Qalamkar Website Header Image

یوسف کربلا امام حسین علیہ السلام

امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پہ کوئی بے حس انسان ہی ہوگا جو اس عظیم سانحے کو سن کر اس کی آنکھیں اشک بار نہ ہوں۔ بعض لوگ رونے پر پتہ نہیں کیا کیا اعتراضات کرتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ان موضوعات پر صدیوں سے کافی مکالمے مباحث ہوئے ہیں لیکن یہ سوالات بار بار دہرائے جاتے ہیں ان کے لیے قرآن مجید سے فقط یعقوب علیہ السلام کے حوالے سے مختصر حوالے پیش خدمت ہیں.

حضرت یعقوب علیہ السلام کا حضرت یوسف علیہ السلام کے غم میں یہاں تک رونا کہ بینائی چلی گئی.

سورۃ یوسف آیت 84
وَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَا أَسَفَىٰ عَلَىٰ يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ.
ترجمہ: پھر ان کے پاس سے چلے گئے اور کہنے لگے ہائے افسوس یوسف (ہائے افسوس) اور رنج والم میں (اس قدر روئے کہ) ان کی آنکھیں سفید ہوگئیں اور ان کا دل غم سے بھر رہا تھا۔

85: قَالُوا تَاللَّهِ تَفْتَأُ تَذْكُرُ يُوسُفَ حَتَّىٰ تَكُونَ حَرَضًا أَوْ تَكُونَ مِنَ الْهَالِكِينَ.
ترجمہ: (بیٹے) کہنے لگے کہ والله اگر آپ یوسف کو اسی طرح یاد ہی کرتے رہیں گے تو یا تو بیمار ہوجائیں گے اور یا ہلاک ہو جائیں گے۔

اب مزید درج ذیل آیتوں سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے علم تھا کہ یوسف علیہ السلام زندہ ہے اور باوجود اس کے بهی وه چالیس سال تک روتے رہے یہاں تک کہ بینائی ہی چلی گئی۔

یہ بھی پڑھئے:  فکرِ حسین علیہ السلام کی دعوتِ عام |حیدر جاوید سید

86: قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ.
ترجمہ: انہوں نے کہا کہ میں اپنے غم واندوہ کا اظہار خدا سے کرتا ہوں۔ اور خدا کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

93: اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَٰذَا فَأَلْقُوهُ عَلَىٰ وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا وَأْتُونِي بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَ.
ترجمہ: یہ میرا کرتہ لے جاؤ اور اسے والد صاحب کے منہ پر ڈال دو۔ وہ بینا ہو جائیں گے۔ اور اپنے تمام اہل وعیال کو میرے پاس لے آؤ۔

96: فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَىٰ وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا ۖ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ.
ترجمہ: جب خوشخبری دینے والا آ پہنچا تو کرتہ یعقوب کے منہ پر ڈال دیا اور وہ بینا ہو گئے (اور بیٹوں سے) کہنے لگے کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں خدا کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے؟

جب حضرت یعقوب علیہ السلام کو علم بھی تھا پھر بھی حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی میں اشک بہاتے رہے یہاں تک کہ بینائی چلی گئی تو نواسۂ رسول سید الشہدا امام حسین علیہ السلام پر گریہ کیوں نہ ہو جن پہ بے انتہا ظلم و ستم روا رکھا گیا۔ انسان اپنے وجود پر سختی برداشت کر سکتا ہے لیکن آل اولاد کے پاؤں میں کانٹا چبھتا بھی نہیں دیکھ سکتا ۔ اندازه لگائے کہ اپنے بھائی، بیٹے، بھتیجے، بھانجوں اور دوست احباب کو آنکھوں کے سامنے کٹتے دیکھنا اور ایک ایک لاشہ اٹھا کر لانے پر انسان برداشت کر سکے گا؟ عام انسان کے لیے ناممکن ہے۔ یہ تو آغوشِ رسالت میں پلے امام حسین علیہ السلام کا ہی کمال تھا جنہوں نے یہ سارے مظالم سہے۔

یہ بھی پڑھئے:  دیو سائی - نایاب بھورے ریچھوں کا مسکن

بعض لوگوں کے پاس جب جواب نہ رہے تو اس سانحے کا سارا ملبہ اہل کوفہ ( مراد شیعہ) پر ڈالتے ہیں۔ ان سے سوال ہے کہ ذرا اہل مکہ و مدینہ کا بھی کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی مدد کے حوالے سے کوئی کردار ہے تو سامنے لائیں۔

سکوتِ وحشتِ شہرِ خموشاں مدینے سے
عزیز ہیں دشتِ کوفہ سے بلند صدائی

حالیہ بلاگ پوسٹس