Qalamkar Website Header Image

تحریر اور فن ِ تحریر

ہر مصنف کی طرح مجھ سے بھی نئے لکھنے والے رابطہ کرتے ہیں اور اپنی تحریر کے حوالے سے اِصلاح کے طالب ہوتے ہیں۔ چنانچہ سوچا‘ اِس حوالےسے کوئی تحریر رقم کر دی جائے تاکہ سند رہے اور بوقت ِ ضرورت اور حوالہ کام آئے۔
فنِ تحریر بھی دیگر بہت سے فنون کی طرح ایک فن ہے، اور اقبالؒ ایسے صاحبِ حال بتا گئے کہ فن کے گلشن میں معجزہ بپا کرنے کیلئے ہر نخل کو، ہر کونپل کو خونِ جگر سے سینچنا ہوتا ہے۔ جگر جذبات کا استعارہ ہے، شدت میں اِس کا مقام دِل سے آگے ہے۔
رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
توجہ، دلچسپی ، اِرتکاز اور بلاتکان مشق… یہ چار عناصر ہیں جو کسی فن کو نقطۂ معراج پر پہنچاتےہیں۔ ہر چند کہ لکھنے کا ہنر ایک عطا ہے… لیکن عطا کو ریاضت کی خانقاہ میسرنہ آئے تو عطا اپنی بے قدری پرخفا ہو جاتی ہے…اور پردۂ اخفا میں چلی جاتی ہے۔ تحریر کے شعبے میں کوئی شارٹ کٹ نہیں، شارٹ کٹ ڈھونڈنے سے فن کی رگِ جان کٹ شارٹ ہوجاتی ہے۔ اگر کوئی فن ِ تحریر میں اِس لیے دلچسپی لے رہا ہے کہ اِس شعبے میں قدم رکھنے سے اُس پر شہرت اور دولت کی دیوی مہربان ہو جائے گی تو دنیائے فن پر اُس کی مہربانی ہوگی کہ وہ اِس کوچے سےلَوٹ جائے۔ شہرت اور دولت حاصل کرنے کیلئے سیاست اور تجارت کہیں بہتر شعبہ جات ہیں۔ کیا ہم دیکھتے نہیں کہ حکومتی وزیر وغیرہ کس طرح ہر وقت اخباروں اور ٹی وی میں چھائے رہتے ہیں، انجمنِ تاجران و سوداگران کے صدور اور سیکرٹری وغیرہ بھی اپنی تصاویر کے ساتھ بڑے بڑے اخباروں کے صفحات کالے کیے رکھتے ہیں۔
دراصل تحریر سے پہلے خیال کی اِصلاح درکار ہوتی ہے۔ اگر خیال کا کوئی وجود ہوتا تو تحریر اِس کا لباس ہوتی۔ لباس کی تزئین و آرائش میں مشغول رہنا وقت کا ضیاع ہے ٗ جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ لباس بدل کر جانا کہاں ہے۔ ہماری منزل ہی ہماری قدر متعین کرتی ہے۔ جن کی منزل اللہ ہو‘ وہ سفر کے آغاز ہی میں اللہ والے کہلاتے ہیں۔
تاثیر کے باب میں تحریر اہم نہیں ‘ تحریر لکھنے والا اہم ہوتاہے۔ تحریر ایک تحیر ہے۔دِل سے لکھو گے تو دِل پر لکھا جائے گا۔ مصنف اگر مصفا ہے تو اس کی سادہ سی تحریر بھی متحیر کر دے گی، عقل و شعور میں ایک ہلچل بپا کر دے گی۔ لکھنے والا اگر بے عمل اور منافق ہے تو اس کی مقفیٰ، مرصع اور مسجع تحریر بھی بے اثر ہوگی۔ الفاظ کی ترتیب پہ برہم نہ ہوں، سچ تو یہی ہے کہ بے عمل شخص منافق ہوتا ہے۔ وہ ایسی بات کی تبلیغ کر رہا ہے جس پر وہ خود عامل نہیں۔ دراصل سب سے بہترین تبلیغ ہم اپنے کردار سے کرتے ہیں، اگر کردار میں منافقت ہو تو ہماری تحریر و تقریر میں اسی منافقت کا ابلاغ ہو جاتا ہے۔
جو شخص لفظ کی حرمت کا قائل نہیں‘ میں اسے مصنف نہیں سمجھتا… وہ لفظوں کا تاجر ہے، لفظوں کی تجارت سے دولت اور شہرت کا نفع سمیٹ رہا ہے۔ درست لفظ کا غلط مقام پر استعمال لفظوںکا اغوا ہے۔ اگر لفظوں کے اِس اغوا پرہماری روح مضطرب نہیں ہوتی تو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم روح سے خالی ہیں۔ روح سے محروم شخص ٗ روحِ عصر سے کیسے ہمکلام ہوگا؟ ہر لفظ کا ایک جدا مقام ہوتا ہے‘ اُسے اِس مقام سے ہٹا دیا جائے تو معانی کی دنیا میں شورش برپا ہو جاتی ہے۔ لفظ ایک علامت ہے …علامتوں کے رخ تبدیل ہو جائیں تو قافلے اپنی منزل سے بھٹک جاتے ہیں۔ کوئی لفظ کسی کا متبادل نہیں۔ہر لفظ کی اپنی کیمسٹری ہے، معانی کا قفل کھولنے میں ہر لفظ ایک الگ” کوڈ” رکھتا ہے۔ ہر لفظ کا ایک اپنا فلک ہے، چاند اور سورج کی طرح ہر لفظ اپنے اپنے فلک میں تیر رہا ہے۔ نظامِ فکر درہم برہم ہو کر رہ جائے ‘ اگر سورج چاند کو جالے اور چاند سورج کی جگہ لینے کی کوشش کرے۔ محبت اور ہوس میں ہمیشہ فرق رہے گا۔ عام آدمی متردافات سے دھوکہ کھا جاتا ہے۔ لفظ اور معانی کا عارف مترادف اَلفاظ سے دھوکہ دے گا، نہ دھوکہ کھائے گا۔
اِنسان کی طرح لفظ بھی ظاہر اور باطن کے درمیان ایک برزخ کی حیثیت رکھتا ہے۔ لفظ بیک وقت باطن سے رابطہ بھی ہے اور حجاب بھی!! لفظ ایک پل کی طرح ظاہر کو باطن سے متعلق کرتا ہے۔ باطن نامعلوم ہے، ظاہر معلوم۔ گویا لفظ معلوم اور نامعلوم کے درمیان ایک رابطہ ہے۔ ہم لفظ کی انگلی پکڑ کر چلتے ہیں اور معلوم سے نامعلوم …اور پھر لامعلوم کی اَتھاہ گہرائیوں میں اُتر جاتے ہیں۔ اللہ اللہ ! لفظ کا یہ مقام کہ خالق ِ کائنات نے انسان کے ساتھ ہم کلام ہونے کیلئے لفظ کا اِنتخاب کیا، اُس نے لفظوں کو برگزیدہ کیا…اور اِنسان کا یہ اعزاز کہ وہ اِن چنیدہ اور برگزیدہ لفظوں کو دہرا سکتا ہے۔ دُعا بھی درِ اَجابت پر لفظوں کی دستک ہے۔ محب اور محبوب کے درمیان قلبی رشتہ لفظوں کی صورت میں گویا ہوتا ہے۔ لفظ باطن کا ظاہر میں ظہور ہے۔
لفظ تخیل کی سواری ہے، مناسب ِ حال لفظ سبک رفتار سواری ہے ، نامناسب لفظ سفر اور کیفت ِ سفر کو بوجھل کر دیتا ہے۔ ہر سفر کے مناسب ِ حال ایک سواری درکار ہوتی ہے۔ اپنے قاری کیلئے مناسب سواری مہیا کرنا مصنف کا کام ہے۔ اہم بات یہ نہیں کہ ہم نے کیا بولنا ہے، اہم بات یہ ہے کہ کب بولنا ہے اور کس کے سامنے بولنا ہے۔ وہ شخص دانا نہیں ٗجو لکھتے اور بولتے ہوئے اپنے قارئین اور سامعین کی تخصیص نہیں کرتا۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ اس وقت بولو جب تمہارے سامعین کی کلاس بن چکی ہو۔گویا جب تک مشتاق سماعتیں اور سعد ساعتیں میسر نہ ہوں‘ لفظوں کو بے توقیر نہیں کرنا چاہیے۔ وقت سے پہلے بولنا ایسا ہی ہے جیسے شست باندھے بغیر فائر کر دینا۔ نصیحت کیلئے کتنے ہی خوبصورت الفاظ منتخب کر لیے جائیں ٗ جب تک مناسب وقت اور ماحول میسر نہ ہوگا ٗ نصیحت بے اثر ہوگی۔ اوائل میں جب میں اپنی تحریر کی اصلاح کیلئے مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کے پاس حاضر ِ خدمت ہوا تو لفظ کی چکاچوند کی حقیقت چند ملاقاتوں میں مجھ پر واضح کر دی گئی۔ غالبا دوسری یا تیسری ملاقات تھی ، لفظ کی خوبصورتی پر کلام کرتے ہوئے آپؒ نے فرمایا‘ دیکھو! یہ کیسا جملہ ہے، ایک کہانی میں ایک خاتون اپنے ساتھی سے کہتی ہے…… حلقۂ ارباب ذوق اور تصنیف ِ ادب میں بیٹھنے والا ٗ ادب کی شیرے میں لتھڑا ہوا ٗجملوں کی تراش خراش پر فریفتہ ٗ لفظ گزیدہ طالب علم جملہ سنتے ہی یکدم جھومتے ہوئےبولا‘ سر ! بہت خوبصورت جملہ ہے!! آپؒ نے سرزنش کرتے ہوئے کہا ٗ جملہ تو خوبصورت ہے لیکن عاقبت برباد کر دے گا۔ آپؒ نے مجھے ایک سال تک لفظ کا روزہ رکھوایا، جب لکھنے کی اجازت دی تو لفظ اپنا ظاہری حسن میری نظروں میں کھو چکا تھا۔ مقصد لفظ سے زیادہ اہم ہو چکا تھا۔ میری پہلی کتاب ’’ پہلی کرن” کی اصلاح کے دوران میں آپؒ نے بہت سے جملے یہ کہہ کر قلم زد کر دیے کہ یہ کوئی خاص بات نہیں، دیکھو! یا خیال نیا ہو ، یا اُسے پیش کرنے کا انداز نیا ہو۔ کسی نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کی تحریر مشکل ہوتی ہے، جبکہ آپ کے مرشد کی تحریر تو بہت آسان ہے۔ میں نے جواب دیا ٗ بھائی! آسان لکھنا بہت مشکل ہے… جتنا آسان آپؒ نے لکھ دیا ہے‘ اس سے زیادہ آسان لکھا نہیں جا سکتا۔ ہم تو اسلوب ِ واصف ؒ کے خوشہ چینوں میں شامل ہیں، اصل گلشن ِ معانی اپنے اسلوب سمیت خیال ِ واصفؒ ہی کے نام وقف ہو چکا ہے۔ اسلوبِ واصفؒ نئے لکھنے والوں میں ایک رواج کی طرح رائج ہو چکاہے۔
لکھنے والے کا کام لکھنے سے ہے… اُسے لکھتے رہنے سے کام ہے۔ اُس کا کام یہ ہرگز نہیں کہ وہ اپنے لکھے ہوئے کی مارکیٹنگ کرتا پھرے۔ ایک تخلیق کار بنیادی طور پر شہد کی مکھی کی سی سرشت رکھتا ہے، اُسے شہد بنانے سے کام ہے، اُسے اپنے شہد کی مشہوری کے مشورے کبھی راس نہیں آتے۔ شہد… شفا ہے، اسی طرح تحریر میں شفا کی تاثیر ہونی چاہیے۔ ادیب پر لازم ہے کہ وہ ایسا اَدب تخلیق کرے جو پڑھنے والے کو شفا یاب کرے۔ اَدب معاشرے کو بااَدب بنانے کا نسخہ ہے … بے ادب بنانے کی ترکیب اور ترغیب نہیں۔ اَدب کے ذمے معاشرے کی ظاہری اور باطنی شفا ہے۔ ظاہری شفا سے مراد ٗ آداب و اخلاقیات کی تعلیم و ترویج ہے، اعلیٰ انسانی اقدار کا مسلسل فروغ ہے،اور تہذیبی شعور کی بالیدگی کا اہتمام ہے۔باطنی شفا سے مراد ٗتہذیب ِ نفس ہے …یعنی تزکیۂ نفس اور تصفیہ قلب ہے ، فکر و نظر کی پاکیزگی کا شعور ہے۔ اگر ایک اَدیب اپنے بارہ مسالوںکی چاٹ اور کاٹ دار تحاریر سے حیوانی جبلتوںکے کھلے اظہارکی توجیہہ رقم کرتا ہے ٗ تو اَدب کے نام پر یہ ایک کھلی بے ادبی ہے: بقول مرشدی واصف علی واصفؒ
رکھتا ہے بے اَدب بھی یہاں زعمِ آگہی
یہ حال ہے تو حال نہ پوچھو ادیب کا
لفظ برائے لفظ… وقت کا ضیاع ہے۔ ایک ایسے شخص کا تصور کریں جو بڑی محنت ، مشقت اور ریاضت سے اپنے گھر میں ایک مہنگی گاڑی لے کر آتا ہے، دوست احباب آتے ہیں اور اُس کی گاڑی کی چھب دیکھ کر تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں، اِسی اثنا کسی حقیقت پسند کا گزر ہوتا ہے، وہ اس سے پوچھتا ہے‘ بھائی! اس گاڑی میں جاتے کہاںہو؟ گاڑی کا مالک کہتا ہے‘ کہیں نہیں، گاڑی یہیں کھڑی رہتی ہے۔ اُمید ہے اس مثال نے معانی کا معمہ حل کر دیا ہوگا۔ گویا اہم بات یہ نہیں کہ ہم فن کی کن بلندیوں پر بیٹھ کر لکھ رہے ہیں ‘ اہم بات یہ ہے کہ ہم کیا لکھ رہے ہیں۔ لکھنے والے کی اہم ذمہ داریوں میں یہ شامل ہے کہ وہ اپنے قاری کے تخیل کو کثافت سے لطافت کی طرح سفر کروائے۔ لازم ہے کہ اُس کے الفاظ جسم سے روح کی طرف سفر میں معاون ہوں۔ اگر خدانخواستہ ہمارا لکھا ہوا لفظ قاری کو ایمانیات سے نکال کر جسمانیات میں داخل کر رہا ہے‘ تو یہی لفظ کل ایک وعدہ معاف گواہ بن کر کھڑا ہو جائے گا۔ لفظ فنا نہیں ہوتا، بولا ہوا لفظ تو شائد ہوا میں تحلیل ہو جائے لیکن لکھا ہوا لفظ ایک سند بن کرقائم ہو جاتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے الفاظ ہمارے قارئین کو سوئے مدینہ و نجف لے کر جا رہے ہیں یا سٹاک ہام اور ہالی وڈ کا راستہ دکھا رہے ہیں۔ لفظ ہماری عاقبت ہیں… اچھی یا بری۔ لفظ عذاب اور عبرت بھی ہیں، اور ثواب اور عزت بھی۔ فیصلہ لکھنے والا قلم …ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے!!

حالیہ بلاگ پوسٹس