دو دن قبل مجھے اطلاع دی گئی کہ قاری صاحب جنرل ہسپتال میں داخل ہیں، میں نے سوچا ٗ فرصت کے اوقات میں چکر لگاؤں گا … لیکن … بس ہماری اتنی ہی اوقات ہے …کہ فرصت نہ ملی …اور ان کی رحلت کی اطلاع مل گئی۔ ہماری مصروفیت ٗہماری فرصت کھا گئی۔ ہم بیمار پرسی پر نہیں جاتے ، تعزیت پر چلے آتے ہیں۔ قاری صاحب ہم سب بہن بھائیوں کے استاد تھے،الم سے والناس تک سب نے قران مجید قاری صاحب سے پڑھا تھا۔ سچ پوچھیں تو مجھے قاری صاحب کی قدر و منزلت کا احساس اس وقت ہوا جب میں نے مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ سے یہ سبق لیا کہ اپنے پرائمری کے استاد کی اتنی قدر کیا کرو جتنی قدر آپ اپنے پی ایچ ڈی استاد کی کرتے ہو۔ مجھ سمیت قاری صاحب کے اکثر شاگردوں نے اپنے رب کی دیگر نعمتوں کی طرح جو مفت میں میسر آ جاتی ہیں ٗانہیں Taken for grated لے رکھا تھا۔ ہم سمجھتے تھے جس طرح ہماری مجبوری پڑھنا ہے ، شاید ان کی مجبوری پڑھانا ہے… لیکن یہ عقدہ بہت دیر کے بعد کھلا کہ قرآن پڑھانا ان کی معاشی مجبوری ہرگز نہ تھی۔ وہ اگر چاہتے تو اپنے باقی خاندان کے لوگوں کی طرح کاروبار میں یا پھر سرکاری ملازمت میں کہیں فٹ اور بقول شخصے سیٹ ہو جاتے۔ وہ اَن پڑھ نہ تھے، میرا کالم شوق سے پڑھتے اور کبھی کبھی فون کر کے مجھے داد و تحسین سے بھی نوازتے۔ وہ ایک نفیس ذوق اور نستعلیق زندگی کے مالک تھے۔ ان کی سفید پوش زندگی میں کسی مالی طلب یا جلب کا داغ نہ تھا۔ دو نسلوں کو قرآن پڑھانے والے کی ساری زندگی ایک کمرے کے کوارٹر میں بسر ہوئی۔ ہمارے قاری صاحب کی ہمت کی داد دیجئے کہ انتہائی نامساعد معاشی حالات کے باوجود انہوں نے اپنی چاروں بیٹیوں کو خوب سے خوب تعلیم دلوائی، بڑی بیٹی پنجاب یونیورسٹی سے (کسی سائینس سبجیکٹ میں) پی ایچ ڈی ہے، ایک ماسٹر ڈگری ہولڈر ہے ، ایک گریجویٹ ہے ، سب سے چھوٹی بیٹی انٹر میں زیرِ تعلیم ہے۔ اولادِ نرینہ نہ تھی لیکن ہزاروں طلبا کے معنوی باپ تھے۔
میرے استاد قاری سید عبداللہ شاہ نجیب الطرفین سادات میں سے تھے۔ جنازے پر اسلام آباد سے آئے ہوئے ان کے بڑے بھائی رحمان شاہ صاحب سے بات ہوئی، ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں، وہ بتا رہے تھے کہ ان کے ددھیال ہمدانی تھے اور ننھیال بخاری۔ قاری صاحب نے بالا کوٹ کے ایک نواحی گاؤں کانشیاں سے یہاں لاہور کے اس دور افتادہ علاقے میں 1972ء میں ہجرت کی۔ ہجرت اور نقلِ مکانی میں فرق ہے۔ قاری صاحب نے ہجرت کی تھی ٗ نقلِ مکانی نہیں۔ وہ پیروں کی اولاد تھے ، ان کے دادا گاؤں میں پیر تھے، میں سوچ رہا تھا ٗ اگر ہمارے قاری صاحب بھی چاہتے تو خاندانی گدی سنبھال سکتے تھے، لیکن انہوں نے خود کواِس علاقے میں قرآن کی تعلیم کیلئے وقف کر دیا تھا۔ وہ نصف صدی تک ہم ایسے ناشناس لوگوں میں رہے، اور وادی ملامت ے گزرتے رہے۔ وہ جس عزت و تکریم کے لائق تھے ٗ اس سے بہت کم پر راضی رہے، یہ بھی ایک درجۂ ملامت ہے۔ ان کے بیشتر شاگرد اِس سید زادے کی عظمت سے مطلق بے خبر تھے۔ قاری صاحب زیادہ گفتگو نہیں کیا کرتے تھے، اس لیے ہمیں ان کے فقہی مسلک سے زیادہ آگاہی نہ تھی، ہمیں بالکل خبر نہ تھی کہ قاری صاحب کس فرقے یا مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ اوائل میں ایک مدرسے میں معلم رہے ، کچھ ہی عرصہ بعد دیکھا کہ روایتی مولویوں کے ساتھ نہیں چل سکتے تو اپنے گھر میں بچوں کو ناظرہ اور حفظ کی تعلیم دینا شروع کردی۔ مجھے یاد ہے ٗاُن کے شاگردان کی فوج ظفر موج نے انہیں بہت ترغیب دی کہ اس مدرسے کے مقابلے میں وہ ایک مدرسہ کھول لیں، اہلِ محلہ ان کے ساتھ تھے، لیکن وہ اہلِ مدرسہ میں سے تھے ٗنہ اہلِ محلہ میں سے!! ایک شاگرد نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا‘ قاری صاحب !آپ فکر نہ کریں‘ آپ کا مدرسہ اِ س مدرسے سے بڑا ہو جائے گا۔ کہنے لگے‘ میرا ایسا کوئی پروگرام نہیں، میں خود کو صرف قرآن حفظ اور ناظرہ تک محدود رکھوں گا۔ یہ خود کو محدود رکھنا دراصل خود کو محفوظ رکھنا ہے، یہ قربانی کی داستان ہوتی ہے۔ اپنا چیک کیش نہ کروانا ٗراہِ حق کے مسافروں کی شان ہوتی ہے۔ میرے قاری صاحب… اگر ایک باصلاحیت شاگرد استاد کا فخر ہوتا ہے تو ایک باکردار استاد اپنے شاگردوں کا فخر ہوتا ہے …دیکھو! میں آج کتنے فخر سے کہہ رہا ہوں‘ میرے قاری صاحب …اور یہ تحریر قلم بند کرتے ہوئے میری آنکھیں ڈبڈبا رہی ہیں… دراز قد اور سرخ و سفید چہرے کے ایک وجیہ صورت نوجوان تھے، جب ہم بچے تھے تو وہ عنفوانِ شباب میں تھے، ابھی اُن کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ بچپن میں ہماری امی ہمیں بتایا کرتی ٗ بچو! چائے زیادہ نہیں پیتے، رنگ کالا ہو جاتا ہے، ہم حیران ہوتے کہ قاری صاحب تو بہت چائے پیتے ہیں، لیکن اُن کا رنگ گورا ہے۔ قاری صاحب بہت مہمان نواز تھے، جب بھی کوئی شاگرد ملنے جاتا ، قربیی ہوٹل پر فوراً ہاف سیٹ چائے کا آرڈر ہو جاتا۔ جب میری کالج لائف شروع ہوئی اور میرے دوستوں کی فہرست میں سادات کا اضافہ ہوا تو مجھ پر یہ کھلا کہ سخاوت اور مہمان نوازی سادات گھرانے کی خاص پہچان ہے۔ قاری صاحب انتہائی خود دار آدمی تھے، کبھی ہوم ٹیوشن نہیں پڑھائی، حالانکہ ہوم ٹیوشن اکثر قاری صاحبان کیلئے معاشی اور معاشرتی ترقی کی ایک سیڑھی ہوتی ہے۔ قاری صاحب کے شاگردوں کی فہرست میں ڈاکٹر، ججز اور پروفیسرز تک شامل تھے، لیکن انہوں نے کسی شاگرد کے سامنے کبھی اپنی خود داری کو جھکنے نہیں دیا۔ سچ پوچھیں تو میںا کثر حیران ہوتا کہ قاری صاحب کا گزارہ کیسے ہوتا ہے۔ اللہ ہمیں معاف کرے ، مجھ سمیت سب شاگرد صرف حیران ہی ہوتے رہے ، کبھی ان کیلئے پریشان نہیں ہوئے…تھوڑا سا پریشان بھی ہو جاتے تو ان کی کئی پریشانیاں دور ہو جاتیں۔ معاشی پریشانی دور کرنا تو دنیا کا سب سے آسان کام ہوتا ہے۔ کام آنا ، ساتھ چلنا ، ساتھ لے کر چلنا مشکل ہوتا ہے، چیک کاٹنا سب سے آسان کام ہے، ہم آسان کام کرتے ہوئے کتنی مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔ قدرتِ کاملہ نے سادات کی تکریم کا خیال اس طرح بھی رکھا ہے کہ سادات گھرانوں کو مال کی میل یعنی زکٰوۃ اور صدقات سے حکماً دُور رکھا۔ سادات کی خدمت کیلئے خمس کے تصور کو عام کرنے کی بجائے ہم نے اسے صرف ایک فرقے تک محدود کردیا ہے۔ ہم یہ حدیث سنتے اور سناتے رہتے ہیں کہ حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے، جہاں سے بھی ملے‘ وہ اسے لے لیتا ہے۔ اس حدیث اور حکمت کا اطلاق ہم دوسرے مکاتبِ فکر اور فقہ پر کیوں نہیں کرتے۔ اکثر لوگ خمس کے تصور سے آگاہ نہیں ۔آگاہی کی غرض سے عرض ہے کہ خمس زکٰوۃ کا متبادل نہیں ہوتا ٗبلکہ اس سے مراد اپنے اس مال کا پانچواں حصہ مستحق سادات کو بطورہدیہ پیش کرنا ہے ٗ جو مال ہمیں بغیر محنت کے کسی خزینے ، دفینے یا ورثے کی صورت میں میسر آتا ہے۔
قاری صاحب کے ایک خدمت گزار شاگرد پروفیسرآف اینستھیزیا ڈاکٹر مقصود بتا رہے تھے کہ مسلسل بیٹھنے کی وجہ سے ان کے گردن کے مہروں میں خم اور خلل واقع ہو چکا تھا۔ سینتالیس برس جائے نماز پر مسلسل بیٹھنے کا نتیجہ تھا کہ گردن کمر سمیت دہری ہو گئی۔ گھر سے آپریشن کیلئے ہسپتال گئے تھے کہ جان سے چلے گئے۔ میں اس گمنام سپاہی کو شہیدِ وفا لکھوں یا کشتۂ جفا۔ قاری صاحب ایسے گمنام مجاہد ‘ دین کا اثاثہ ہیں۔ ایسے بے لوث سپاہی دین کی صفوں میں شامل نہ ہوں تو دُور افتادہ بستیوں میں اشاعت ِ دین کیسے ممکن ہو۔ قاری
صاحب نے ساری عمر کسی کو تکلیف نہ دی، وصال کے بعد بھی اپنے شاگردوں کو زیادہ تکلیف نہیں دی۔ رمضان میں روزے کے ساتھ آئے ہوئے شاگردوں کو دھوپ میں چلنے کی زحمت نہیں ہوئی۔ گھر سے چند قدم کے فاصلے پر جناز گاہ تھی، جہاں شاگردوں کی دو نسلیں کئی صفیں باندھے کھڑی تھیں …نمازِ جنازہ سے قبل پیش امام ان کی قرآن دوستی اور درویشی کی بابت بیان کر رہے تھے، لوگ وضو کر رہے تھے اور ان کا یہ ناشناس شاگرد اپنی آنکھوں کا وضو تازہ کر رہا تھا۔ مدرسے کے ساتھ ہی اُن کا کوارٹر تھا اور کوارٹر کی دیوار کے ساتھ ہی چند ایک قبروں پر مشتمل ایک پرائیویٹ قبرستان تھا۔ یہ قبرستان ایک خاندان کیلئے مخصوص تھا، اس خاندان کی درخواست پر اس قطعہ زمین کو ایک سید زادے کے خاکی وجود نے عطر بیز کر دیا۔گویا ساری عمر جہاں بسر کی ٗ قیامت تک اب یہیں قیام رہے گا… دو گز کی زمین ملنے تک اُن کی تمام عمریہیں دو سو گز کے دائرے میں بسر ہو گئی۔ نصف صدی قبل قاری صاحب کی جاندار شخصیت نے اس علاقے کی قسمت بدلی تھی ٗ اب اُن کے بے جان وجود نے اِس بے آباد قبرستان کی قسمت بدل دی۔ اتنی دُور کا مسافر ہمارے اتنے قریب سے گزر گیا… ہمیں اس کی خبر تب ہوئی جب وہ ایک خبر بن چکا تھا۔ چند الفاظ کا یہ ہدیہ تحسین و سپاس اس شاگرد کے قلم پر قرض اور فرض تھا۔
سو اَدا ہوا…اس دعا کے ساتھ کہ بھولے ہوئے کو پرانا سبق یاد ہو جائے … حروفِ تہجی کا وہ سبق جو قاری سید عبداللہ شاہ ہمدانیؒ نے پڑھایا تھا ‘ ایک عبارت کی صورت اختیار کرلے اور اُن کے جد امجدؐ کے حضور شفاعت کا عنوان بن سکے… اُن کا پڑھائے ہوئے نورانی قاعدے کے حروفِ مقطعات کسی طور دل و نگاہ میں نور بن کر رچ بس جائیں۔ پہلی سے پہلے الف بے پے اتنی ہی اہم تھی‘ جتنی ایم اے کے بعد پی ایچ ڈی ہوتی ہے۔ نورانی قاعدے کی الف ب پ ابھی تک یاد نہیں ہو پائی، میٹرک تک پہنچنے میں کتنے عشرے درکار ہوں گے… رمضان کے عشروں سمیت!!
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn