06/10/2025 12:56 صبح

نصف گواہی سے نصف ایمان تک

پچھلے ہفتے دو بار لاہور جانے کا اتفاق ہوا پبلک اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ سے سفر بہت اچھا رہا۔لیکن  ایک تکلیف دہ چیز جو لوئر پنجاب سے اپر پنجاب دیہات اور شہروں میں یکساں دیکھنے میں آئی وہ تھی پبلک ٹوائلٹ کی بری حالت ۔اور اس میں ناقص صفائی کے انتظام کے ساتھ ساتھ عورتوں کا بھی قصور ہے جو بچوں کے پیمپرز اور سینڑی پیڈز استعمال کے بعد وہیں باتھ روم کے کسی کونے میں پھینک دیتی ہیں ۔ہر دوسرا باتھ روم اپنی حالت زار خود بیان کرتا نظر آیا ۔

جب آپ پانچ سو ہزار کے پیمپرز خریدتی ہیں تو ساتھ ہی شاپر بھی لے لیا کریں اور دوران سفر استعمال شدہ پیمپرز اور سینٹری پیڈز شاپر میں ڈال کر ڈسٹ بن میں ڈالیں یا گاڑی کی ڈگی میں رکھیں اور کسی مناسب جگہ پر ضائع کریں۔

افسوس ناک بات یہ کہ صفائی کا خیال نہ رکھنے میں تعلیم یافتہ اور ان پڑھ لوگ برابر کا حصہ ڈالتے  ہیں۔اس حوالے سے دونوں میں شعور کی شدید کمی ہے ۔

والدین کا فرض ہے کہ دوران سفر اپنے بچوں کو دکھائیں کہ جب بھی راستے میں کچھ کھائیں تو خالی ریپر خالی شاپر میں رکھتے جائیں اور گھر جا کر ڈسٹ بن میں ڈالیں ۔بچے بڑوں سے سیکھتے ہیں اور یہاں ہمارے بڑے کچھ سیکھنے کو تیار نہیں۔

پتا نہیں کسی کو یہ سب دیکھ کر شرمندگی ہوتی ہے یا نہیں لیکن مجھے یہ بات بہت بڑی لگی ۔اس طرح سرعام یہ سب پھینک کر آپ نا صرف اپنے لیے بلکہ دوسرے لوگوں کے لیے بیماری اور شرمندگی کا سبب ضرور بنتی ہیں۔

خدارا اپنے گھر کے ساتھ گلی سڑک اورعام لوگوں کی گزرگاہ کو بھی صاف رکھیں۔ اس میں خواتین زیادہ اچھا اور بہتر کردار ادا کرسکتی ہیں چلیں پورا  نا سہی نصف ایمان کے تقاضے تو ذرا سی محنت سے پورے کرتے جائیں۔