مولانا کمال کے آدمی تھے۔ ستر برس کے پیٹے میں بھی ان کے ضخیم بدن کا ہر ایک رونگٹا، ان کی مطمئن صحت کی چغلی کھاتا تھا۔
ملیح چہرے پر سرخی مائل سپیدی۔ نیم گلابی ہونٹوں کی اوٹ سے جھانکتے سفید موتیا کے سے دانت۔ بال، بڑھتی عمر کے باعث اطراف سے جھڑ ضرور گئے تھے مگر چونکہ مولانا ہر وقت اپنے سر کو دستار بند رکھتے تھے تو کسی کو ان کے کم ہوتے بالوں کی بھنک نہ ہو پاتی تھی۔
محبت میں گندھے ہوئے۔ ہونٹوں پر تبسم لئے ہوئے۔ ان کے بیانات سننے کے لئے لاکھوں کا جم غفیر جمع ہوجایا کرتا تھا۔ مولانا خواہ کسی مدرسے کا قصدکرتے یا کسی جدید تعلیمی ادارے میں قدم رنجا فرماتے۔ ان کی آمد کا سن کر کیا طالب علم، کیا اساتذہ، سب ہی جوق در جوق پہنچ جاتے اور فرط عقیدت میں رندھی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ان کے جذباتی خطبات سنا کرتے۔ مولانا غضب کے موسم اور مزاج شناس تھے۔ وہ جس محفل میں جاتے۔ اس محفل کی مناسبت سے بات کرنے میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔
آج وہ اپنی دینی ذمہ داریوں سے وقت نکال کر حاکم وقت سے ملنے ان کے محل میں آئے تھے۔
سلام دعا و معانقے کے بعد حاکم وقت کے پہلو میں براجمان ہوئے تو حاکم نے کہا، اچھی حکمرانی کے باب میں چند نصیحتیں فرمادیجئے۔
مولانا نے انہیں بھرائی ہوئی آوا ز میں سیدنا حضرت عمر فارقؓ کی طرز حکمرانی کے چند واقعا ت سنائے۔ حاکم وقت پر جنہیں سن کر لرزہ طاری ہوگیا۔
نصیحتوں کا دور چلا پھر طعام لگ گیا۔ مولانا بعد از طعام خاص، رخصت ہونے لگے تو حاکم وقت نے کہا کہ، میرے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور بتایئے گا، کے جواب میں انہوں نے جیب سے ایک نقرئی کاغذ نکالا جس پر جلی حروف میں ایک صاحب کا نام، عہدہ اور ان کا محکمہ درج تھا۔
یہ ہمارے ایک عزیز دوست کمال فاروقی صاحب کے فرزند ارجمند ہیں۔ خاندانی نجیب الطریفین ہیں۔ فاروقی صاحب کو تو زندہ ولی ہی سمجھئے اور ان کے صاحبزادے بھی تقویٰ اور پرہیز گاری میں اپنے والد گرامی کے نقش قدم پر ہیں۔ مولانا کاغذ حاکم وقت کے ہاتھوں تھماتے ہوئے گویا ہوئے۔
حاکم وقت نے عقیدت سے چٹ کو تھاما۔آپ حکم کیجئے مولانا صاحب حکم تو فقط میرے اللہ جل شانہہ کا ہے جو سارے جہانوں کا مالک اور ہم سب کا پالنے والا ہے۔ مولانا رقت آمیز انداز میں بولے یہ برخوردار، ایک جھوٹے کیس میں دس ماہ سے محکمانہ انکوائری بھگت رہے ہیں۔
ممکن ہو تو ان کی انکوائری ختم کرواکر ان کا تبادلہ بہاولپور شہر میں کردیجئے۔
حاکم وقت نے کاغذ اپنے پیچھے کھڑے سرکاری خادم کو پکڑایا۔
یہ قاسم صاحب کو دیجئے اور ان سے کہیں ابھی کے ابھی ان کی محکمانہ انکوائری ختم کرواکر انہیں بہاولپور تبادلہ کیجئے۔
پھر پلٹ کر مولانا کو دیکھا جو اس وقت زیرلب کوئی مقدس الفاظ بدبداتے ہوئے تسبیح کو گھما رہے تھے۔
مولانا صاحب، انشااللہ شام تک آپ کا کام ہوجائے گا۔ حاکم وقت نے مطلع کیابالکل بالکل انشااللہ یعنی اللہ نے اگر چاہا۔
اگر اس ذات بابرکت کی مرضی ہوئی تو ضرور ہوگا۔
میں تو سفار شی ہوں اور آپ وسیلہ ہیں۔ بے شک ہوتا وہی ہے جو وہ چاہتا ہے۔مولانا نے دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔
مولانا پرتپاک انداز میں حاکم وقت سے گلے ملے اور رخصت ہوئے۔ مختلف رنگین لابیوں سے گزرتے ہوئے پرشکوہ عمارت سے باہر آئے اور اپنی سیاہ رنگی چمچماتی ہوئی لینڈ کروزر میں جا بیٹھے جو عین مرکزی دروازے کے سامنے کھڑی تھی۔
لینڈ کروزر کا انجن کھنگارا اورگاڑی حاکم وقت کے وسیع و عریض لان کے ساتھ بنی ہوئی خوبصورت سڑک پر تیرتی ہوئی باہر مرکزی شاہراہ پر گم ہوگئی۔چند لمحات کے توقف کے بعد ویگو گاڑیوں کا چھے نفری قافلہ جو مسلح گارڈ سے پر تھا۔ وہ بھی ان کی گاڑ ی کی دھول کے تعاقب میں روانہ ہوگیا۔
قاسمی کو فون کرکے بتادو کہ اس کی انکوائری ختم ہوگئی ہے اور شام تک اس کا تبادلہ بھی بہاولپور ہوجائے گا۔ مولانا جو لینڈ کروزر کی عقبی سیٹ پر قریب قریب محو استراحت تھے۔ فرنٹ سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے اپنے مصاحب خاص سے گویا ہوئے۔
اور اسے تاکید کردو کہ وہاں جاکر چارج سنبھالتے ساتھ ہی اجمل صاحب کی کمپنی کے تمام تر بقایا جات فوری طور پر کلئیر کروائے۔ اس بار مولانا کی آواز عام انسانوں جیسی تھی۔ وہ حلق سے امڈتا بھاری پن، عنقا تھا۔
“جی بہت بہتر مولانا۔میں ابھی اسے فون کرکے آپ کا حکم پہنچا دیتا ہوں”۔ مصاحب خاص نے موبائل ہاتھ میں لیتے ہوئے جواب دیا۔
گاڑی دوسگنل گھومنے کے بعد جیسے ہی شہری آبادی کی مرکزی سڑک کی جانب گھومی۔ آگے ٹریفک جام تھا۔ مولانا کی لینڈ کروزر اوران کے عقب میں بل کھاتیں ویگو گاڑیاں بھی رک گئیں۔
یہاں کیا مصیبت آگئی۔ مولانا کی آواز میں بے زاری تھی
میں جاکر دیکھتا ہوں مولانا۔
یہ کہہ کر مصاحب خاص، مستعدی سے گاڑی کا دروازہ کھول کر گاڑیوں کے درمیان سے گزرتا ہوا نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
مولانا نے اپنے ہاتھ میں بندھی قیمتی گھڑی میں وقت دیکھا پھر بیش قیمتی موبائل اپنی سیاہ رنگ کی واسکٹ سے نکالا اور اسے روشن کرکے اس میں کھوگئے۔وہ اس وقت چونکے جب مصاحب خاص واپس آیا۔
رکشہ یونین والوں کا احتجاج ہورہا ہے مولانا۔
” حکومت نے گیس کے سلنڈر کی قیمتوں میں دوگنا اضافہ کردیا ہے اور ساتھ ہی رکشہ والوں کے چالان بھی چار گنا بڑھادیئے ہیں۔
ایک رکشہ والے نے ٹریفک پولیس والے کی جانب سے پانچ ہزار کا چالان ہونے پر رکشہ کو اور خود کو ٹریفک پولیس والے کے سامنے آگ لگادی اور جھلس کر مرگیا۔ اب ساری رکشہ یونین یہاں سراپا احتجاج ہے۔
مولانا کا پارہ چڑھ گیا۔ ایک تو ان غریب لوگوں کی سمجھ نہیں آتی۔ حکومت اگر محاصل نہیں لگائے گی تو کیسے چلے گی؟ اور یہ کون سا طریقہ ہے سڑکوں پر ٹریفک روک کر احتجاج کرنے کا۔
کسی نے سکول جانا ہے ، کسی کو گھر جانا ہوگا، کوئی مصیبت کا مارا ہسپتال جارہا ہوگا۔
مصاحب خاص نے مولانا کو غصے میں دیکھا تو سر مودب انداز میں نیچے جھکا لیا اور گاڑی کے ڈیش بورڈ پر نظریں گاڑدیں۔
اب یہ جاہل لوگ اگر سڑکیں گھیرنے کے بجائے اللہ کے حضور اپنے گناہوں پر استغفار کریں۔ اپنے رب کو صبح شام پانچ وقت ہی یاد کرلیا کریں تو ان پر نااہل حکمرانوں کی شکل میں عذاب نازل نہ ہو۔ مولانا بدستور ٹریفک جام پر برہم تھے۔
ابھی مولانا کا پرجوش خطاب مزید جاری رہتا مگر ٹریفک جام ہلکا ہوگیا اور گاڑیاں سست روی سے رواں ہوگئیں۔
رات بھر مولانا کی ایک ویڈیو جس میں وہ حاکم وقت اور ان کے اہل خانہ کے گن گاتے ہوئے عوام کو نیک حکام کی اطاعت کا مقدس روایات کے حوالوں سے درس دے رہے تھے ، تمام قومی نیوز چینلز نے جلی انداز میں بار بار چلائی۔
سوشل میڈیا پر بھی ہر جگہ مولانا کے بیان کا چرچا تھا۔
تاہم رکشہ ڈرائیور کی خود سوزی کی خبر اگلے دن کے ایک مقامی اخبار میں صفحہ تین پر دوکالمی سرخی ہی جما پائی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn