مقبوضہ کشمیر میں کیا ہورہا ہے۔ ایک دو بین الاقوامی نشریاتی اداروں کے سوا کوئی ذریعہ اطلاعات نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر کشمیر کے حوالے سے لوگوں کا اعتماد کم ہوتا جارہا ہے ‘
وجہ یہی ہے کہ بھارت کے مختلف علاقوں کی پرانی پرتشدد ویڈیوز کو کشمیر کے حالیہ واقعات سے جوڑ کر اپ لوڈ کردیاگیا۔
جعلسازی سے نیکی کمانے والوں میں ہمارے وفاقی وزیر سید علی زیدی بھی شامل ہیں۔
بی بی سی نے ان کی دو ویڈیوز کے حوالے سے تحقیقاتی سٹوری شائع کردی مگر وفاقی وزیر شرمندہ ہوئے نا انہوں نے معذرت کی۔
سید علی زیدی نے کیوں بھارتی پنجاب اور راجھستان کے علاقوں کی دو ویڈیوز ٹیوٹر پر اپ لوڈ کیں؟ اس سوال کا جواب ان کے پاس ہی ہے۔
بہت ادب سے عرض ہے مظلوم کشمیریوں کی حمایت کی جانی چاہئے مگر یہ ضرور دیکھ لیجئے کہ جو آپ کہہ رہے ہیں وہ درست ناہوا تو کشمیریوں کو اس کا نقصان ہوگا۔
امریکی رکن کانگرس ایڈم سمتھ کا یہ کہنا درست ہے کہ بھارت دنیا کو اپنے زیر قبضہ کشمیر میں اندرونی رسائی فراہم کرے تاکہ حقائق سامنے آسکیں۔
ادھر آزادی پسند رہنما یٰسین ملک کی اہلیہ نے الزام لگایا ہے کہ بھارت مقبوضہ وادی میں کیمیائی ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔
دوسری جانب بھارتی میڈیا سے یہ اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ بی جے پی سرکار اور آر ایس ایس کے درمیان انتہا پسند ہندووں کے جتھے مقبوضہ وادی میں بھیجنے پر اتفاق رائے ہوا ہے۔
بھارتی حکومت نے آر ایس ایس کے انتہا پسندوں کو کسی قسم کی منفی سرگرمیوں کے لئے مقبوضہ وادی بھیجا تو حالات مزید خراب ہوں گے۔
بدھ کی شام آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد سے بعض ذمہ دار صحافی مقبوضہ وادی سے ملنے والی ان اطلاعات پر پریشان تھے کہ آر ایس ایس کے دس ہزار رضا کاروں کو پیرا ملٹری فورسز کے روپ میں مقبوضہ کشمیر پہنچا دیاگیا ہے۔
جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے ذرائع اس امر کی تصدیق کر رہے ہیں کہ چند دن قبل مقبوضہ وادی میں تحریک حریت کے بانی مقبول بٹ شہید کی والدہ کے گھر پر فوجی وردیوں میں ملبوس آر ایس ایس کے غنڈوں نے حملہ کیا۔
اس حملہ کی وجہ مکان کی بیرونی دیوار پر لگی ہوئی شہید مقبول بٹ کی تصویر بنی۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم نے کشمیر کی صورتحال پر الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بد ترین نسل کشی کاخطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔
ادھر ہمارے وزیر اعظم نے جمعرات کو اعلان کیا کہ دو ایٹمی ملک آمنے سامنے ہیں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ بھارت سے مذاکرات کا اب کوئی فائدہ نہیں انہوں نے اقوام متحدہ سے امن فوج بھیجنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں درحقیقت کیا ہو رہا ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔
وادی ایک بڑی جیل میں تبدیل ہوگئی ہے۔
میرے کشمیری دوست سید احسن کاظمی کہتے ہیں‘
"بھارت کشمیریوں کی نسل کشی کا آغاز کر چکا بدترین کرفیو نئے اور خوفناک مصائب کو جنم دینے کا موجب بنے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر میں ایسی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ 30فیصد سے زیادہ لوگوں کے پاس کھانے پینے کی اشیاء ختم ہوچکی ہیں”۔
احسن کاظمی آزاد کشمیر کی سابق حکمران جماعت مسلم کانفرنس کے رہنما ہیں۔ ان کی جماعت کشمیر کے دونوں حصوں کی الحاق پاکستان کی حامی ہے لیکن وہ بعض امور پر شاکی بھی ہیں۔
پچھلے چند دنوں سے کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی وہ قرار داد بھی سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے جو کشمیریوں کے حق میں 1948ء میں منظور کی گئی۔
یہ قرار داد ہمیں بتاتی ہے کہ اگر کبھی استصواب رائے کے لئے حالات بنے اور بھارت آمادہ ہوا تو اس پر عمل کی صورت یہ ہوگی کہ
’’ پاکستان آزاد کشمیر سے اپنے سول ملازمین شہریوں اور فوج کو واپس بلالے گا جبکہ بھارت ضرورت کے مطابق فوج رکھ سکے گا‘‘
پھر استصواب رائے ہوگا۔ کیا ہم اس قرار داد کی بنیاد پر کشمیریوں کا مقدمہ لڑتے آرہے ہیں ؟
بڑی عجیب بات ہے کہ ہمارے وزیر خارجہ دنیا کے دارالحکومتوں میں پہنچ کرکشمیریوں کا مقدمہ پیش کرنے اور عالم انسانیت کو تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی بجائے ٹیلی فونک رابطوں اور بیانات میں مصروف ہیں کل انہوں نے نیپالی ہم منصب کو تفصیل کے ساتھ کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کیا۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا اس سے اگلے اقدام یعنی عالمی رابطہ کاری کے سلسلے کا آغاز اگلی صدی میں شروع کرنے کا پروگرام ہے؟۔
آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت کا یہ موقف درست ہے کہ پاکستانی حکومت کسی تاخیر کے بغیر پارلیمانی وفود تشکیل دے ان وفود میں آزاد کشمیر اسمبلی کی بھی نمائندگی ہو یہ وفود اقوام عالم کے ممالک کا بلا امتیاز دورہ کریں وہاں کی حکومتوں کے ساتھ سیاسی قیادتوں‘ ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کی تنظیموں تک کشمیر کی صورتحال کو پہنچائیں تاکہ عالمی سطح پر رائے عامہ منظم کی جاسکے۔
پاکستان کے پاس ایک ہی آپشن ہے وہ یہ کہ وہ سفارتی اور اطلاعاتی محاذوں کے ساتھ عوامی رابطوں کو ترجیح دے۔
ایک عجیب بات یہ ہے کہ ایرانی پارلیمنٹ نے کشمیر کی صورتحال پر قرار داد منظور کی اور کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کیا ہم نے ایک فون پر ان کاشکریہ ادا کردیا۔
ہونا یہ چاہئے تھا کہ کشمیر پر پاکستانی موقف کے حامی مسلم ممالک سے بات چیت کرکے کوئی مشترکہ وفد تشکیل دیا جاتا تو جو عالمی رابطہ کاری میں معاون ثابت ہوتا۔
ایران اور ترکی مسئلہ کشمیر پر دو ٹوک موقف کا اظہار کرچکے ہیں ان دونوں دوست ممالک سے عالمی سفارتکاری میں تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ پچھلے دو دنوں سے یہ اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے آغاز سے اب تک بھارتی سیکورٹی فورسز نے تین ہزار سے زیادہ نوجوانوں اور دو سو کے قریب طالبات کو ان کے گھروں سے گرفتار کرکے بھارتی جیلوں میں منتقل کردیا ہے۔
طالبات کی گرفتاری کا دعویٰ جے کے ایل ایف سرینگر کے فیصل عابد وانی نے کیا ہے۔
وزارت خارجہ کے ذمہ داران کو اس حوالے سے عالمی اداروں اور بڑے ممالک کے ساتھ دوستوں سے فوری طور پر بات کرنی ہوگی تاکہ کوئی بڑا المیہ رونما نہ ہونے پائے۔
روزنامہ مشرق پشاور
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn