Qalamkar Website Header Image

شاہ نعمت اللہ ولی ( شجرہ نسب )

شاہ نعمت اللہ ولی بارے کچھ مٶرخین کا خیال ہے کہ آپ امام موسیٰ کاظم ع کی اولاد سے ہیں گو کہ اس بحث کا ایرانی تاریخ اور کلچر سے واسطہ نہیں لیکن کاظمی سادات کی تاریخ متعلق میری ذاتی دلچسپی کی وجہ سے میں خود اس بحث کو بھی یہیں نمٹا دینا چاہتا ہوں۔
فارسی اور اردو زبان کے دو مٶرخین نے یہ دعویٰ کیا کہ شاہ نعمت اللہ ولی کا شجرہ نسب امام موسیٰ کاظم ع سے جا ملتا ہے۔ اور برصغیر میں آباد اکثر پیروکار بھی اس بارے یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔ اس کا پہلا دعویٰ احمد ولی خان وزیری کرمانی نے اپنی تالیف تاریخ کرمان (سالاریہ) میں کیا جنہوں نے چھ واسطوں سے آپ کا نسب نامہ امام موسیٰ کاظم سے جا ملایا جس پر کچھ اشکالات ہیں۔
١۔ شاہ نعمت اللہ ولی ٧٣١ ہجری میں پیدا ہوۓ جبکہ مشہور روایت کے مطابق مولا امام موسیٰ ع کی شہادت ١٨٥ ہجری میں ہوٸی۔ اس حساب سے امام ع کی شہادت اور شاہ نعمت اللہ ولی کی پیداٸش تک ساڑھے پانچ سو سال کا عرصہ گذرا اور اتنے طویل دور میں صرف چھ پشتوں کا گذرنا ماہرین انساب کی نظر میں نسب نامہ کو مشکوک ظاہر کرتا ہے۔

٢۔ برصغیر کے ایک مٶرخ حکیم محمد ہدایت علی شفق نے مندرجہ بالا نسب نامہ کو رد کر کے شاہ نعمت اللہ ولی کو تین واسطوں سے امام زادہ ثابت کرنے کی کوشش میں اپنا دعویٰ ہی جھوٹا ثابت کر دیا۔

٣۔ اوپر دٸیے دونوں مٶرخین نے شاہ نعمت اللہ ولی کو امام موسیٰ کاظم ع کے بیٹے ہاشم کی اولاد بتایا جبکہ تاریخ اور انساب کی کسی کتاب میں بھی امام ع کے کسی بھی ہاشم نامی بیٹے کا ذکر نہیں ملتا۔ امام ع کی اولاد کی تفصیلات کا جاٸزہ یہاں بیان کیے دیتا ہوں۔

یہ بھی پڑھئے:  ارفع کریم رندھاوا۔۔۔!!!

شیخ مفید اور شیخ طبرسی نے آپ کی اولاد کی تعداد ٣٧ لکھی جن میں ١٩ بیٹے اور ١٨ بیٹیاں ہیں اور ان کے نام یہ ہیں
١۔ امام علی رضا علیہ السلام
٢۔ ابراھیم ٣۔ قاسم ٤۔ عباس ٥۔ اسماعیل ٦۔ جعفر ٧۔ ہارون ٨۔ حسن ٩۔ احمد ١٠۔ محمد ١١۔ حمزہ ١٢۔ عبداللہ ١٣۔ اسحاق ١٤۔ عبیداللہ ١٥۔ زید ١٦۔ حسن ١٧۔ فضل ١٨۔حسین ١٩۔ سلیمان
جبکہ کچھ دیگر مورخین نے بیٹوں کی تعداد ١٨ اور بیٹیوں کی تعداد ١٩ لکھی ہے ۔
کتب حدیث یا تاریخ میں کچھ ایسے بیٹوں کے نام بھی ملتے ہیں جن کے نام ان ١٩ یا ١٨ بیٹوں میں نہیں مثلاً عظیم بزرگ سید مرتضی علم الہدی رح جو ابراھیم المرتضی کی اولاد تھے انہوں نے فرمایا کہ امام کے ابراھیم نامی دو فرزند تھے ایک ابراھیم الاکبر جنہوں نے یمن میں خروج کیا اور دوسرے ابراھیم الاصغر تھے جن کا لقب مرتضی تھا۔
تاریخ یعقوبی میں ١٨ بیٹوں کے نام لکھے ہیں ان میں چند نام ایسے ہیں جو شیخ مفید اور علامہ طبرسی نے نہیں لکھے۔ اگر ان کو بھی شامل کیا جائے تو تعداد بڑھ جاتی ہے ۔
اس کے علاوہ کتب مقاتل مثلاً مقاتل الطالبین میں شیخ ابوالفرج اصفہانی نے کچھ ایسے بیٹوں کے مقاتل لکھے ہیں۔ جن کے نام ان دونوں روایتوں میں نہیں۔ ان میں بعض وہ ہیں جو بچپن میں شہید ہوئے یا فوت ہوئے۔ ان کا زکر بھی اس تعداد میں نہیں ۔ اس لیے بعض محققین کی رائے یہ ہے کہ شیخ مفید نے صرف ان بیٹوں کا زکر کیا ہے جو جوان ہوئے اور مشہور ہوئے جبکہ ان بیٹوں کا زکر نہیں جو بچپن میں فوت ہوئے مثلاً عبدالرحمن ، یحیی ،عقیل اور داٶد۔
عمدة النسابین سید جمال الدین حسنی عمدة الطالب میں فرماتے ہیں امام موسیٰ کاظم ع کی ٦٠ اولادیں تھیں جن میں ٣٧ بیٹیاں اور ٢٣ فرزند تھے ۔
آپ نے اولاد کو چار طبقات میں تقسیم کیا ہے ۔
ا۔ آپ کے وہ فرزند جو بچپن میں فوت ہوئے اور بلاشبہ انکی نسل نہیں چلی پانچ ہیں ۔ عبدالرحمن ، عقیل، قاسم ، یحیی اور داٶد
٢۔ امام کے ایسے فرزند جن کی صرف بیٹیاں تھیں تین ہیں
سلیمان ، فضل اور احمد
٣۔ وہ فرزند جن کی نسل چلنے یا نہ چلنے میں اختلاف ہے پانچ ہیں۔
حسین ، ابراھیم الاکبر ، ہارون ، زید اور حسن
٤۔ آپ کے وہ فرزند جن کی نسل چلنے میں کوئی اختلاف نہیں دس ہیں۔
امام علی رضا ع ، ابراہیم الاصغر، عباس، اسماعیل، محمد، اسحاق، حمزہ، عبداللہ، عبیداللہ اور جعفر

یہ بھی پڑھئے:  ماں تو ایسی کیوں ہے؟ | فاطمہ عاطف

شیخ ابو نصر بخاری لکھتے ہیں کہ آپ کی نسل ١٣ فرزندوں سے جاری و ساری ہے
ان میں چار کی اولاد کثیر ہے
امام علی رضا ع ، ابراھیم المرتضیٰ ، محمد العابد اور جعفر
چار جن کی اولاد متوسط ہے ۔
زید النار ، عبداللہ ، عبیداللہ اور حمزہ
پانچ جن کی اولاد قلیل ہے ۔
عباس ، اسحاق ، ہارون ، حسن اور حسین

حالیہ بلاگ پوسٹس