Qalamkar Website Header Image

أنبقى بعدك

واقعہ کربلا کا تجزیہ کرنے والے اہل علم اس موضوع کو کئی ابواب میں تقسیم کرتے ہیں۔ جیسے واقعہ کربلا کے اسباب، واقعہ کربلا کا پیغام اور درس، واقعہ کربلا میں موجود عبرتیں وغیرہ وغیرہ۔ واقعہ کربلا سنہء61 ہجری میں ایک دفعہ پیش آیا لیکن دیگر تاریخی واقعات کی نسبت واقعہ کربلا نے معاشرے پر بہت گہرے اور دائمی اثرات مرتب کیے ہیں۔

واقعہ کربلا  کے پیغام اور اس واقعہ سے حاصل ہونے والے درس پر اگر غور کیا جائے تو واقعہ کربلا میں ایک درس وفا کا درس ہے۔ اپنے مقصد اور اپنے پیشوا کے ساتھ وفا۔ وفا کا تصور انسانی معاشروں میں اول سے ہی ہے لیکن جس خوبصورتی کے ساتھ یہ تصور واقعہ کربلا میں مجسم ہوا ہے اتنی خوبصورتی کے ساتھ اس واقعہ سے پہلے یا بعد میں وفا کا مجسم ہونا نہیں ملتا ہے۔

واقعہ کربلا میں مختلف مراحل پر مختلف پیغام اور درس ہیں لیکن جو جامعیت شب عاشور میں ہے اور جو درس شب عاشور میں ہیں وہ واقعہ کربلا سے جڑے دیگر ایام میں نہیں ہیں۔ شب عاشور میں عبادت ہے، اپنے مقصد اور پیشوا کے ساتھ وفا کا عہد ہے، مقصد اور راستے کی معرفت کی تکمیل ہے۔

شب عاشور ایک وقت میں امام عالی مقام ؑاپنے ساتھیوں کو اکٹھا کرتے اور ان سے یوں مخاطب ہوتے ہیں:
"فانی لا اعلم اصحابا اوفی و لا خیرا من اصحابی، و لا اہل بیت ابر و لا اوصل من اہل بیتی، فجزاکم الله عنی خیرا”۔
(میں نے اپنے اصحاب سے باوفا تر اور اچھے صحابی نہیں دیکھے ہیں۔ میں نے اپنے اہل بیت ؑسے زیادہ نیک اور صلہ رحمی کرنے والے اہلبیت ؑنہیں دیکھے ہیں، خدا آپ کو اس کا اجر دے۔)
امام عالی مقام ؑاپنے اصحاب اور خاندان کے افراد کی تعریف اور تائید کرنے کے بعد اپنے اصحاب و خاندان کے افراد کو رخصت دیتے ہوئے فرمایا:
"هذا لیل قد غشکیم فاتخذه جملا”
(رات کی جس تاریکی نے آپ لوگوں کو گھیر رکھا ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں سے چلے جائیے۔)
امام ؑعالی مقام اس رخصت کی وضاحت فرماتے ہوئے کہتے ہیں:
"فان هولاء انما یریدونی دونکم و لو قتلونی لم یصلوا الیکم و انتم فی حل وسعة”
(ان لوگوں کا ہدف میں ہوں اور میرے قتل سے یہ اپنے ہدف کو پا لیں گے اور انہیں تم سے کوئی سروکار نہیں ہے آپ آزاد ہیں۔)

یہ بھی پڑھئے:  فکرِ حسین علیہ السلام کی دعوتِ عام |حیدر جاوید سید

امام ؑنے شب عاشور  یہ واضح کردیا کہ کل کیا ہونے جارہا ہے۔ کل جو ڈٹا رہے گا وہ لشکر اعداء کے ہاتھوں قتل کردیا جائے گا اور میں ڈٹا رہوں گا لیکن آپ لوگ خود کو مجھ سے جدا کرلیں یوں آپ کی جان بچ جائے گی۔ امام عالی مقام کی بات سن کر سب نے یک زبان ہوکر فرمایا:
"قبح الله العیش بعدک”
(آپ کے بعد جینے پر اللہ کی لعنت ہو)
امام عالی مقام کی بات مکمل ہونے پر ہاشمی جوانوں میں سے سب سے پہلے حضرت عباسؑ ابن علی ؑ  کھڑے ہوئے اور فرمایا:
"لم نفعل ذلک؟ انبقی بعدك؟! لا ارانا الله ذلک ابدا”
( (کیا) ہم ایسا کریں، (کیا) ہم آپ کے بعد زندہ رہیں؟، خدا ہمیں کبھی ایسی حالت میں نہ دیکھے۔)

عباس ؑابن علی ؑ کے بعد دیگر اصحاب امام عالی مقام ؑ باری باری کھڑے ہوئے اور انہوں نے امام ؑسے وفائے عہد کی تجدید کی۔ سب اصحاب و اہلبیت ؑنے اس زندگی پر افسوس اور نفرت کا اظہار کیا جس میں وہ تو زندہ ہوں لیکن حسین ؑ نہ ہوں۔ عاشق تو ہوں لیکن معشوق نہ ہو۔ ماموم زندہ رہیں لیکن امام زندہ نہ ہو۔ لشکر تو بچ جائے لیکن سالار نہ ہو۔

یہ بھی پڑھئے:  حقیقت امام حسین رضی اللہ عنہ - پہلا حصّہ | محمد عامر حسینی

شب عاشور وفا کا زبانی اظہار تھا۔ اور یوم عاشور وفا کا عملی مظاہرہ۔
وفا کی یہ تصویر چشم فلک نے واقعہ کربلا سے پہلے دیکھی ہوگی نہ بعد میں۔
عباس ؑابن علی ؑ کے شب عاشور کے جملے "انبقی بعدك” کو لبنانی عزادارن امام مظلوم نے اس سال کی عزاداری کا نعرہ انتخاب کیا ہے۔لبنانی عزاداران امام ؑمظلوم کی جانب سے اس انتخاب کا پس منظر امریکہ کی ایران کو جنگ کی دھمکیاں ہیں۔ ویسے تو دنیا کے اکثر مظلومین خصوصا مسلمان آیت اللہ خامنہ ای سے عقیدت رکھتے ہیں لیکن لبنانی عزاداروں کی آیت اللہ خامنہ ای سے عقیدت اور تعلق خاص اور نظریاتی ہے۔

لبنانی عزاداران امام مظلوم آیت اللہ خامنہ ای کو اپنا امام و رہبر سمجھتے ہیں۔ لبنانی عزاداروں کے بقول اگر امریکہ ایران پر جنگ مسلط کرتا اور اس سے ایران کو نقصان پہنچتا ہے اور ہم چپ رہتے ہیں تو یہ ایسے ہی ہے جیسے شب عاشور امام عالی مقام ظلم کے سامنے نہ جھکنے کا فیصلہ کرچکے ہوں جس کا حتمی نتیجہ ان کی شہادت ہوگا لیکن ہم ان سے لاتعلق رہیں اور امام کا ساتھ نہ دیں اور اپنی زندگی کو ترجیح دیں۔ لبنانی شیعوں کے بقول ایسا جینا بھی کیا جینا ہوا کہ جس میں ہم تو جئیں لیکن امام نہ ہوں اور یہ سبق ہمیں کربلا نے سیکھایا ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس