گذشتہ برس عام انتخابات میں شہبازشریف نے کراچی سے چونتیس ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے اور صرف چھ سو ووٹ کی کمی نے ان کو فتح سے محروم رکھا جبکہ اس حلقے میں تین ہزار ووٹ مسترد ہوئے۔ یہ کافی حیران کن نتیجہ تھا لیکن زمینی حقائق جاننے کی کوشش میں علم ہوا کہ ن لیگ آخری بلدیاتی انتخابات میں کراچی غربی کی نو یونین کونسلوں میں فتحیاب رہی تھی۔
دو ماہ قبل کراچی کے دورے میں یہ بات کافی قریب سے دیکھی کہ پُرامن ہوتا ہوا کراچی اس وقت ترقی اور کاروبار کے مواقع میں اضافے کی اڑان بھرنے کو بےقرار ہے لیکن ناگفتہ بہ شہری سہولیات نے اسے پرواز سے روک رکھا ہے۔ اس صورتحال کی ذمہ دار تین بڑی جماعتیں ہیں یعنی پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور تحریک انصاف۔ مقتدر صوبائی حکومت عملاً کراچی سے ایک مفتوحہ نوآبادیاتی علاقے جیسا سلوک کرتی ہے، ایم کیو ایم صوبائی اور وفاقی ہر دو حکومتوں کو شہرِ قائد میں ناکام دیکھنا چاہتی ہے تاکہ عوامی حمایت اس کی جانب پلٹ آئے اور تحریک انصاف صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں کی مکمل ناکامی کا انتظار کر رہی ہے کہ اپنا گورنر راج کا خواب پورا کر سکے۔ ان تمام عوامل کے ساتھ شہری سہولیات کی عدم دستیابی نے کراچی کو ایک ابلتا ہوا آتش فشاں بنا دیا ہے۔
کراچی کو ایک شہبازشریف چاہئے، ن لیگ سے سیاسی نظریاتی اختلاف رکھنے کے باعث میرے لیے یہ الفاظ سننا کافی تکلیف دہ اور حیران کن تھا۔ کراچی والوں کی اس خواہش کا سبب جاننا چاہا تو بہت سے دیکھے بھالے مناظر سامنے آ گئے۔
کراچی میں میرا قیام ملیر کے علاقے میں ہوتا ہے جہاں بہت سے علاقے سندھی بلوچ اکثریت کے بھی ہیں۔ ایک سڑک کا سیوریج میں پچھلے آٹھ سال سے خراب دیکھ رہا ہوں جبکہ ملیر 15 سے جناح سکوائر کی طرف جانیوالی سڑک بلوچ علاقے میں خراب سیوریج نے بالکل ناپید کر دی ہے۔ جناح سکوائر جانے والوں کو مختلف لمبے راستے رفت و آمد کے لئے اختیار کرنے پڑتے ہیں۔ اسی طرح ائرپورٹ سے ملیر 15 تک شاہراہ فیصل پر صوبائی حکومت کو دو فلائی اوور بنانے میں جتنا وقت لگا، لاہور میں پورا میٹرو پراجیکٹ مکمل ہو گیا جبکہ کراچی میں حکومت کو کشادگی کے باعث زمین حاصل کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں پورے شہر میں بکھری پڑی ہیں جبکہ ریسکیو 1122 جیسی بنیادی ایمرجنسی سہولت کی ضرورت کراچی کو یقیناً لاہور اور پشاور سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ میٹرو بس جیسا ماس ٹرانزٹ منصوبہ کراچی کے شہریوں کی اس وقت شدید خواہش ہے۔
ان تمام عوامل کی موجودگی میں اگر آپ کراچی جائیں اور آپ کو شہبازشریف کی تعریف سننی پڑے تو حیران مت ہوں۔ پُر امن ہوا کراچی اُبل رہا ہے جس کا احساس و ادراک مقتدر سیاسی جماعتوں کو فی الحال بالکل نہیں۔
مصلوب واسطی انجینئرنگ کے شعبہ سے وابستہ ہیں، بحیثیت بلاگر معاشرتی ناہمواریوں اور رویوں کے ناقد ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn