آج 4 تاریخ ہے دروازے پر گھنٹی بجی عذرا دودھ کا برتن لے کر دروازے تک گئی حسبِ توقع دودھ والا ہی تھا ، دودھ برتن میں ڈالنے کے بعد اس نے پیسوں کا مطالبہ کیا . عذرا نے مصنوعی مسکراہٹ چہرے پہ سجائی ادا سے آوارہ لٹ کو کانوں کے پیچھے اڑسہ اور کہنے لگی "کیوں مرے جا رہے ہو اتنے سالوں سے ہمارے گھر دودھ دےکے جا رہے ہو تمہیں پیسے ملتے ہیں نا ، دیر سویر تو ہو ہی جاتی اپنوں پہ ایسی بھی کیا بے اعتباری”. اتنا کہ کر عذرا تو دودھ کا برتن لے کر اندر آ گئی لیکن شیدے دودھ والے کا دل ڈول ڈول گیا حالانکہ یہ بات شیدے کو بھی اچھی طرح معلوم تھی کے یہ ناز و ادا یہ لہجے کی مٹھاس صرف مہینے کی پہلی ان تاریخوں تک ہوتی تھیں جب تک عذرا کے شوہر کو تنخواہ نہیں ملتی تھی ، اسی لیے شیدہ بھی اس کیفیت سے محظوظ ہوتا کے چلو کچھ دن کی دل پشوری ہی سہی ورنہ اپنی حیثیت کو وہ بھی خوب پہچانتا تھا پیسے ادا کر دینے کے بعد عذرا کے تیور بھی بدل جاتے لہجہ بھی سخت ہو جاتا دودھ پتلا بھی لگنے لگتا دیر سے آنے کی شکایت بھی ہونے لگتی …. یہ تو تھا دودھ والے کا حال اس کے بعد سبزی والے کو بھی اسی طرح لبھایا جاتا ہے ، اس کے بعد کیبل والا ،محلے کا چوکیدار ، منے کا ٹیوشن ٹیچر ، حتیٰ کے محلے کا جمعدار بھی فیض یاب ہونے سے محروم نہیں رہت . اور یہی ہے ہمارے معاشرے کی بھیانک سچائی کے ہر دوسری عورت پرچون کی طوائف ہے ہاں طوائف ہی تو ہے کیوں کہ جس کا کوئی آسراسہارہ و کفالت نہ ہو اسے تو ہمارا معاشرہ پیشہ ور طوائف بنانے میں ایک منٹ نہیں لگاتا ، اور یوں وہ معاشرتی درندگی کا شکار ہو کر اس راستے پر چل نکلتی ہے جس میں دین دنیا آخرت جیسے موضوع کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ جو خود کو مکمل بیچ دے وہ تو سالم طوائف ہوئی ۔ لیکن پرچون کی طوائف تو عذرا کی طرح ہر دوسری عورت ہے جو خود کو سالم نہیں پرچون بیچتی ہیں، اداؤں کی صورت، مسکراہٹوں، نظاروں،اشاروں کی صورت، صرف عذرا نہیں ساتھ والی صائمہ بینک میں ترقی کر کے بڑے عہدے پر پہنچی تو انہی سودوں کے بیو پار سے، سامنے والی خالہ صفیہ جو بیوہ ہیں ادائیں نہ دکھائیں تو ڈاکخانے کا منشی انہیں مرحوم شوہر کی پینشن وقت پہ ادا نہیں کرتا۔ اور اس طرح یہ پرچون کی دکانداری جاری رہتی ہے اور یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی اگر وہ با عزت با کردار رہتی یا کہلاتی ہیں تو یہ محض ان کی خام خیالی ہے ورنہ پرچون سےتھوک کا تاجر بننے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سب کو ایسا کرنے پر مجبور ہماری معاشرتی نا ہمواریاں کرتی ہیں۔ عذرا کے شوہر کو اگر بروقت تنخواہ مل جائے، صائمہ جیسی لڑکیوں کو اگر ان کی قابلیت کو دیکھ کر ہی آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے ، صفیہ جیسی ضرورت مند خواتین کی مدد محض نیکی کی غرض سے کردی جائے. زکوٰة، عشر و صدقہ جیسے عوامل کو نیک نیتی سے فروغ دیا جائے تو بہت کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn