بالآخر بھارتی حکومت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک ناپسندیدہ انتظامی فیصلے کے ذریعے ریاست جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا ہے۔لداخ کو مقامی پارلیمنٹ کے بغیر ایک الگ یونین جبکہ جموں اور وادی کشمیر کو مقامی پارلیمنٹ کے ساتھ ایک الگ یونین بنا دیا ہے۔ بھارتی حکومت نے ریاست جموں اور کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دستوری شق 370 کو فوری طور پر معطل کردیا اور پارلیمنٹ میں دستوری ترمیم لانے کا اعلان کیا ہے۔ بھارتی دستور کے آرٹیکل 370 کی معطلی یا بعد ازاں خاتمے کے ساتھ ہی بھارتی دستور کی الحاقی شق 35 اے بھی معطل یا ختم تصور کی جائے گی۔
ریاست جموں اور کشمیر کی خصوصی دستوری حیثیت کی وجہ سے کوئی بھارتی شہری ریاست جموں اور کشمیر میں جائیداد کی خرید و فروخت نہیں کرسکتا تھا، کوئی بھارتی شہری ریاستی عہدوں پر فائز نہیں ہوسکتا تھا، بھارتی پارلیمنٹ کا کوئی قانون ریاستی پارلیمنٹ کی توثیق کے بغیر ریاست پر لاگو نہیں ہوسکتا تھا، اسی طرح ریاست کا علیحدہ جھنڈا اور شناخت تھی۔ اس انتظامی فیصلے سے ریاست کی یہ خصوصی حیثیت ختم ہو جائے گی اور ریاست کی بنائی جانے والی دونوں یونینز براہ راست بھارتی صدر کے زیر انتظام ہوں گی اور بھارتی پارلیمنٹ کے یونین سبجیکٹ کے تمام قوانین ان دونوں یونیز پر بھی لاگو ہوں گے۔
ریاست جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے سے جہاں ریاستی عوام کے خصوصی حقوق ختم ہو جائیں گے وہیں بھارتی عوام کو بھی ریاست جموں اور کشمیر میں وہ تمام حقوق حاصل ہو جائیں گے جو انہیں بھارت میں حاصل ہیں یعنی بھارتی شہری اب ریاست جموں اور کشمیر میں جائیداد کی خرید و فروخت اور یونین کے عہدوں پر فائز ہوسکیں گے جس سے جموں اور کشمیر کی ڈیموگرافی بہت تیزی سے تبدیل کئے جانے کا خدشہ ہے۔
بین الاقوامی قوانین کی رو سےکشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے غیر الزامی حیثیت میں ہونے کی وجہ سے بھارت نے ایسا کرکے کسی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی لیکن اقوام متحدہ کی جانب سے ڈیکلیئرڈ متنازعہ خطے کی قانونی حیثیت تبدیل کرکے اخلاقی طور پر ایک ناپسندیدہ اقدام انجام دیا ہے۔
کشمیری حریت قیادت اور پاکستانی حکومت بھارت کے اس غیر اخلاقی اقدام کو کس حد تک بھارت کے خلاف استعمال کرسکے گی اور بھارت پر عالمی دباؤ بڑھا سکے گی اس کا اندازہ تو آنے والے وقت میں ہی ہوگا لیکن ایک بات واضح ہے کہ بھارت کشمیری مسلمانوں کے حق خودارادیت کو دبانے کے لیے بین الاقوامی قوانین اور اخلاق سمیت ہر عقلی و قانونی قاعدے کی خلاف ورزی کرسکتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn