کچھ سال پہلے میرے دوست کا تقریباً ڈیڑھ سالہ بیٹا گرم پانی کے پتیلے میں گر کر بری طرح جھلس گیا، تقریباً 45 فیصد جسم بری طرح جھلس چکا تھا، حالت بہت نازک تھی، کچھ دن ہسپتال داخل رہا، لیکن قسمت کا کرنا کہ بچ نہ پایا۔ میں ہسپتال اور اسکے بعد بچے کے کفن دفن میں دوست کے ساتھ ساتھ رہا، اسکو ان نازک ترین حالات سے گزرتے قریب سے دیکھ رکھا تھا۔
چند دن پہلے جب اس سے ملاقات ہوئی، تو باتیں کرتے کرتے کہیں اس دن کا تذکرہ غیر دانستہ طور پر چھڑ گیا۔ گو کہ اللہ نے اسے پھر سے صاحبِ اولاد کیا لیکن اسکے لہجے اور گفتگو سے مجھے احساس ہوا کہ کئی سال گزرنے کہ بعد اس کا غم کم ہوا ہو لیکن ختم نہیں ہوا۔ اسکے بیٹے کی وفات کا تذکرہ چھڑنا تھا کہ وہ جیسے ماضی کے جھروکوں میں چلا گیا اور وہاں جو کچھ وہ دیکھ رہا تھا مجھے سناتا چلا گیا اور میں خاموش ساکت بیٹھا سنتا رہا۔
کہنے لگا کہ جب خبر ملی کہ بیوی حمل سے ہے تو خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا، سارے گھر کو انتظار تھا، گھر میں پہلے بچے کی آمد تھی۔ لڑکی ہو گی تو کیا نام رکھنا ہے، لڑکا ہو گا تو کیا نام، اس پر باقاعدہ سارے گھر والوں کی طویل بحثیں ہوئیں۔ اسکے پیدا ہونے کے بعد گھر کے ہر فرد کی توجہات کا مرکز بن چکا تھا، اسکی ایک ایک ادا، ہاتھوں کے جنبش، مسکراہٹ سب کے لئے تفریح کا باعث تھی۔ اسکے منہ سے نکلنے والے بے معنی الفاظ میں ہر کوئی اپنے اپنے معنی تلاش کرتا۔ میں تو اسی وقت سے اسکے روشن مستقبل کے سحر میں رہنے لگا تھا۔ فلاں سکول میں داخل کرواوں گا، تو اتنی ماہانہ فیس کا بندوبست ضروری ہو گا، ابھی کے اسکے دودھ، پیمپر کپڑوں کے لئے پیسے کمانے کی محنت کرنے میں مجھے مزا آنا شروع ہی ہوا تھا کہ اسکی اچانک سے موت نے سب خواب چکنا چور کر دیئے۔
وہ بتاتا ہے کہ جس دن اس نے وفات پائی میں اور اسکی ماں غم سے نڈھال تھے لیکن میرے ذہن میں اسکے کفن دفن کی ذمے داری کا خیال تھا۔ جیسے ہی میں نے اسے اسکی قبر کے سپرد کیا اور اس پر مٹی ڈالی تو اک لمحے کے لئے میرا دل دِھل گیا لیکن جیسے ہی اسے دفنا کر اٹھا تو میں نے اپنے غم میں ذیادہ نہیں تو کچھ حد تک تو کمی محسوس کہ کم از کم میں نے اپنی ذمہ داری پوری کی۔ گھر جا کر اپنی بیگم کو سنبھالنے کی کوشش کرتا رہا، کوشش کرتا رہا کچھ ایسا کہہ سکوں کہ اسے کسی طرح کچھ صبر آ جائے، لیکن وہ تو سنبھالے نہ سنبھلتی تھی۔ میں ایک ہی گردان الاپتا رہا کہ صبر کرو، اسے میں اللہ کے سپرد کر آیا ہوں، اللہ کے سپرد، اسے دفنا آیا ہوں، وہ اب اس دنیا سے بہتر جگہ پر ہے۔
دوست کہ منہ سے یہ سننا تھا کہ میری سوچ کربلا میں شش ماہے علی اصغر کے لاشے سے متصل ہوئی اور مظلومہ بی بی رباب کا خیال آیا۔ شاید امام حسین علیہ السلام کا علی اصغر کو دفنانے سے انکے غم میں کچھ کمی آئی ہو کہ اللہ کے سپرد کر دیا علی اصغر کو لیکن ہائے فوجِ ستمگر کا علی اصغر کے سر تن سے جدا کر کہ نیزے پر بلند کرنے کے لئے قبر کھود کر لاشے کو نکالنا، علی اصغر کی ماں بی بی رباب پر ایک بار پھر کیا قیامت گزری ہوگی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn