عورت آزادی مارچ میں کوئی ایک سلوگن بھی میری نظر میں ایسا نہیں جس کے الفاظ نا مناسب یا معیوب ہوں۔ تمام نعرے درست ردعمل تھا اور یہ تمام نعرے درحقیقت ان کڑوے جملوں اور رویّوں کو منظر عام پہ لائے ہیں جن کا سامنا بحیثیت خاتون پاکستان کے ہر طبقے کی عورت کو کرنا پڑتا ہے۔ میڈیا کی خواتین کی ویڈیوز کے نیچے مرد حضرات کے کمینٹس پڑھ لیجئیے، کیا کیا گل افشانیاں نہیں کی جاتیں؟ ان کے کردار پہ، نیوز کاسٹر کے سامنے آ کر خبریں پڑھنے تک کو نہیں بخشا جاتا۔ اس جاب کو کرنے پہ بھی اس کا کردار زیر بحث لا کر اسے ڈی گریڈ کیا جاتا ہے۔
بچپن سے جوان ہو گئی ہوں یہ سنتے سنتے کہ ایسے مت بیٹھو، بلکہ ایسے بیٹھو۔ شلوار قمیض پہننی ہے مگر حکم یہ بھی ہے کہ اپنی قمیض کے دامن سے شلوار زدہ ٹانگ کو ڈھانپ کر بیٹھو۔ گھٹنے کیوں موڑ کر بیٹھی ہو، اس سے تمہاری رانیں واضح ہو رہی ہیں اس لئیے ٹانگوں کو لٹکا کر بیٹھو۔ موٹر سائیکل پہ دونوں ٹانگیں ایک سائیڈ پہ رکھ کر بیٹھو۔ باہر آندھی چل رہی ہے، قمیض اڑے گی تو سب نظر آئے گا اس لیے قمیض کے اگلے پچھلے دامن کی گانٹھ لگا کر رکھو تاکہ قمیض نہ اُڑے۔ ادھر اس گلی میں مرد کھڑے ہیں، دوسری گلی سے جاؤ۔ سوشل میڈیا پہ کسی مرد کی گفتگو سے اعتراض کیا کر دیا جناب نے اپنے جائے مخصوصہ کا دیدار کروانا فرض عبادت سمجھا۔
عام بول چال کی گالیوں کو لے لیں۔ تمام گالیاں ایسی دی جاتی ہیں جن میں مردانہ اعضاء کو گاؤں کا چوہدری اور زنانہ ری پروڈکٹیو آرگنز کو پِنڈ کا کمّی کمین بنایا گیا ہے۔ عورت کی ملکیت کا تصور یہاں کے مردوں میں ایسا بھرا ہے کہ وہ اپنا کردار خواتین کے سیکیورٹی گارڈ سے اوپر دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔او بھائی! ہمیں نہیں چاہئیں تمہاری بحیثیت گارڈ کی نوکریاں۔ ہم تمہیں اپنے برابر دیکھنا چاہتے ہیں اور تم بضد ہو کہ نہیں ہم نے تو چوکیدار ہی بننا ہے۔ پیار محبت کی بات ہے تو بڑے سے بڑا تیس مار خان اپنا بریک اپ ہینڈل نہیں کر پاتا اور خواتین کو دھمکیاں لگانے پہ اتر آتا ہے۔ تیزاب پھینک کر ان کے چہرے جلا دئیے جاتے ہیں صرف اس لئے کہ اس نے مجھے “نہ” کیوں کہی۔ ورک پلیس ہیراسمینٹ کی داستانیں الگ سے معاملہ ہیں، ہر جگہ خواتین کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ ان کی جگہ دفاتر یا زراعت میں نہیں بلکہ ان کی جگہ "چادر اور چاردیواری” میں ہے۔ وہ عورت قابل عزت ہے جو مرد کے "تھلے” لگی ہو، گھر اور بچّے سنبھالے، باہر نکل کر کام کرنے والی خواتین تو "آوارہ” ہیں۔ پریگنینسی کو لے کر عجیب بیہودہ مذاق کیے جاتے ہیں، حاملہ خواتین کا جسم اچانک سے “فحاشی کا مرکز” بن جاتا ہے، جسے چادر میں چھپائے رکھنے کے احکامات صادر کیے جاتے ہیں۔ کام کرنے کی جگہوں پہ خواتین کو میٹرنٹی لیو کے طعنے دئیے جاتے ہیں۔ گوشت کے سالن کی اچھی بوٹیوں پہ مردوں کا حق اور دوسرے درجے کی بوٹیاں خواتین کی پلیٹ میں ڈالی جاتی ہیں۔
کیا ہے یہ سب اور کس کے مسائل ہیں یہ؟ کیا یہ صرف ایلیٹ کلاس یا لبرل خواتین کے مسائل ہیں؟ یہ تیسری دنیا کی خواتین کے مشترکہ مسائل ہیں جس کا شکار ہمارے معاشرے کے ہر طبقے کی عورت ہے۔ آپ کا کام ہے خواتین کی ریزیسٹینس کی راہ میں روڑے اٹکانا اور آپ یہ کام کبھی مذہب تو کبھی کلچر تو کبھی نظریات کی بنیاد پہ ہمیشہ سے کرتے آ رہے ہیں۔ ہمیں آپ سے کوئی گِلہ نہیں کیونکہ جتنا آپ ہمیں دباؤ گے، اتنا ہی یہ ریزیسٹینس تیز ہو گی جس میں آپ کی سطحی تنقید ویسے بہہ جائے گی جیسے کسی تیز تر سیلابی ریلے میں گھاس پھونس کی بنی جھونپڑی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn