کتنے لوگ جانتے ہیں کہ برگد کا درخت جسے ہم پینڈو لوگ بوہڑ کا درخت کہتے ہیں۔ جب ایک خاص حد سے بڑا ہوجائے تو اس کی شاخوں کا ریشم جھک کر زمین میں مل جاتا ہے۔ جس سے درخت کا پھیلاؤ زیادہ ہوجاتا ہے اور دور سے وہ کسی حاملہ گائے کے پیٹ سے مشابہہ دکھائی دینے لگتا ہے۔ بوہڑ کے پتوں اور نرم شاخوں، دونوں سے دودھیا رنگت کا گاڑھا محلول نکلتا ہے۔جسے خالص اردو بولنے والے شیربرگد کہتے ہیں۔ یہ دودھ اگر جسم پر لگ جائے تو اس سے جو نشان پڑتے ہیں وہ سیاہ کالے ہوتے ہیں۔ اور اگر اس دودھ کو تھوڑی دیر ہوا میں رکھیں تو جم جاتا ہے اور ربڑ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔
طاہری کے گاؤں دوہالہ سیداں میں لگے اکلوتے بوہڑ کے درخت کے عقب میں بچوں کا پرائمری سکول واقع تھا۔ گاؤں والوں کے حساب سے تو سکول کے پیچھے بوہڑ کا درخت تھا مگر طاہری کی ابھرتی جوانی پر لازم تھا کہ گاؤں والوں کی ہر بات کا انکار کرے یا اس کا الٹا مطلب نکالے۔ دوہالہ سیداں گاوں کے پرائمری سکول کے عقب میں چھپے ہوئے بوہڑ کے اس بوڑھے درخت کے دن میں دو ہی مصرف تھے۔ ایک تو سکول کے بچے بچیاں آدھی چھٹی کے وقت یہاں آکر اس کی شاخوں کے ساتھ لٹک کر جھولتے تھے۔ دوسرا پاس کھیتوں میں کام کرتے ہوئے لوگ دوپہر کی روٹی بوہڑ کی چھاؤں تلے کھاتے تھے۔ رات کو بوہڑ کا یہ گھنا درخت گاوں کی الہڑجوانیوں بلکہ یوں کہیں ہمت رکھنے والی الہڑ جوانیوں کو ان کے ٹیڑھے میڑھے عاشقوں سے ملنے کی سبیل دیتا تھا۔ طاہری نے دکان والے چاچے طیفے کو بات کرتے سنا تھا کہ بوہڑ کے درخت کی ٹہنیوں او رپتوں سے جو دودھ رستا ہے اس سے بندہ مرد بن جاتا ہے۔ طاہری کو سمجھ نہیں آئی تھی جو بندہ ہے وہ تو پہلے سے مرد ہے، پھر اسے بوہڑ کے دودھ سے بنی دوائی کھانے کی کیا ضرورت ہے۔ ضرور چاچا طیفا عورتوں کو مرد بنانے کا کہہ رہا ہے۔ مگر یہ دو سال پرانی بات تھی تب تک بلو، طاہری کی زندگی میں نہیں آئی تھی۔ اب تو طاہری اچھے سے جانتا تھا کہ بوہڑ کا دودھ گاؤں میں کون کون سے بندے کو مرد بناکر رکھے ہوئے ہے۔
بلو، طاہری کی زندگی میں آنے سے پہلے گاؤں میں وارد ہوئی۔ یعنی وہ اس گاؤں میں پیدا نہیں ہوئی تھی بلکہ ایوبیہ کے ایک گاؤں سے جہیز میں آئی تھی۔ جہیز میں لڑکیوں دینے کا فیشن نہ تو گاؤں والوں کے مذہب میں تھا نہ ہی ایسا کوئی رواج بنا ہوا تھا۔ اصل میں گاؤں کے ایک ماٹھے زمیندار، یہاں ماٹھے زمیندار سے مراد وہ زمیندار ہے جس کے پاس صرف دوکلے زمین ملکیتی ہوتی ہے۔ شہر والوں کے لئے تو دوکلے زمین بہت ہوتی ہے مگر کھیتی باڑی کی دنیا میں دوکلے زمین والے کو ڈنگر سے تھوڑا اونچا درجہ ہی دیتے ہیں۔ خیر تو راجہ افتخار جسے گاؤں میں سب بنا عرفیت کے افتخارا کہتے تھے۔ کی بیوی مرگئی۔
دیہاتوں میں یہ مزے خوب ہوتے ہیں کہ ایک بیوی مرجائے تو برادری والے فرض کفایہ سمجھ کر پہلی کی مٹی سوکھنے سے پہلے دوسری بیوی اگلے کے گھر میں ڈال دیتے ہیں۔ اس کام میں وہ اتنی تندہی دکھاتے ہیں جیسے خدا نے انہیں زمین پر بھیجاہی اگلے بندے کا دوجا ویاہ کروانے کے لئے ہو۔ یاد رہے کہ یہ پھرتیاں اور تیزیاں صرف مردوں کے دوسرا ویاہ کروانے میں دکھائی جاتی ہے۔ کسی عورت کا خصم مرجائے تو اس کی دوسری جگہ شادی کروانے میں یہی برادری پرلے درجے کی سستی دکھاتی ہے اور اگر کسی نمانی کو طلاق ہوجائے تو سمجھیں وہ بیچاری تو جیتے جی مر گئی۔ خیر تو جب برادری والوں نے افتخارے کی بیوی کے دفن ہونے کے تیسرے روز اس کے قلوں کے چاول کھائے تو وہاں ہی یہ طے پاگیا کہ ایوبیہ میں ان کی جو دور کی بیوہ رشتہ دار رہتی ہے۔ اس کی کم سن بیٹی بلو کا ویاہ افتخارے سے کردیا جائے۔ اس موقعے پر چاولوں کی پلیٹ پر پڑی ہوئی مرغے کی دو ٹانگوں میں سے ایک کو بھنبھوڑتے ہوئے گاؤں کی اکلوتی کچی مسیت کے پکے مولوی منیرنے بھی لقمہ دیا کہ بیوہ عورت کی جوان بیٹی کا جلدی ویاہ کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے۔ مولوی منیر اچھے سے جانتا تھا کہ شریعت نے بیوہ عورت کی جلد از جلد شادی کرانے کا حکم دے رکھا ہے مگر چاولوں پر پڑی ہوئی مرغے کی دورانوں کا تقاضہ تھا کہ شریعت کو تھوڑا سا کھینچ کر افتخارے کی خانگی زندگی کے ساتھ ایڈجسٹ کردیا جائے۔ آخر کو شریعت بھی تو بندوں پر نازل ہوئی تھی۔ ککڑوں پر تو نہیں نا جن کی بوٹیاں وہ سارے کھاتے ہوئے نوچ رہے تھے۔ مولوی منیر نے سوچا۔
چند دنوں میں ہی بلو، افتخارے کی بلو بن کر گاؤں میں آگئی۔ بلو کے آتے ہی گاؤں میں رونق آگئی۔ بلو کے پیروں میں کھرک تھی۔ سارا دن وہ ایک گھر سے دوجے گھر اور دوجے سے تیجا گھر ٹاپتی پھرتی۔ افتخارے کو ادھیڑ عمری میں ا لہڑ لڑکی ٹکرائی تھی۔ پہلے پہل تو اس نے بلو کو قابو کرنے کی کوشش کی مگر جب راتوں کو بلو کی خواہشیں افتخارے کی جان اور جوکھم سے باہر ہوگئیں تو اس نے خود کو بوہڑ سے رستے دودھ کے سپرد کرکے بلو کو اس کی جوانی کی من مرضی پر چھوڑ دیا۔ بلو کے منہ کو خون لگ چکا تھا لیکن وہ خون بوڑھا، بدذائقہ اور باس مارتا تھا۔ نیا خون گاؤں میں تھا اور بہت وافر مقدار میں تھا مگر چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والوں کی آنکھیں اور ناسیں بہت بڑی بڑی تھیں۔ گاؤں والے وہ کچھ بھی دیکھ اور سونگھ لیتے تھے جو ہوا نہ ہو۔
خیر ساون کی ایک دوپہر کو جب بلو، افتخارے کو کھیتوں میں لسی روٹی دے کر واپس گھر آرہی تھی تو انے وا موسلا دھار بارش برسنے لگی۔ بلو کی ململ کی کرتی بھیگ گئی اور گھر تک پہنچتے پہنچتے جنہوں نے بلو کا وہ سب کچھ دیکھا جو رات کے اندھیرے میں افتخارے کو بھی ٹھیک سے دیکھنا نصیب نہ ہوا تھا۔ ان میں سے ایک طاہری بھی تھا۔ طاہری نیا نیا جوان ہوا تھا۔ اس نے اپنے بڑے بھائی کے صندوقچے میں ہاتھ مار کر ایک دن ایک پھٹا ہوا قائدہ دریافت کیا تھا۔قائدے پر کوک شاستر لکھا ہوا تھا۔ جس قسم کا مواد اسے اندرکے صفحات پر پڑھنے اور دیکھنے کو ملا تھا اس کے بعد وہ اس قائدے کو ہفتے میں ایک آدھ بار ضرور پڑھتا اور دیکھتا تھا جب بڑا بھائی شریف جو نام اورطبیعت دونوں سے شریف تھا۔ گھر سے باہر گیا ہوتا تھا۔ ساون کی بارش جو پورے گاؤں کے ساتھ ساتھ بلو کے ململی کرتے اور طاہری کے دل پر برسی، اس نے ہلچل مچادی۔ مگر یہ ہلچل بلو کے تن بدن تک اور طاہری کے دل میں رہی۔
بلو بھیگی بھیگی گھر پہنچی۔ دروازہ کھول کر اندر چلی گئی۔ کمرے میں جاکر اس نے پیٹی کھولی اور اس میں سے اپنا پیلے رنگ کا جس پر ہلکے سبز رنگ کے پھول بوٹے بنے ہوئے تھے۔ وہ نکالا۔ پہننے لگی تو دیکھا کہ اس کی شلوار میں ناڑہ نہیں ہے۔ بلو نے اپنی دوسری شلوار میں سے ناڑہ نکالا اور اسے ڈالنے لگی۔ اتنے میں دروازے پر کھٹ کھٹ ہوئی۔ لکڑی کا پرانا دروازہ زیادہ آواز دیتا تھا۔ بلو اکثر افتخارے کو چھیڑتے ہوئے کہتی تھی کہ یہ بوہا بھی تیرے جیسا ہے۔ شور زیادہ کرتا ہے اور کام…… اس کے بعد وہ کچھ نہ کہتی۔ دوپٹہ منہ میں دبا کر ہنسنے لگتی۔ افتخارا دوچار گالیاں دے کر اسے دھموکڑا جڑتا اور بے شرم گشتی کہہ کر اپنا حقہ تازہ کرنے لگتا یا پھر گھر سے باہر نکل کر چوہدریوں کے ڈیرے پر چلا جاتا جہاں گاؤں کا واحد اکلوتا ٹی وی شور مچاتا تھا۔ جس پر صرف مرداور وہ بچے جن کے ختنے ہوچکے ہوں۔ ڈرامے دیکھ سکتے تھے۔
کون ہے؟ بلو نے دروازے کے پاس جاکر پوچھا۔
میں ہوں۔ آگے سے طاہری کی پھنسی ہوئی آواز آئی۔
میں کیہڑا کنجر؟ نام بتا۔ بلو آواز سے اندازہ لگاچکی تھی کہ کوئی لڑکا ہے اسی لئے اس نے بھی گالی دینے میں دیر نہ لگائی۔
او جی میں۔ طاہری۔ خالہ صفیہ کا پتر۔
بول طاہری۔ کیا کام ہے۔ افتخارا تو گھر نہیں ہے۔
جی گھر میں کچھ کام کرنا ہے۔ ہماری ہتھوڑی نہیں مل رہی۔ آپ کے پاس ہے تو دے دیں۔ کام ختم کرکے واپس کردیتا ہوں۔
بلو نے چند لمحے سوچا پھر دروازہ کی کنڈی ہٹاکر اسے کھول دیا۔ طاہری نے اسے دیکھا اور پھر گردن سے نیچے دیکھتا ہی رہ گیا۔ اس کی نظروں کی گرمائش دیکھ کربلو کو احساس ہوا کہ وہ ابھی تک اسی ململ کی گیلی کرتی میں ہے جسے بارش نے رج کر گیلا کرچھوڑا ہے۔وہ بے اختیار پیچھے ہٹی اور کمرے میں چلی گئی۔ طاہری اندر آگیا۔ بلو نے کمرے کے دروازے پر لٹکا دوپٹہ جسم پر چنگی طرح لپیٹا۔ پھر کارنس پرچائے کے برتنوں کے پیچھے رکھی ہتھوڑی اٹھائی اورباہر آگئی۔
طاہری جو ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ بلو کو دیکھ کر اس کے چہرے کی رنگت میں سرخی گھلنے لگی۔ بلو خوب سمجھ رہی تھی کہ طاہری کے دل پر اس وقت کیا گزررہی ہے۔
یہ لے ہتھوڑی اور افتخارے کے آنے سے پہلے واپس کردینا۔
جی بہتر۔ طاہری نے یہ کہہ کر ہتھوڑی بلو کے ہاتھ سے لے لی۔ بلو کا ہاتھ طاہر ی کے ہاتھ سے ٹکرایا۔
طاہری کو ایسا لگا جیسے اس کے جسم کو چارسوچالیس ووٹ کا کرنٹ لگا ہو مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ ایسا ہی کرنٹ بلو کو بھی لگا ہے۔
بلو نے اب غور سے طاہر ی کو دیکھا۔ اٹھارہ سال کا نوجوان لڑکا جس کی مسیں ابھی ابھی بھیگی تھی۔ قد کاٹھ میں اس سے تین چار انچ بڑا اور چوڑا ہی ہوگا۔
طاہری مڑ چکا تھا جب بلو کے دل نے فیصلہ کیا۔ یہ دل ہی ہے جو بغاوت سکھاتا ہے، اکساتا ہے۔ بلو کے دل نے بھی لمحے بھر میں فیصلہ کرلیا۔ یہ ساون کی پہلی بارش اور بلو کے جسم میں دہکتی آگ کا مشترکہ فیصلہ تھا۔
سن؟ وہ طاہری کی پیٹھ کو دیکھتے ہوئے بولی جو واپس جانے کے لئے مڑچکا تھا۔
طاہری ٹرانس زدہ بندے کی طرح بلو کی آواز سن کر مڑا۔
ہتھوڑی کے ساتھ کچھ ہور بھی چاہئے؟۔
اورکیا؟ طاہری تھوک نگلتے ہوئے بولا
ہور مطلب۔ پیچ کس، پلاس، چھینی۔ پھر دوبارہ کا چکر نہ لگ جائے نا تجھے۔
جی چھینی ہے تو وہ بھی دے دیں۔
دیکھا نا۔ میں نہ کہتی تو تجھے خود خیال نہیں آنا تھا۔
میں چھینی ڈھونڈھتی ہوں۔ پتا نہیں افتخارے نے کہاں رکھی ہوگی۔
چل آ اندر۔ یہاں ویہڑے میں نہ کھڑا ہو۔ ایویں کسی نے دیکھ لیا تو نیا سیاپا پڑ جانا ہے۔
طاہری جھٹ سے کمرے میں گھس گیا کہ جیسے اسی دعوت کا منتظر تھا۔
بلو دروازے کے پاس گئی۔ دروازہ کھول کر باہر دیکھا۔ جب گاؤں کا سامنے نظر آنے والا راستہ اسے سنسان دکھائی دیا تو اس نے دروازے کو کنڈی لگالی۔
لہراتی ہوئی اندر کمرے میں گئی اور کمرے کا دروازہ بھی بند کردیا
*****
کوئی سینتیس منٹ کے بعد طاہری جب ہتھوڑی اور چھینی لئے بلو کے گھر سے نکلا تو اس کے قدم زمین پر نہیں پڑرہے تھے۔
چہرہ ایسے چمک رہا تھا جیسے اس کا پانچ ہزار روپے کا پرائز بانڈ نکل آیا ہو۔
اس وقت گاؤں کا کوئی سیانا بندہ اگر طاہری کی چال دیکھ لیتا تو وہ جان لیتا کہ طاہری،افتخارے کے گھر سے چھینی اور ہتھوڑی کے ساتھ اس کی الہڑ بیوی کی جوانی بھی لے اڑا ہے۔
گل سن۔ گاؤں میں ہر کتے بلے کی نظر اپنے گھر پر کم اور دوجوں کے بوہے پر زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے تو ہتھوڑی واپس کرنے مت آنا۔ جب وہ آرہا تھا تو بلو نے اس سے سرگوشی کی
تو پھر میں ہتھوڑی کیسے واپس کرونگا؟
بوہڑ کا درخت دیکھا ہے؟
بالکل دیکھا ہے۔
تو بس ادھر آجانا
کب آنا؟
ہمارے بوہے کے ساتھ والی دیوار پر نظر رکھے رہنا۔ جس دن تجھے اس دیوار پر لال رنگ کا دوپٹہ سوکھتا نظر آئے۔ اس دن تونے ادھی رات کو بوہڑ تھلے پہنچ جانا ہے۔
مگر تو کیسے آئے گی؟ طاہری نے اپنے اندر کا ڈر بلو پر پھینکا۔
میری فکر نہ کر۔ میں جانوں، افتخارا جانے اور پنڈ کا راہ جانے۔
طاہری کو فکرمند دیکھ کر اس نے وضاحت کی۔ اوباندر۔ افتخارا رات کی روٹی کھاکر مجھے اور چلم کو چھکنے کے بعد جب سوتا ہے تو سرگی مولوی کی اذان پر ہی آنکھ پٹتا ہے۔ تو مت کابر۔
طاہری ہنس پڑا۔
دانت کیوں نکال رہا ہے؟ بلو کو تاو چڑھ گیا
تو نے کہا کہ افتخارا تجھے رات کو چھکتا ہے۔ اس گل پر ہنسی آگئی۔
اس میں ہنسنے والی کیا بات ہے۔ خاوند ہے وہ میرا۔ حق نکاح ہے میرا اس سے
طاہری بلو کو برہم دیکھ کر چپ ہوگیا اور چپکے سے کھسک گیا۔
*****
ساون کی پہلی بارش والے روز جب طاہری، افتخارے کے گھر سے سب کچھ لوٹ کر لے گیا تھا کے تین دن بعد کی بات ہے۔
طاہری جو روزانہ دن میں کئی بار آتے جاتے میں افتخارے کے گھر کی دیوار کا گارے سے لگے پہاڑی پتھر گنتا تھا، کو دیوار پر لال دوپٹہ گیلا نظر آیا۔
اس کا پورا جسم جوش سے بھر گیا۔ وہ تیزی سے گھر گیا اور بوسکی کا جوڑا جو اس نے عید پر پہنا تھا۔ اسے نکال کر کوئلوں والی استری سے اس کی شکنیں سیدھی کیں اور اسی وقت پہن لیاکہ آدھی رات کو پہنتا تو گھر والے شک کرتے کہ کدھر کی تیاری ہے۔
رات اس سے کھانا بھی ٹھیک سے کھایا نہ گیا۔
عشا کی نما ز ہوتے ہی وہ طبیعت خرابی کا بہانہ کرکے ویہڑے میں اپنی منجی پر جاکر سوگیا۔
آسمان صاف تھا۔ بارش کو کوئی ڈرنہیں تھا۔ اسی لئے سارا ٹبر باہر ہی سویا ہوا تھا۔
طاہری کو رات کے گہرا ہونے اور گھروالوں کے سونے کا انتظار تھا۔
*****
افتخارا تین روٹیوں کے ساتھ توری کا بنا ہوا سالن کھاکر اب چلم پی رہا تھا۔
بلو جو باہر تار سے کپڑے اندر لائی تھی۔ ان کو تہ کرکے بکسے میں رکھ رہی تھی۔ افتخارا بلو کو دیکھ رہا تھا۔
بلو نے اس کو اپنی طرف متوجہ دیکھا تو پوچھ لیا۔ اج خیر اے؟
افتخارا دھیمی ہنسی ہنسا۔ خیر ای خیر اے۔ شہزادیئے۔
ایک بات پوچھوں؟
کیا بات؟ بلو ادا سے بولی۔
تو میرے ساتھ خوش تو ہے نا؟
تجھے کیوں لگتا کہ میں یہاں خوش نہیں؟ بلو نے جوابی سوال داغا۔
میں اس گھر میں خوش رہنے کا نہیں۔ اپنے ساتھ کا پوچھ رہا کہ میرے ساتھ تو خوش ہے کہ نہیں۔
خوش ہوں افتخارے میں تیرے ساتھ۔ بہت خوش ہوں۔ بلو نے جان چھڑائی۔
افتخارے نے چلم ایک طرف رکھی اور اپنی منجی پر جاکر لیٹ گیا۔
بلو نے اسے اپنی منجی پر لیٹے دیکھا تو شکر کیا کہ آج افتخارے کا موڈ نہیں تھا۔
اس نے تہ کئے ہوئے کپڑے اٹھاکر بکسے میں ڈالے۔ اس کو بند کیا اور بتی بجھا کر اپنی منجی پر جاکر لیٹ گئی۔
اب وہ افتخارے کی آنکھیں بندہونے کی منتظر تھی۔
*****
افتخارے کی آنکھیں گہری نیند میں تھیں جب اس کے کانوں نے کھٹکا سنا۔ اس نے آنکھ کھولی۔ ساتھ والی منجی سے بلو اتر رہی تھی۔
پیاس لگی ہوگی اس نے سوچا مگر جب بلو نے دوپٹہ سے اپنا سرمنہ چھپایا تو افتخارے کا ماتھا ٹھنکا کہ اس کی سوچ غلط ہے۔
وہ بے حس و بے حرکت پڑا رہا۔ بلو اس کی منجی کے پاس چند سیکنڈ کھڑی رہی۔
افتخارے کی آنکھیں بند تھیں مگر اس کا اندازہ تھا کہ بلو اسی کو دیکھ رہی ہے۔ دروازہ کھلنے کی ہلکی سی آواز آئی۔
افتخارے نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ جیسے ہی اس کے کانوں میں باہر کے دروازے کے کنڈی کھلنے کی آواز آئی۔
اس کے چہرے کا رنگ بگڑ گیا۔ وہ منجی سے اترا۔ باہر آیا۔ دروازہ بند تھا مگر کنڈی کھلی تھی اور بلو غائب تھی۔
افتخارے کی آنکھیں گہری نیند میں تھیں جب اس کے کانوں نے کھٹکا سنا۔ اس نے آنکھ کھولی۔ ساتھ والی منجی سے بلو اتر رہی تھی۔
پیاس لگی ہوگی اس نے سوچا مگر جب بلو نے دوپٹہ سے اپنا سرمنہ چھپایا تو افتخارے کا ماتھا ٹھنکا کہ اس کی سوچ غلط ہے۔
وہ بے حس و بے حرکت پڑا رہا۔ بلو اس کی منجی کے پاس چند سیکنڈ کھڑی رہی۔
افتخارے کی آنکھیں بند تھیں مگر اس کا اندازہ تھا کہ بلو اسی کو دیکھ رہی ہے۔ دروازہ کھلنے کی ہلکی سی آواز آئی۔
افتخارے نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ جیسے ہی اس کے کانوں میں باہر کے دروازے کے کنڈی کھلنے کی آواز آئی۔
اس کے چہرے کا رنگ بگڑ گیا۔ وہ منجی سے اترا۔ باہر آیا۔ دروازہ بند تھا مگر کنڈی کھلی تھی اور بلو غائب تھی۔
دوکلے زمین میں ہل چلانے والا افتخارا اتنا پھدو نہیں تھا کہ وہ دوجمع دو چار نہ کرسکتا۔ مگر اس نے اسی وقت جمع کے ساتھ اپنی غیرت ضرب کی۔ پھر گھڑوں کے ساتھ والی دیوار سے ٹکی کلہاڑی اٹھائی اور مکان سے باہر نکل آیا۔
آسمان صاف تھا۔ اس نے سامنے دیکھا گلی کی نکڑ پر اسے بلو جاتی دکھائی دی۔
افتخارا بھی کلہاڑی لہراتا اس کے پیچھے لپک گیا۔
*****
طاہری کو دو گھنٹے ہوگئے تھے بوہڑ کے نیچے ڈیرہ جمائے ہوئے۔
وہ گھر والوں کے سوتے ہی نکل آیا تھا اور اب یہاں وہ آسمان پر ٹمٹماتے تاروں کو دیکھ کر اندازہ لگانے کی کوشش کررہا تھاکہ اس وقت کیا ٹائم ہوا ہوگا۔
اتنے میں اسے دور سے بلو آتی دکھائی دی۔ اس کا دل جیسے اچھل کر آسمان کی طرف آگیا۔ بلو اس کے پاس پہنچی تو اس نے اپنے چہرے سے دوپٹہ ہٹادیا۔ مدھم چاندنی میں اس کا چہرہ چمک رہا تھا اور ماتھے پر پسینے کے چند قطرے تھے۔
طاہری نے کچھ بولنا چاہا تو بلو نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔
اتنا ٹیم نہیں ہے۔ جو کرنا ہے جلدی سے کر۔
*****
بوہڑ کی دوسری طرف جدھر سے کوئی راستہ نہیں آتا تھا اور سامنے سکول کی دیوار بھی تھی، کے ساتھ لگ کر بلو اور طاہری ایک دوسرے کے ساتھ چپک کر بیٹھے ہوئے تھے۔ طاہری کا سانس پھولا ہوا تھا جیسے وہ کئی میل دوڑلگاکر آیا ہو۔ بلو کے سینے کا مدو جزر نارمل تھا مگر اس کا ماتھا اور گلے کی نچلی ہڈی پیسنے میں بھیگی ہوئی تھی۔
چل اب میں جاتی ہوں۔ افتخارا کہیں اٹھ نہ جائے۔
طاہری جو دوسری بار شربت وصل پاکر خود کو پنڈ کے ساتھ والے جنگل کا ٹارزن تصورکررہا تھا۔ اس بار بولا تو اس کے لہجے میں حقارت تھی۔
وہ بے غیرت ادھر سویا ہوا ہے اور تو ادھر مجھ سے ملنے آئی ہوئی ہے۔ غیرت والا ہوتا تو جیسے تو نے منجی سے قدم نیچے رکھے تھے۔ اس کی اکھ کھل جانی چاہئے تھی۔
جواب میں بلو کا طمانچہ اس کے منہ پر پڑا۔ طمانچے میں شدت نہیں تھی مگر طاہری کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔
بے غیرت وہ نہیں۔ بے غیرت تو تو ہے جو ایک شادی شدہ کڑی سے ادھی رات کو مل رہا ہے
اور بے غیرت میں بھی ہوں جو اپنے خصم کو سوتا چھوڑ کر ادھر تیرے پاس گلچھرے اڑانے آگئی۔
اتنا احساس ہے تو کیوں آئی؟ آئندہ مت آنا۔ طاہری کا چہرہ اپنی ذلت محسوس کرکے کالا ہوچکاتھا۔
اپنی جوانی کے کہنے پر آئی ہوں۔ آئندہ بھی آتی رہونگی اگر تیری ہمت نے تیرا ساتھ دیا۔ مگر اندر سے میں اس کی بیوی ہوں اور اس وقت تک رہونگی جب تک وہ مر نہیں جاتا یا میں مر نہیں جاتی۔
یا وہ تجھے طلاق نہیں دے دیتا۔ طاہری نے لقمہ دیا۔
وہ مرد ہی کیا جو اپنا کام نکالنے کے بعد بھونکے نہ۔ میں جارہی ہوں۔ اگلے ہفتے ملتے اب جب موقع مناسب ہوا۔
یہ کہہ کر بلو اٹھی اور اس سے پہلے کہ طاہری کچھ کہتا۔ بلو قلانچیں بھرتی ہوئی گاؤں کی طرف جاتے راستے پر جاچکی تھی۔
*****
بلو نے گھر میں داخل ہوکر بوہے کو کنڈی لگائی۔ جیسے ہی وہ دبے پاؤں کمرے میں پہنچی تو یہ دیکھ کر اس کا رنگ فق ہوگیا کہ افتخارا اپنی منجی پر نہیں تھا۔ ابھی وہ دل کی بے ترتیب دھڑکنوں اور خدشا ت پر قابو پا ہی رہی تھی کہ دروازہ کھڑکا۔
بلو نے چونک کر باہر کی طرف دیکھا۔ دروازہ دوبارہ کھڑکا۔
بلو مردہ قدموں سے دروازے کی طرف گئی اور جاکر دروازہ کھول دیا۔ اس نے اس بار پوچھا نہیں کہ باہر کو ن ہے۔اس کی چھٹی حس نے بتادیا تھا کہ باہر افتخارا ہی ہوگا۔
دروازہ کھلا تو افتخارا اندر آگیا۔ اس کے ہاتھ میں کلہاڑی تھی۔ کلہاڑی دیکھ کر بلو تیزی سے پیچھے ہٹی۔
افتخارے نے گھڑوں کے ساتھ کلہاڑی دیوار پر ٹکائی اور پلٹ کر بوہے کو کنڈی لگالی۔
تو کدھر گیا تھا؟ بلو نے جب افتخارے سے پوچھا تو وہ خود بھی اپنی آواز نہیں پہچان پائی۔
تیرے پچھے گیا تھا شہزادیئے۔ افتخارے نے بلو کے سر پر بم پھوڑا۔
میرے پچھے؟ بلو نے غیرارادی طور پر دہرایا۔
آہو تیرے پچھے۔ چھوٹا زمیندار ہوں۔ شملہ تھوڑا نیما کرکے ضرور باندھتا ہوں۔ مگر غیرت پوری رکھتا ہوں۔
تو جیسے ہی گھر سے باہر نکلی۔ میں تیرے پچھے تھا۔
پھر کیا دیکھ رہا ہے۔ اٹھاکلہاڑی اور میرے ڈکرے ڈکرے کردے۔ بلو نے جیسے ہتھیار ڈالے
نہیں شہزادیئے۔ کہا نا غیرت پوری رکھتاہوں۔ اپنی زنانیوں کو ادھی غیرت والے مارتے ہیں۔
تو اب کیا کرے گا تو؟ بلو کو یقین نہیں آرہا تھا جو افتخارا اس سے کہہ رہا تھا۔
میں نے کیا کرنا ہے۔ میں کج کرنے جوگا ہوتا تو تو ادھی رات کو اس حرامی سے ملنے جاتی۔
مجھے معاف کردے افتخارے۔ بلو کو کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے ہاتھ جوڑ لئے۔
رہن دے معافی شافی کو۔ اج کے بعد تو بوہڑ پر نہیں جائے گی۔
میں قسم کھاتی ہوں اپنی بی بی کی، نہیں جاؤنگی۔ بلو کی جان میں جان آرہی تھی کہ افتخارا اسے مارنے نہیں لگا۔
اور تو میری اجازت کے بغیر گھر سے قدم بھی نہیں نکالے گی۔ آئی سمجھ؟
جی میں سمجھ گئی۔ بالکل سمجھ گئی۔ بلو نے سرہلایا
افتخارا اندر کمرے میں جانے کے لئے بڑھا پھر رک گیا۔
مگر جب میں گھر نہ ہوں تواس حرامی کو یہاں آنے کے لئے میری اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ کہہ کر افتخارا قدم اٹھاتا ہوا کمرے میں چلا گیا۔
بلو پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے کمرے میں جاتا دیکھتی رہ گئی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn