہ انگیز قصے کہانیاں بھی بہت معروف ہیں جن پر کبھی الگ سے تحریر لکھنے کی کوشش کروں گا۔ فی الحال اس کا ذکر صرف اس لئے کیا ہے تاکہ پڑھنے والے اس علاقہ کی حساسیت اور اس میں سیکورٹی کے معاملات کی گہرائیوں کو سمجھ سکیں۔
اس علاقہ میں عرصہ دراز سے شیعہ سنی پر امن انداز سے رہتے آئے ہیں۔ چوہنگ مین بازار میں مومنین کے گھروں کی تعداد 40 سے 50 کے نزدیک ہے مگر چوہنگ سے ملحقہ کئی گاؤں میں مومنین کافی تعداد میں آباد ہیں اور ہر سال 9 محرم الحرام کو شہادت امام حسین علیہ السلام کے جلوس میں شرکت کے لئے مومنین کی تعداد ہزاروں تک پہنچ جاتی ہے۔ جیسے ہی چوہنگ بازار ختم ہوتا ہے وہاں پر گجر برادری کے مکانات کا سلسلہ شروع ہو جاتاہے۔ اس علاقہ کو محلہ گجراں کہتے ہیں اور اس کا سرکردہ چوہدری محمد اقبال گجر ولد سردار علی نامی شخص ہے جو سینکڑوں بھینسوں اور گائیوں کے ایک باڑے کا مالک ہے۔ یہاں کی ساری گجر برادری اس کے تابع فرمان ہے اور یہ لوگ لڑنے بھڑنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ ان کے محلہ کے عین بیچ ایک امام بارگاہ بھی واقع ہے جس میں ہونے والی مجالس پر یہ گجر برادری اتنی سخت معترض ہوتی ہے کہ ان کی عورتیں مجلس کے شرکاء پر اینٹیں، پتھر تک برسانا شروع کر دیتی ہیں۔ گجر برادری کے اس ردعمل کی وجہ سے مومنین اس امام بارگاہ میں مجالس کا سلسلہ چاردیواری کے اندر ہی رکھتے ہیں تاکہ امن و امان کا مسئلہ نہ بنے۔
چوہنگ مین بازار میں واقع مرکزی امام بارگاہ سے ہر سال 9 محرم الحرام کو شبیہ ذوالجناح امام حسین علیہ السلام برآمد کی جاتی ہے جو اپنے مقررہ روٹ سے گزر کر شام 6/7 بجے اختتام پزیر ہو جاتی ہے۔ شبیہ ذوالجناح کا جلوس ختم ہونے کے بعد اس پر سجائے تمام تبرکات اور زیورات اتار لئے جاتے ہیں اور ایک کالی سادہ چادر معمول کے تحت اس پر چڑھا کر اسے مین بازار سے منسلک حیدری کالونی میں مقیم 2 بھائیوں سید ابرار حسین و سید اقبال حسین ولد سید اظہر حسین مرحوم کے گھروں میں لے جایا جاتاہے جہاں کچھ دیر آرام کے بعد شبیہ ذوالجناح واپس وہاں بھیج دی جاتی ہے جہاں سے یہ جلوس کے سلسلہ میں چوہنگ آتی ہے۔ امام بارگاہ سے سید ابرار حسین کے گھر کی طرف جاتے ہوئے مین روڈ سے 300 میٹر ہٹ کر ایک گلی میں جامع مسجد بلال واقع ہے جس کے پیش نماز حافظ عرفان تحریک لبیک کے پرزور حمایتی ہیں۔ یہ واضح رہے کہ شبیہ ذوالجناح کا ماتمی جلوس ختم ہونے کے بعد جب یہ سید ابرار حسین اور سید اقبال حسین کے گھروں میں جاتی ہے تو یہ کسی بھی طرح کے زیورات اور ملبوسات میں ڈھکی ہوئی نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے ساتھ کسی طرح کا کوئی جلوس ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ سید ابرار حسین، سید اقبال حسین اور شبیہ ذوالجناح کے 2/3 خدمت گزار ہی ایک سادہ کالی چادر کے ساتھ ہوا کرتے ہیں۔ سالوں سے یہ سلسلہ جاری و ساری رہا ہے اور کبھی اس میں کسی طرح کی رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی۔
الیکشن 2018ء میں یہاں سے تحریک لبیک آصف جلالی گروپ نے چوہنگ سے کچھ فاصلہ پر واقع بستی مرتضی آباد کے میاں لطیف احمد ولد حکم دین کو صوبائی اسمبلی کے لئے ٹکٹ دی۔ میاں لطیف کو یہاں عرف عام میں لطیف مرتضائی کہا جاتا ہے۔ الیکشن مہم کے دوران لطیف مرتضائی کی پوزیشن کافی کمزور تھی اور صاف نظر آ رہا تھا کہ یہاں سے تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے امیدوار ملک کرامت کھوکھر اور صوبائی اسمبلی کے ملحقہ 2 حلقوں سے امیدوار ملک اسد علی کھوکھر اور ملک سرفراز حسین کھوکھر باآسانی میدان مار لیں گے۔ اپنی یقینی شکست کو سامنے دیکھ کر لطیف مرتضائی مختلف لوگوں سے ملاقاتیں کرتا رہا اور انہیں اشرف آصف جلالی کی مذہبی خدمات باور کرواتے ہوئے خود کو ووٹ دینے کے لئے آمادہ کرتا رہا۔ اس دوران مرتضائی کی حمایت میں چوہدری اقبال گجر کے علاوہ علاقہ میں کسی طرف سے خاص حمایت حاصل نہ ہو سکی۔ الیکشن ہوئے تو نتائج مرتضائی کے لئے نہایت مایوس کن تھے مگر عام لوگوں کی توقعات کے عین مطابق تھے۔
لطیف مرتضائی کی اس موقع پر دلجوئی کرنے میں اقبال گجر اور اس کی برادری پیش پیش تھے۔ نیز حیدری کالونی کے راؤ محمد اقبال ولد حکم دین اور محلہ معصوم شاہ کے ملک محمد عاشق ولد چراغ دین پیش پیش تھے۔ لطیف مرتضائی کے لئے اس الیکشن شکست کے بعد دوسرا بڑا دھچکہ تحریک لبیک کی پنجاب میں الیکشن سے کوئی سیٹ نہ مل سکنا تھا حالانکہ تحریک لبیک کراچی سے صوبائی اسمبلی کی 2 سیٹیں لینے میں کامیاب رہی تھی جبکہ لیاری کی قومی اسمبلی کی سیٹ سے اس کا امیدوار دوسرے نمبر پر رہا۔ ان نتائج سے واضح ہو گیا کہ تحریک لبیک کی اصل حمایت مولانا خادم حسین خان المعروف خادم رضوی کے ساتھ ہے اور لاہور کے اشرف آصف جلالی گروپ کے لوگ ووٹروں کو اس حد تک متحرک نہیں کر سکے کہ وہ ان کے لئے سیٹ نکال سکیں۔ لطیف مرتضائی نے اگلے الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ ظاہر کیا تو اسے اقبال گجر، راؤ اقبال، ملک عاشق اور حافظ عرفان نے مشورہ دیا کہ وہ عام سنی بریلوی ووٹروں کو متحرک کرے اور ان سے مذہبی عقیدت کی بنیاد پر ووٹ طلب کرے۔
مسلمانوں کے لئے لڑنے کے یوں تو کافی مواقع موجود رہتے ہیں مگر محرم الحرام ایسا مہینہ ہے جس میں شیعہ برادری اور اہل سنت کے درمیان بڑی آسانی سے فسادات برپا کروائے جا سکتے ہیں۔ الیکشن 2018ء کے بعد لطیف مرتضائی کی مایوسی کے عین بیچ محرم الحرام کی آمد ہوئی۔ 9 محرم الحرام کا جلوس نکلا اور اپنے مقرر کردہ روٹ سے گزرتا ہوا اپنے وقت پر وداع ہو گیا۔ شبیہ ذوالجناح پر ملبوس تمام تبرکات اور زیورات اتارے گئے۔ معمول کے مطابق شبیہ ذوالجناح پر کالی چادر پہنائی گئی اور اسے لے کر 4/5 لوگ ابرار حسین شاہ کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ جب یہ لوگ مین بازار میں اس جگہ پہنچے کہ جس میں اندر جانے والی گلی میں جامع مسجد بلال واقع ہے تو وہاں لطیف مرتضائی، اقبال گجر، راؤ اقبال، ملک عاشق اور حافظ عرفان کی سربراہی میں 30/40 لوگوں کا ایک جتھہ موجود تھا۔ انہوں نے مین بازار میں شبیہ ذوالجناح کو آگے بڑھنے سے روک دیا اور کہا کہ "گھوڑا” یہاں سے آگے نہیں جائے گا۔ وہ سخت مشتعل تھے اور دھمکیاں دیتے ہوئے ذوالجناح کی طرف بڑھے۔ اس موقع پر سید ابرار حسین، ان کے بھائی سید اقبال حسین اور ملک قربان علی نے حالات کی نازکی دیکھتے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے ہم بات نہیں بڑھانا چاہتے اور اس سے پہلے کہ لطیف مرتضائی کا ہاتھ شبیہ ذوالجناح کی باگ تک پہنچتا، انہوں نے امام بارگاہ کی طرف واپسی اختیار کر لی۔ لطیف مرتضائی تو سمجھ رہا تھا کہ اہل تشیع اس سے لڑائی کریں گے اور پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ جس کے بعد اسے موقع مل جائے گا کہ وہ اہل سنت کے جذبات بھڑکا سکے۔ اسے جب یہ موقع نہ ملا تو اسے سخت مایوسی ہوئی اور اس نے فاتحانہ نعرے لگا کر اہل تشیع کے جذبات بھڑکانے کی کوشش کی اور عام اہل سنت کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس موقع پر اہل سنت عوام نے لطیف مرتضائی کی اس فسادی کوشش کی شدید مذمت کی اور کئی لوگوں نے اس کی شدید سرزنش کی۔
پچھلے سال کے اس واقعہ میں ناکامی کے بعد لطیف مرتضائی سخت رنجیدہ تھا۔ اس واقعہ کے بعد آسیہ بی بی کیس میں تحریک لبیک کے خلاف اکتوبر میں حکومت کے سخت ایکشن کی وجہ سے بھی اسے شدید مایوسی ہوئی۔ اس کا واحد مقصد کسی بھی طرح سے مقامی لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ کر اگلے الیکشن یا بلدیاتی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا بن چکا ہے۔ امسال محرم الحرام کے شروع ہونے سے پہلے ہی لطیف مرتضائی نے اپنی پلاننگ مکمل کر لی تھی جس میں اسے چوہدری اقبال گجر، راؤ اقبال اور ملک عاشق کی اعلانیہ جبکہ جامع مسجد بلال کے پیش نماز حافظ عرفان کی غیر اعلانیہ حمایت حاصل تھی۔ جیسے ہی 9 محرم الحرام کا جلوس اپنے مقررہ وقت پر اختتام پزیر ہوا تو سید ابرار حسین، سید اقبال حسین، سید صابر حسین اور ملک قربان علی نے شبیہ ذوالجناح کے تمام تبرکات اتار کر اسے سادہ کالی چادر پہنا کر حیدری کالونی میں سید ابرار حسین کے گھر کی طرف سفر شروع کیا۔ پچھلے سال کے معاملہ کی وجہ سے مقامی تھانہ کے ایس ایچ او نے اپنے 3 عدد کانسٹیبل بھی ان کے ہمراہ کر دئیے تھے۔ جب یہ لوگ منزل کی طرف بڑھے تو پچھلے سال کی طرح امسال بھی لطیف مرتضائی اپنے 40/50 ساتھیوں بشمول چوہدری اقبال گجر، راؤ اقبال، ملک عاشق اور حافظ عرفان کے ساتھ مین بازار میں ٹھیک اس جگہ موجود تھا جہاں سے ایک گلی کے اندر 300 میٹر کے فاصلہ پر جامع مسجد بلال واقع ہے۔ امسال مگر فرق یہ تھا کہ یہ تمام لوگ لاٹھیوں سے مسلح تھے۔ انہوں نے سید ابرار حسین اور ان کے 4/5 ساتھیوں کا راستہ روکا اور کہا کہ "گھوڑا” آگے نہیں جائے گا۔ سید ابرار حسین وغیرہ نے کہا کہ سالہا سال سے شبیہ ذوالجناح اسی طرح ان کے گھر حیدری کالونی جاتی رہی ہے اور جبکہ نہ تو یہ تیار ہے اور نہ ہی ہم ماتم یا نوحہ پڑھ رہے ہیں، پھر کیوں یہ شبیہ ذوالجناح نہیں جا سکتی۔ لطیف مرتضائی نے کہا کہ پچھلے سال تو یہ شبیہ ذوالجناح نہیں گئی تھی تو امسال بھی نہیں جائے گی۔ سید ابرار حسین اور ان کے ساتھیوں نے کہا کہ پچھلے سال تمہاری بھڑکائی آگ اور امن و امان کو مقدم رکھنے کے پیش نظر ہم شبیہ ذوالجناح نہیں لے گئے تھے مگر اس دفعہ یہ اپنے معمول کے مطابق ہمارے گھر ضرور جائے گی۔ اس موقع پر لطیف مرتضائی کے ساتھیوں نے لاٹھیاں لہراتے ہوئے "لبیک یا رسول اللہﷺ” کے نعرے لگانے شروع کر دئیے۔ اس نعرہ بازی کی وجہ سے جلوس کے اختتام پر واپس جانے والے زنجیر زن اور دیگر ماتمی خواتین و حضرات بھی اکٹھے ہو گئے۔ جہاں "لبیک یا رسول اللہﷺ” کے نعرے لطیف مرتضائی، اقبال گجر اور دوسرے لوگ لگا رہے تھے، وہیں اہل تشیع کی طرف سے "لبیک یا حسینؑ” کے نعرے لگانے شروع کر دئیے گئے۔ اسی نعرہ بازی کے بیچ میں لطیف مرتضائی اور اقبال گجر نے لاٹھیاں لہراتے ہوئے شبیہ ذوالجناح کی باگ پر ہاتھ ڈال کر زور سے کھینچا اور اس کا رخ واپسی کی طرف موڑنے کی کوشش کی۔ شبیہ ذوالجناح شدید تکلیف میں کراہا تو شیعہ ماتمی حضرات نے اس بےادبی اور گستاخی پر مشتعل ہو کر لطیف مرتضائی، اقبال گجر اور ان کے ساتھیوں پر حملہ کر دیا، ان کی لاٹھیاں ان سے چھین لیں اور انہیں بازار میں نکلتی گلی میں دھکیل دیا جہاں جامع مسجد بلال 300 میٹر اندر واقع ہے۔ شبیہ ذوالجناح حیدری کالونی میں سید ابرار حسین کے گھر کی طرف چلی گئی مگر حافظ عرفان اور دیگر چند لوگوں نے مسجد کے اندر سے اعلانات شروع کر دئیے کہ "شیعہ اپنا گھوڑا مسجد کے اندر لے آئے ہیں اور انہوں نے مسجد کی بےحرمتی کی ہے”۔ یہ اعلان سنتے ہی مین بازار میں واقع گھروں کی چھتوں پر موجود پہلے سے تیار شدہ سینکڑوں لوگوں نے مین بازار میں موجود ماتمیوں اور عزاداروں پر اینٹوں اور سخت پتھروں سے شدید پتھراؤ شروع کر دیا جس سے درجنوں مومنین زخمی ہو گئے۔
مومنین کی طرف سے بھی جوابی پتھراؤ شروع کیا گیا تو لطیف مرتضائی کے قریبی چند نامعلوم لوگوں نے ہوائی فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس موقع پر تمام وقت خاموش رہی پولیس حرکت میں آئی اور اس نے فائرنگ کرنے والوں کو چیلنج کیا اور انہیں سخت قانونی کاروائی کی دھمکی دی۔ شیعہ مومنین اس موقع پر گھروں کو جانے کی بجائے اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے لاہور ۔ ملتان جی ٹی روڈ بلاک کر دی۔ لطیف مرتضائی نے چوہنگ اور اس سے ملحقہ تمام آبادیوں کی مساجد میں اعلانات کروانے شروع کر دئیے کہ "شیعہ اپنا گھوڑا مسجد کے اندر لے آئے ہیں اور انہوں نے مسجد کی بےحرمتی کی ہے”۔ ان اعلانات کی وجہ سے ایک جم غفیر اکٹھا ہو گیا اور انہوں نے چوہنگ مین بازار اور اس کے اردگرد اہل تشیع اور سبیلیں لگانے والے اہل سنت کے گھروں پر حملے شروع کر دئیے، خواتین کو گالیاں دیں اور دروازوں کو کھولنے کے لئے شدید توڑ پھوڑ کی۔ اس مسلح یلغار سے شدید جانی نقصانات کا خطرہ تھا مگر اس موقع پر رینجرز اور آرمی کے دستے موقع پر پہنچ گئے۔ انہوں نے آنسو گیس شیلنگ اور لاٹھی چارج کر کے لطیف مرتضائی و ساتھیوں کی بھڑکائی آگ پر قابو پایا۔ رینجرز کے آنے کے بعد حالات قابو میں آئے۔ لطیف مرتضائی، اقبال گجر، راؤ اقبال، ملک عاشق اور حافظ عرفان نے مزید اشتعال انگیزی نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی تو تمام لوگ اپنے گھروں کو پہنچے۔
اس واقعہ کے بعد 11 محرم الحرام کو نماز عشاء کے بعد اہل تشیع اور اہل سنت کو ایس پی صاحب کے دفتر میں بلوایا گیا جہاں ایس ایچ او سمیت سپیشل برانچ، خفیہ اداروں کے اہلکاروں، سبیلیں لگانے والے اہل سنت افراد نے گواہی دی کہ لطیف مرتضائی، اقبال گجر، راؤ اقبال، ملک عاشق اور حافظ عرفان وغیرہ پہلے سے ہی تیار مین بازار میں کھڑے تھے اور انہوں نے اس فساد کی پوری تیاری کر رکھی تھی۔ اس موقع پر قومی اسمبلی کے رکن ملک کرامت کھوکھر، ممبران صوبائی اسمبلی ملک اسد علی کھوکھر اور ملک سرفراز حسین کھوکھر سمیت بحریہ ٹاؤن لاہور کے علاقہ محمود کوٹ کے معزز ملک ریاض حسین بھی موجود تھے۔ انتظامیہ کے سخت مؤقف اور ذمہ داران کے خلاف سخت ترین قانونی کاروائی کرنے کے عندیہ کے بعد لطیف مرتضائی، اقبال گجر، راؤ اقبال اور ملک عاشق نے معاملہ صلح صفائی سے حل کرنے اور آئندہ امن و امان سے رہنے کی یقین دہانی کروائی۔ اس موقع پر ممبر قومی اسمبلی ملک کرامت کھوکھر اور ممبر صوبائی اسمبلی ملک اسد علی کھوکھر نے یقین دہانی کروائی کہ اگلے سال وہ خود شبیہ ذوالجناح کو لے کر سید ابرار حسین کے گھر جائیں گے۔ اس طرح دونوں فریقوں کے مابین معاہدہ صلح انجام پایا اور یہ معاملہ اختتام کو پہنچا۔

دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn