آج میں آپ کو بتاؤں گی کہ قلم کار بننے کے لئے آپ میں کیا خصوصیات ہونی چاہیے ۔چند خصوصیات پاؤلو کولہو کی کتاب ” The Flowing River ” سے مستعار لی گئی ہیں اور باقی میری اپنی تخلیق ہیں امید ہے آپ کو فائدہ ہوگا ۔ اگر آپ لکھاری بننے کا فیصلہ کر چکے ہیں تو فورا ترک کر دیں کیونکہ بھوکا مرنا کوئی عزت کی بات نہیں، لیکن اگر آپ پھر بھی بضد ہیں تو سب سے پہلا کام یہ کریں کہ اپنے لئے ایک خوبصورت سی عینک خریدیں، اس کے لئے آپ کی نظر کمزور ہونا ضروری نہیں ، بلکہ یہ عینک آپ کو لکھاری ثابت کرنے میں مدد گار ہوگی ۔ دوسرا کام یہ ہے کہ اپنے گھر سے تمام ہیئر برش اٹھا کر باہر پھینک دیں ۔ کیونکہ لکھاری کبھی بال نہیں بنات ، اس کے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ اپنے بالوں کو برش کر سکے۔ وہ تو سوچ میں ہر پل غرق رہتا ہے۔ یعنی قلم کار بننے کا اصول ہے کہ آپ کے بال بکھرے ہوئے ہوں۔ تیسری بات لکھنے پڑھنے سے تعلق رکھنے والے لوگ کبھی بھی آسان گفتگو نہیں کرتے ، اپنی گفتگو کو اتنا مشکل بنایں کہ سننے والے کو آپ کی بات سمجھنے کے لئے لغت کی ضرورت پڑے ۔ اگلی بات، اپنے آپ کو لکھاری ثابت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے ساتھ لکھنے والے افراد کی کبھی حوصلہ افزائی نہ کریں ۔ حوصلہ افزائی تو خیر کسی کی بھی نہیں کرنی چاہیے، لیکن اپنے ساتھ لکھنے والوں کی تو ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ لکھاری بننے کے لئے ضروری ہے کہ جب کوئی آپ سے پوچھے کہ آپ کی پسندیدہ کتاب کون سی ہے تو کسی ایسی مشکل ترین کتاب کا نام لیجئے جو سننے والے کی سمجھ میں ہی نہ آئے ۔ یہ حرکت آپ کی سوچ اور سمجھ کو برتری فراہم کرے گی۔ اگلے بندے پر آپ کا رعب پڑے گا کہ کس قدر دقیق کتابیں پڑھ رکھی ہیں ۔ ایک اور بات، لکھاری عام لوگوں جیسی باتیں نہیں کرتا۔ جیسے عام انسان کہے گا کہ غالب بہت بڑے شاعرہیں مگر آپ ایسا نہیں کہیں گے بلکہ آپ کہیں گے کہ غالب کا فلاں شعرتوبالکل بکواس ہے اور اس میں جو یہ لفظ استعمال ہوا یہ تو صریحاََ غلط ہے ۔ کوشش کرے کہ ایسی تحریر لکھیں جو آپ کے دور کے لوگوں کو سمجھ نہ آئے ، کیونکہ لکھاری کی یہ بھی پہچان ہے کہ اس کی کہی باتیں اور اس کی لکھی تحریریں اس کے اپنے دور کے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتیں، بلکہ جب اسے مرے ہوئے ایک صدی گزر جائے تو اس کی تحریریں ڈھونڈ ڈھونڈ کر اکھٹی کی جاتی ہیں اور تعریف کی مستحق بھی ٹھہرتی ہیں ۔ لکھاری بننے کے لئے ضروری ہے کہ آپ جو کہیں اس پر اڑ جائیں چاہے وہ بات ٹھیک ہو یا غلط، آپ ٹس سے مس نہ ہوں۔ اسی کو تو نظریات کا پکا ہونا کہتے ہیں۔ میرا خیال ہے اتنی معلومات کافی ہیں۔ اگر یہ سب پڑھنے کے بعد بھی آپ لکھاری بننا چاہتے ہیں تو بھئی جب کوئی خود پھانسی کا خواہش مند ہو تو ہم کیا کر سکتے ہیں ؟ فی امان اللہ (اس تحریر کا مقصد صرف تفنن و طبع ہے ورنہ لکھنے والوں کے ساتھ ہماری خاص عقیدت ہے )
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn