پتہ نہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے، ہم بند گلی میں کھڑے ہیں۔ شور وغل بہت ہے۔ دھکے ہیں اور نعرے ہیں مگر نکاسی کا راستہ تلاش کرنے کی بجائے ایک دوسرے کو دھکے دئیے جارہے ہیں۔
فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ
”آج کیا ہم تو ہمیشہ سے بند گلی میں ہی رہ رہے ہیں۔ اسی فضا کے عادی ہیں‘ یہی صورتحال ہمیں مرغوب ہے“۔
یہ فقیر راحموں بھی عجیب ہے۔
اس کے بھاشنوں سے اللہ بچائے۔
چھ دہائیوں کا ساتھ ہے دونوں ایک دوسرے کے عادی ہیں اس لئے ایک دوسرے کو برداشت بھی کرتے ہیں۔
زندگی کے جھمیلے بہت ہیں۔ اتنے کہ اب کچھ معاملات تو واٹس ایپ پر طے ہونے لگے۔
کیا زمانہ تھا کبھی خط لکھے جاتے تھے۔ 1970ءکی دہائی میں جوان ہوئی نسل تو خط بھی نثری نظم کے انداز میں لکھتی تھی۔
خلیل جبران کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ جبران کی نثر کا جادو اب بھی کم نہیں ہوا۔ حبیب دہلوی سے تبسم لطیف تک اور چند دیگر نے عربی اور انگریزی سے اردو میں باکمال تراجم کئے۔ ہماری نسل کا ایک حصہ جبران کو پڑھ کر نثر سمجھ پایا۔
ایک حصےکو نسیم حجازی مرغوب ہوئے۔
رجعت پسندوں کو اب بھی وہی مرغوب ہیں۔ تلوار‘ گھوڑا‘ ویرانہ‘ نخلستان‘ دم آخر ایک کافر حسینہ جو گھوڑا سوار پر فدا ہوئی۔
بہت سال ہوتے ہیں جب سندھی زبان کے عہدساز ادیب نسیم کھرل مرحوم نے کہا تھا
”مجھے حیرانی ہے کہ ہمارے ادیب خود کو اپنی تاریخ سے جوڑنے کی بجائے ایسا ادب لکھ رہے ہیں جس کا اس مٹی اور تہذیب سے کوئی تعلق نہیں“۔
تبھی طالب علم نے ان کی خدمت میں عرض کیا
”مذہبی جذبات بھڑکانے سے جعلی تاریخ زیادہ فروخت ہوتی ہے“۔
ساڑھے چار عشروں بعد نجانے نسیم کھرل کی یادوں نے کیوں دستک دے ڈالی۔ سندھ کے مٹی سے تخلیق ہوئے نسیم کھرل نے کمال کے افسانے لکھے۔ ایک پوری دہائی اس نے سندھی نوجوانوں کے دلوں پر راج کیا پھر موت کا ذائقہ چکھ کر رخصت ہوگیا۔
اچھا ویسے ہم نے اپنی تاریخ‘ ثقافت اور مٹی سے خود کو جوڑا کب؟
بہتر سال تک تو مسلم امہ کا” انڈہ پراٹھا” فروخت ہوا مگر کیا تاریخ صرف بہتر سال کی ہے؟
کم ازکم میرا جواب نفی میں ہے۔
متحدہ ہندوستان کے بٹوارے سے معرض وجود میں آنے والی دونوں ریاستیں بھارت اور پاکستان اس تاریخ کے نئے باب ضرور ہیں‘ نئی تاریخ نہیں۔
آج صبح سوشل میڈیا پر ایک دوست نے دہلی کے فیروز شاہ سٹیڈیم کا نام ارون جیٹلی سٹیڈیم رکھے جانے پر ہندوستان کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا خیال ہے کہ مسلمان بادشاہ کے نام پر سٹیڈیم کا نام تبدیل کرنا تاریخ سے زیادتی ہے اور ہندووں کی مسلم دشمنی کا منہ بولتا ثبوت۔
مجھے اپنے وہ شہر اور محلے یاد آگئے جنہیں ہم کب کا مسلمان بنا چکے۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمان ہوں‘ ہندو‘ سکھ یا کوئی اور سبھی کا خمیر اسی مٹی سے اُٹھا ہے
ہر دوطرف سبھی ایک جیسے ہیں تنگ نظر کج فہم اپنے اصل سے کٹے ہوئے۔
معاف کیجئے گا کچھ سقیل قسم کی باتیں ہو رہی ہیں۔ سیاست کے بازار کا بھاوں بہت تیز ہے۔
خبریں لاتعداد لیکن ان پر طبع آزمائی کو دل نہیں کر رہا۔
فقیر راحموں نے کاندھا ہلاتے ہوئے کہا
” شاہ جھوٹ تو نہ بولو تم لکھنا تو چاہتے ہو مگر حالات کے ڈر سے آنکھیں چرا رہے ہو”۔
آپ اس کی باتوں میں ہرگز نہ آئیں۔ میں بھی اب اس کی کوئی بہت زیادہ نہیں سنتا۔
ہم تاریخ کی بات کر رہے تھے۔ چند دن قبل ایک جگہ عرض کیا کہ اپنی تاریخ سے کٹے زمین زادوں کو بالآخر ایک دن سوچنا پڑے گا کہ عرب ، ایران وتوران اور افغانستان کی تاریخ وتہذیب سے ہمارا کوئی تعلق نہیں؟۔
ایک دوست یہ الفاظ لے اُڑے اور پھر ایک صاحب نے لمبا چوڑا بھاشن دے ڈالا۔ ان بھاشن بازوں کو اللہ ہی سمجھائے تو سمجھائے۔
میں تو ان سطور میں تواتر کےساتھ لکھتا چلا آرہا ہوں نصاب تعلیم کو ازسرنو ترتیب دیجئے۔
ہماری آئندہ نسلوں کو اپنی تاریخ وتہذیب اور اپنے ہیروز سے روشناس کروائیے۔
مغل بادشاہ تھے یا سلاطین دہلی یا حملہ آور وہ بس حکمران تھے اور حملہ آور۔
انسانی سماج کے ارتقا اور علوم کی ترویج کےلئے ان کی رتی برابر بھی خدمات نہیں۔
مجھ طالب علم سے اکثر نوجوان سوال کرتے ہیں ہم کسے پڑھیں؟
جواباً عرض کرتا ہوں” صوفی شعراءاور ان کے حالات زندگی سے آگاہی حاصل کیجئے بطور خاص، شاہ لطیف‘ رحمن بابا‘ حمزہ شنواری‘ شاہ حسین‘ بلھے شاہ‘ سچل سرمست‘ خواجہ غلام فرید‘ میاں محمد بخش‘ خوشحال خان خٹک‘ سلطان باہو اور مست توکلی کےساتھ نصیر گل۔ لے دےکر ہمارے پاس یہی ہیں یا پھر علی عباس جلالپوری ہیں‘ سبط حسن ہیں۔ اقبال وفیض ہیں۔ مرشد جی ایم سید ہیں۔ شیخ ایاز‘ مہر عبدالحق‘ ”
نوجوانوں کو جواب تو عرض کر دیتا ہوں پھر ایک سوال خود مجھے کچوکے بھرتا ہے۔
بہتر سالوں میں ہمارے پاس سبط حسن‘ علی عباس جلالپوری‘ فیض، جی ایم سید وشیخ ایاز کے علاوہ ہے کیا؟ محض چند حوالے وہ بھی ناول کی شناخت پر۔
جب بھی اس سوال کا جواب تلاش کرنے لگتا ہوں فقیر راحموں بہت مذاق اُڑاتا ہے۔
بہت ادب کےساتھ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ٹھنڈے دل سے اسی مسئلہ پر غور کرنا ہوگا۔
پدرم سلطان بود کے زعم سے نجات بہت ضروری ہے۔ بغداد وغرناطہ یا اندلس ودمشق کی دانش کے قصے بہت ہوگئے۔ ہماری اجتماعی دانش کا چہرہ کون ہے۔ یہی نہیں ہماری تاریخ کیا ہے؟‘
جغرافیے تو ٹوٹتے بنتے رہتے ہیں مگر تاریخ تو اپنے تسلسل میں ہی آگے بڑھتی ہے۔
اپنے پڑھنے والوں سے معذرت بات کہاں سے شروع ہوئی اور کس سمت نکل گئی۔ لیکن یہ باتیں بھی غور طلب ہیں۔ ہم میں سے کتنے لوگ زرق خان‘ احمد خان کھرل‘ دیوان مول راج‘ ہوش محمد شیدی کو جانتے ہیں؟
نہیں جانتے تو قصور کس کا ہے؟
پچھلی نسلوں اور خود ہمارا بلکہ ہم سے زیادہ اس ریاست کا جسے خود کوئی احساس نہیں۔ کیا ریاست خود یہ چاہتی ہے کہ سماج فکری طور پر بنجر رہے تاکہ کاروبار حیات چلتا رہے؟
سادہ سا جواب تو ”ہاں“ میں ہے۔
ان لمحوں شاہ حسینؒ کی یادوں نے دستک دی۔ وہ کہتے ہیں
”یہ میرا سرخ جوڑا فقیروں والا ہے‘ کوئی بھی میرے حال کا محرم نہیں‘ کس کو جا کر اپنا حال سناوں‘ خوف دامن گھیر رہتا ہے‘ دلوں کے بھید سے وہی واقف ہے۔ لوگ زندگی کے فریب میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ زندگی سمجھ میں آجائے تو زندگی سنور جائے۔“
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn