کچھ روز پہلے ایک ٹی وی ٹاک شو کے دوران حافظ حمداللہ کی ماروی سرمد صاحبہ کے ساتھ نازیبا طرزِ گفتگو اور ہتک آمیز رویئے نے میرے ذہن میں ایک سال پہلے برطانیہ میں ہونے والے ایک واقعے کی یاد تازہ کردی۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ مشہور نوبل انعام یافتہ برطانوی سائنسدان سر ِٹم ہنٹ نے پچھلے سال شمالی کوریا میں منعقدہ ایک سائنس کانفرس کے دوران، خواتین سائنسدانوں اور ریسرچرز کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا، ان کے ساتھ کام کرنے سے ایک مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ آپ کو ان سے پیار ہو جاتا ہے یا وہ آپ کے پیار میں مبتلا ہو جاتیں ہیں۔ اور جب آپ ان کے کام پر تنقید کرتے ہیں تو وہ رونے لگ جاتی ہیں۔ اس لیئے سائنس کی بھلائی کے لیے مردوں اور عورتوں کے لیے علیحدہ لیباریٹریز ہونی چاہیئے۔
ان خیالات کا اظہار ٹم ہنٹ کو بہت مہنگا پڑا۔ سائنس، جرنلسٹس، حقوقِ نسواں کے علمبرداروں اور خواتین سائنسدانوں اور ریسرچرز حتیٰ کہ ان کے قریبی دوستوں نے، جن کے ساتھ ٹم ہنٹ نے اکٹھے کئی دہائیوں تک تحقیقی کام کیے تھے، ٹم ہنٹ کو خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ اور اسے اس قدر تنقید کا نشانہ بنایا کہ اسے اپنے یونیورسٹی کالج لندن کے اعزازی عہدے اور روئل سوسائٹی کی ایوارڈ کمیٹی سے مستعفی ہونا پڑا۔ اگرچہ بی بی سی کے ساتھ کیے گئے اپنے انٹرویو میں انہوں نے اپنی کہی ہوئی بات پر معافی مانگتے ہوئے یہ واضح کیا تھا کہ انہوں نے یہ بات مزاح میں کی تھی مگر اس کے باوجود انہیں اس بے جا مزاح کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑی۔
یہ تھی ایک زندہ اور مہذب معاشرے کی مثال۔ جہاں عورتوں کو برابر کے حقوق صرف کتابوں میں نہیں بلکہ عملی طور پر حاصل ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ماروی سرمد کے ساتھ تذلیل آمیز رویہ روا رکھنے کی پاداش میں حافظ حمداللہ پر ہمارے سوشل ایکٹیویسٹس، صحافی حضرات اور عام عوام مستعفی ہونے یا کم از کم معافی مانگنے کے لیئے کتنا دباؤ ڈالتے ہیں۔
نجانے مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ ایک ایسا معاشرہ جہاں ایک ہفتے کی قلیل سی مدت میں تین چار عورتوں کے زندہ جلا دینے پر کسی کے کان تک جوں بھی نہ رینگی ہو وہاں ایک عورت کی ایک مذہبی سکالر کے ہاتھوں صرف زبانی کلامی تذلیل اتنی بڑی بات نہیں جس کو جواز بنا کر اس مذہبی سکالر کو اپنے کیے کی معافی مانگنے پر مجبور کیا جا سکے۔ جس معاشرے میں، بقول حافظ حمداللہ کے، صرف اپنی ماں، بہن کی عزت کی جاتی ہوں وہاں کسی دوسری عورت کی بے عزتی پر کسی کی غیرت جوش نہیں مارتی۔
حیف صد حیف کہ حافظ حمداللہ جیسے لوگ جو عورتوں کو ذرا سی چادر سر سے سرکنے پر سخت سرزنش کرتے ہیں اور بات بات میں انہیں جہنم کا ایندھن بننے کے مژدے سناتے رہتے ہیں وہ شخص ساری عوام کے سامنے، روزے کی حالت میں کسی عورت کو طوائف بلاتا ہے اور اسے شلوار اتارنے کی دھمکی دیتا ہے اور کچھ لوگ اس کی اس بیہودہ بات کو حق پر ثابت کرنے کے لیئے جواز ڈھونڈتے ہیں اور اس نازیبا حرکت کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ اور تو اور کئی لوگ تو الٹا اس عورت کی کردار کشی کرنے پر اتر آتے ہیں۔
بعض لوگ ایسے موقعوں پر چپ سادھ لیتے ہیں۔ یا پھر فتوؤں کے ڈر سے غیر جانبدارانہ موقف اختیار کرکے پتلی گلی سے صاف نکل جاتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی حافظ حمداللہ جتنے ہی قصوروار ہوتے ہیں۔اب ایک ایسے بے حس، مردہ اور سڑے ہوئے معاشرے میں حافظ حمداللہ جیسی شخصیت سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنی غلطی کی معافی مانگتے ہوئے مستعفی ہو جائے ایک مضحکہ خیز بات معلوم ہوتی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn