Qalamkar Website Header Image

عالمی یومِ خواتین، عورت مارچ اور پاکستانی

عالمی یوم خواتین پر عورت مارچ کراچی 2019 مثل گذشتہ سال اس بار بھی مرکز نگاہ ہے ، جس پر ملا جلا رد عمل سامنے آرہا ہے ۔مارچ ایک دن ہوا لیکن اس پر بحث کے لئے لوگوں کو مہینے بھر کا منجن مل چکا ہے ۔

میں نے سوچا کہ اس سیل رواں میں ذرا میں بھی اپنے ذہن میں موجود افکار کو کھنگال لوں ۔ عورت مارچ میں موجود کچھ پلے کارڈز خصوصی توجہ کے مستحق تھے کیونکہ آزادی و حقوق نسواں جیسے سنجیدہ ایشو کے لئے ہونے والے مارچ میں ان کی موجودگی کچھ بھانڈپن لگا ۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ اخلاق باختہ قرار پائے اور کچھ نے اسے پدر سری معاشرے کا حقیقی ردعمل کہہ کر جدودجہد کا نقطہ آغاز کہا ۔ اگر پسند و ناپسند کی دونوں انتہاوں کو چھونے کے بجائے اعتدال پسندی سے سوچا جائے تو کیا یہ مروجہ فرسودہ پدر سری نظام کا رد عمل نہیں ؟ کیا یہ مردوں کے روئیے کا ردعمل نہیں ؟ جو انہیں انباکس میں بنا مطالبے کے ڈک پکس اور فرینڈشپ ریکوسٹس بھیجتے رہتے ہیں یا لڑکی کے انکار کو اقرار میں بدلنے کی کوشش میں ناکامی پر اسے قتل کردیتے ہیں یا تیزاب پھینک دیتے ہیں ۔

عورت مارچ میں ہر طرح کے سنجیدہ مطالبات بھی شامل تھے لیکن جس طرح شادی کی موویز میں مووی میکر صرف خوبصورت لڑکیوں پر ہی توجہ مرکوز رکھتا ہے ایسا ہی اس مارچ کے ساتھ ہوا ۔ صرف ماڈرن لڑکیاں اور یونیک مطالبات ہی سامنے آسکے ۔

ایک پلے کارڈ پر لکھا تھا کہ ‘ میں آوارہ نہیں آزاد ہوں ‘ 
کیا یہ پورے عورت مارچ کا خلاصہ نہیں ؟ ہمارے ہاں آزاد اور خود مختار عورت کو آوارہ چالو اور نہ جانے کون کون سے ناموں سے نوازا جاتا ہے اور ساتھ اس اعتماد کے ساتھ ہر طرح کا مرد لائن مارتا ہے کہ یہ تو آزاد خیال لبرل اور ماڈرن ہے دام میں آ ہی جائے گی ۔ یہ مطالبہ ایسے تمام لوگوں کے لئے وارننگ نہیں کیا ؟ عورت کس ڈھنگ سے زندگی گزارتی ہے یہ اس کی مرضی ہے ۔ اسے کیا پہننا ہے ، کہاں جانا ہے ، کیسے جینا ہے ، اسے آپکے ڈکٹیشن کی ضرورت نہیں ۔ یہ عورت مارچ بھی خالصتا مردانہ مائنڈ سیٹ کا ردعمل تھا جو آپکو برا لگا ۔ جو چیز لوگوں کے نزدیک آوارگی ہے ، اس کے نزدیک جینے کا ڈھنگ اور زندگی کا حق ادا کرنا ہے ۔ جب ان کے باپ بھائی کو ان کے طرز زندگی پر کوئی اعتراض نہیں تو آپ کون ہوتے ہیں انہیں تبلیغ کرنے والے ۔ بقول منٹو ‘ ہم نے طوائف کے علاوہ کسی کو خودمختار نہیں دیکھا اس لئے ہر آزاد و خودمختار عورت طوائف لگتی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  عظیم فلسفی‘ شاعر اور سماج سدھار-غنی خانؒ | حیدر جاوید سید

ان نعروں کا تمسخر اڑانے والے بھی وہی ہیں جن کے گھر کی عورتوں کو مردوں کی مرضی کے بغیر اپنی پسند کے کپڑے پہننے کی آزادی ہے ، نہ کہیں گھومنے پھرنے کی حتی کہ اپنی مرضی سے جینے کی آزادی تک حاصل نہیں ۔ ایسے میں یہ زندگی کا استعارہ نظر آنے والی عورتوں کو برے القابات سے نہ نوازیں تو کیا کریں۔ پدرسری معاشرہ ہے جسے سدھرنے میں بہت وقت درکار ہے۔ یہاں عورتیں خود عورت کی آزادی کی جنگ میں حریف ہیں ، مرد کو کیا کہیں۔ ان نعروں کے ردعمل میں خود خواتین کی طرف سے نعروں کی صورت میں ہی جواب آیا ۔ افسوسناک بات یہ کہ جو عورتیں گھروں میں مردوں سے پٹ رہی ہوتی ہیں ، جن کا حق وراثت غصب ہوچکا ، جن کے برقعہ پہننے یا نہ پہننے کا فیصلہ کرنے کی آزادی نہیں ، وہ کہہ رہی تھیں کہ ہمارے گھر کے مرد ہماری ڈھال ہیں اور تم لبرل عورتیںاپنی قدر و قیمت کھو چکیں ۔جب آپ کو کسی مسئلے کا سامنا ہوگا ، اس وقت آپ کو تو شاید کچھ کہنے کی گھر کے مردوں سے اجازت نہ ملے ، تب یہی عورتیں ۔۔۔ جی ہاں آپ کے نزدیک گناہگار اور قابل نفرین یہ عورتیں ہی آپ کے حق کے لئے سڑکوں پر ہوں گی ۔

عالمی یوم خواتین پر پشاور اور کوئٹہ میں ہونے والے عورت مارچ کی چند جھلکیاں تصویروں کی شکل میں فیس بک پر دیکھیں ۔ مارچ میں شامل خواتین کے ہاتھوں میںپلے کارڈز پر لکھے گئے تمام سلوگنز اور مطالبات ایسے تھے جنہیں دیکھ کر محسوس ہوا کہ یہ حقیقی معنوں میں تعلیم یافتہ اور باشعور خواتین ہیں جنہیں عورتوں کے حقیقی مسائل کا ادراک ہے۔ مطالبات میں حق تعلیم ، حق وراثت ، زچگی چھٹیوں میں اضافے کا مطالبہ ، یکساں اجرت، کام کے یکساں مواقعوں ، اسکول کالجز یونیورسٹی اور کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کے خلاف تحفظ کی بات تھی ۔ مزارعین ، دہقان ، بھٹہ مزدور اور ہوم بیسڈ مزدور عورتوں کے سماجی و معاشی تحفظ جبکہ گھریلو تشدد پر نئے قوانین کی منظوری اور قانون میں موجود متنازعہ سیکشن کے خاتمے کے مطالبات شامل تھے ۔ کراچی میں ہونے والے مارچ میں بھی ایسے کئی مطالبات پر مشتمل پلے کارڈز موجود تھے لیکن انہیں نمایاں نہیں کیا گیا اور لوگوں کو انتہا پسندی بمقابلہ انتہا پسندی کا تاثر ملا ۔ کچھ پلے کارڈز مجھے غیر ضروری اور میل شاونزم کو مزید ہوا دیتے نظر آئے جیسے اپنا بستر خود گرم کرو جیسی بکواس ۔ ایسا لگا کہ عورت اپنی سیکس ضروریات سے خود انکاری ہے ۔

یہ بھی پڑھئے:  انتخابی نتائج ، تحفظات وشکایات

گذشہ روز کی خبر ہے کہ کراچی کے علاقے بوٹ بیسن میں زیر تعمیر عمارت میں سامان لے جانے والی لفٹ گرنے سے چھ مزدور جاں بحق ہوگئے۔ ہمارے مجموعی مسائل یہ ہیں ،التجا ہے کہ خدارا ان پر بات کیجئے۔ کوئلے کی کانوں میں ہونے والی ہلاکتوں پر بات کیجئے۔کام کی جگہوں پر مزدوروں کے تحفظ اور ان کے مرنے کی صورت میں ان کے ورثاءکے لئے امداد کو یقینی بنانے پر بات ہو۔ کھانا اور بستر گرم کرنا آپسی معاملہ ہے ، اس کو روڈ پر لانے کی ضرورت نہیں ، اسے گھر میں مل بیٹھ کر حل کیجئے۔ اگر مرد بے حس یا خراب ہے اس کی وجہ بھی عورت کی تربیت ہے جو اس کی ماں ہے اور اس کے خاندان و ارد گرد کی کئی عورتیں ہیں جو اس کے مزاج کی تشکیل میں معاون رہیں ۔ کوشش کریں کہ آپ اپنے بچوں کی تربیت صحیح خطوط پر کریں ، انہیں حقیقی معنوں میں تعلیم یافتہ اور باشعور بنائیں تاکہ کسی اور کی بیٹی کو آپ کے بیٹوں کے لئے ایسے نعرے لکھنے کی ضرورت نہ پڑے۔ فیمنزم کا مطلب مرد سے نفرت ہرگز نہیں۔ ہم بیٹیوں کی تعلیم ، معاشی خودمختاری اور بہادری ہمارے باپ کے پیار اور سپورٹ کی وجہ سے ہی ہے۔ آپ کے عورت مارچ میں بھی مرد حضرات معاون کی حیثیت سے موجود تھے اور آج بھی تنگ نظر سطحی مردوں کی خرافات کے مقابل آپ کے ساتھ کھڑے ہیں ۔

حالیہ بلاگ پوسٹس