پچاس ہزار سال پہلے برف کے زمانے نے دنیا کے پانی کو بند کر دیا اور سطح سمندر کم ہونا شروع ہو گئی جس سے انڈونیشیا ایک ملک بن گیا اور آسٹریلیا نیو گنی کے ساتھ شامل ہو گیا۔ اس کے بعد بڑھتے ہوئے سطح سمندر نے اس راستے پر ان کی موجودگی کا احاطہ کیا۔
بہت سے راستے بہت آسان تھے۔ جن پر افریقہ سے ساحل پر اپنے بچاو کی سیکھی ہوئی مہارتیں کام آئیں۔ لیکن وہاں ایک آخری رکاوٹ تھی۔ برف کے بھرپور زمانے میں بھی ساحل کی لکیر آسٹریلیا تک مکمل طور پر نہیں پہنچتی تھی۔ وہاں ابھی بھی ایک سو پچاس میل کھلا سمندر تھا۔
ہماری تاریخ کے متعلق ایک اہم لمحہ تھا۔ کوانٹن لیو دوبارہ حملہ کرنے کا سوچ رہی تھی۔ جب ماحولیاتی تبدیلی نے جدید انسان کو مجبور کیا تھا کہ وہ اپنے پیدا ہونے سے پہلے ایسی دنیا کا تصور کرے جو اسے دنیا کی دوسری طرف لے جائے۔
اگرچہ ہمارے پاس کوئی براہ راست ثبوت نہیں کہ کونسے طریقے استعمال کر کے یہ لوگ آسٹریلیا پہنچے تھے۔ جو وہ پچاس ہزار پہلے پہنچے تھے۔ ہمارے پاس ایک جینیاتی پگڈنڈی ہے جو افریقہ سے نکل کر اس پورے رستہ پر آتی ہے لیکن اس پر پوری دنیا کی آبادی کا دس فیصد حصہ مشتمل ہے۔ باقی نوے فیصد نے دوسرا رستہ اپنایا تھا۔ دوسری پگڈنڈی کے بعد میں آنے والے لوگ یورپین، ایشین اور مقامی امریکن بنے۔
ایک فریج میں پوری دنیا میں پھیلی آبادی کے بلڈ سیمپلز ہیں۔ چینی، یورپین، رشین، مقامی امریکی، انڈین ان سب کی نمائندگی وہاں موجود ہے۔ ان میں ایک چیز مشترک ہے۔ جو کہ ایک مارکر ہے جو ایک ہی شخص کی وراثت سے ہے۔ ہم نے دریافت کیا ہے کہ یہ دوسرا گروہ ہے جو افریقہ سے نکلا تھا اور انہوں نے مشرق وسطی کی طرف ایک مختلف رستہ اختیار کیا تھا۔ مشرق وسطی پنتالیس ہزار سال پہلے افریقہ اور باقی دنیا کے درمیان ایک پل تھا۔ اس کی سمجھ بھی آتی ہے کیونکہ یہ افریقہ سے باہر واحد خطہ تھا لیکن انہوں نے یہ راستہ کیوں اختیار کیا؟
ویلیم کیلون۔ یونیورسٹی آف واشنگٹن کے پروفیسر ہیں ان کا کہنا ہے کہ جب ہمارے اجداد نے افریقہ چھوڑا تو وہ برف کا زمانہ تھا۔ اس کا مطلب تب افریقہ میں برف پڑ رہی تھی۔ لیکن وہ اتنی زیادہ نہیں تھی۔ درجہ حرارت تھوڑا کم ہو گا لیکن اتنا زیادہ نہیں کہ وہ سردی سے متاثر ہو رہے ہوں بلکہ وہ خشکی سے متاثر ہو رہے تھے۔ تو انہوں نے یہ کیا کہ تمام جانوروں اور خود کو شمالی افریقہ اور مشرق وسطی کی طرف دھکیل دیا۔
اور یہاں سے انہوں نے خود کو پوری دنیا پر پھیلایا۔ تو وہ پھر کہاں گئے؟ جینیٹک مارکر بتاتی ہے کہ ان کی ایک شاخ نے انڈیا کا سفر کیا۔ شمال سے یہ چھوٹا گروپ جو انڈیا آیا تھا بہت کامیاب رہا کیونکہ ان کی تعداد بہت تیزی سے بڑھنے لگی۔ انہوں نے جلدی ہی ساحل کی تمام پچھلی ہجرتوں کو دریافت کر لیا۔
دوسری شاخ چین کی طرف آئی۔ یہاں سمندر اور پہاڑوں کی وجہ سے وہ تنہائی میں رہےجس سے انکی امتیازی شکل و صورت نمایاں ہوئی اور وہ دنیا کی سب سے بڑی قوم بن گئے۔ لیکن ماہر جینیات نے بہت کچھ مزید عیاں کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہاں وہ دو شاخوں میں تقسیم ہو گئے ایک ان پہاڑی علاقے کے شمالی حصے کی طرف اور دوسرے جنوبی حصے کی طرف۔ یہ قدیم جینییاتی تحریک کی طرح ابھی بھی یہاں رہنے والے لوگوں کے خون میں نمایاں نظر آتی ہے۔ یہ بڑے پیمانے پر ہونے والا کام ہے۔ آنکھ جھپکنے سے ہی انسانیت انڈیا اور چین کے دور دراز علاقوں میں پہنچ گئی۔ اس کے مقابلے میں بہت تھوڑا سا حصہ یورپ کی طرف گیا۔ آپ انسانوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ وہاں بھی آباد ہوتے لیکن وہ نہیں ہوئے۔
جب لوگ ایشیا اور یورپ میں آباد ہو رہے تھے۔ وہ کسی اور جگہ نظر نہیں آ رہے تھے۔
سپینسر ویلز: کہتا ہے کہ میری اس میں ذاتی دلچسپی ہے اور کہانی اب یہاں کچھ ذاتی سی ہو گئی ہے کیونکہ میں امریکی ہوں اور میرے اباو اجداد شمالی یورپ سے آئے تھے۔ ہم نے ان اپنے اباو اجداد کی تلاش کی تھی جو خاص طور پر پہلے یورپی تھے۔ آثار قدیمہ ہمیں بتاتے ہیں کہ انہوں نے مشرق وسطی سے یہاں پہنچنے کے لیے دس ہزار سال لیے ۔ میں ہمیشہ حیران ہوتا ہوں کیوں؟
جواب زمین کے اندر موجود ہے۔ یہ پیچ میرلے جنوبی فرانس میں غاروں اور سرنگوں کا بہت بڑا نظام ہے۔ میرا اپنے اجداد کے آرٹسٹ جو پہلے یورپین تھے اور کرومینین لوگوں کے نام سے جانے جاتے تھے۔ کیا یہ پینٹنگز ان کے یہاں سفر کی نشانی ہو سکتی ہیں؟ اگر میری یہ جاننے میں کوئی مدد کر سکتا ہے تو وہ ماہر آثار قدیمہ میشا لور بلانشے ہے۔ اس نے تاریخ سے پہلے کے ان پینٹرز کو سمجھنے میں عمر بھر تحقیق کی ہے۔ اس نے بتایا کہ یہ غاروں میں رہنے والے پہلے قدیم یورپین تھے۔
میشا لور بلانشے ۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ انسان نے غاروں میں نقشے بنانے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے پہلی دفعہ خوبصورت جانوروں کی تصویریں بنائیں۔
سپنسر ویلز: تم اس وقت کے بارے میں دوبارہ کیوں سوچتے ہو؟
میشا لور بلانشے : پہلی دفع اس لیے کہ وہ جب اس علاقے میں آئے تھے تو انہوں نے غاروں میں رہنا شروع کیا تھا۔ اور غار ایک قسم کی مقدس چیز ہو گئی۔
لیکن اگر یورپین نئے آنے والے تھے تو وہ کہاں سے آئے؟ یہ پینٹنگز پرانے زمانوں کے پوسٹ کارڈز کی طرح ہیں۔ مشال نے وضاحت کی کہ ان پینٹنگز سے ان کے سفر کا پتا چلتا ہے کہ انہوں نے برف کے زمانے میں سفر کیا۔ جنگلی گھوڑے، میملز اور تمام تصویریں برف کے زمانے کی ہیں لیکن مشرق وسطی تو جما ہوا نہیں تھا۔ تو پھر یہ اس سارے دورانیے میں کہاں رہے؟ وہ جہاں سے بھی آئے ان کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ لیکن جو اس نے مجھے آگے چل کر دکھایا اس کا میں یقین نہ کر سکا۔
میشا لور بلانشے: یہ خراشیں بتاتی ہیں کہ وہ سردیاں اس غار میں گزارتے ہوں گئے اور تم دیکھ سکتے ہو کہ وہ کتنے بڑے تھے۔
سپنسر ویلز: وہ اسی غار میں سوئے ہوں گے اور یقینی طور پر وہ بے خوف لوگ تھے۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس غار میں رہتے رہے۔
رچڑ کلائین: میرا خیال ہے وہ حیران کن حد تک موجد تھے بالکل جس طرح ہم لوگ ہیں۔ وہ بہت جلد گھر اور کپڑے آنکھ جھپکنے کی سی تیزی سے بنا لیتے تھے۔
میشا لور بلانشے : تم چھت پر بنائی گئی پینٹنگز دیکھ سکتےہو۔ یہ پینٹنگز بنانے والا شخص ایک شکاری تھا۔ اس کے پاس شکار کرنے کی طاقت اور رفتار تھی۔ یہ آدمی بہت لمبے تھے چھے فٹ سے بھی زیادہ لمبے تھے۔
وہ آج کے اوسط فرینچ آدمیوں سے لمبے کیوں تھے؟
رچڑ کلائین: وہ لوگ افریقن جسموں کے ساتھ آئے تو اور بہت جلد ہی گرم صورتحال میں خود کو ڈھال لیا تھا۔ وہ جب یورپ پہنچے تھے تو افریقین لوگوں کی طرح لمبی اور گہرے رنگ کے تھے۔ یہ چیزیں مجھے بتاتی ہیں کہ ان کے پاس گھر اور کپڑے کی ثقافتی قابلیت ہے جو کسی بھی خطے کو اپنانے میں اہم چیز ہے۔
کپڑوں اور گھروں کو ایک طرف رکھیں بھی تو ماہر بشریات نینا جبلونسکی کا ماننا ہے کہ کرومینین لوگوں نے ایسے جسمانی راستے اپنائے جو سرد اور تاریک زندگی تجویز کرتے ہیں۔
نینا جبلونسکی ماہر بشریات پینسولینیا سٹیٹ یونیورسٹی: انسانوں کے اجداد کی تشکیل میں سب سے بڑا چلینچ خود کو اس وقت میں لے جانا جب انسان نے تمام دنیا میں ہجرت کرنا شروع کیا تھا۔ کیونکہ استوائی افریقہ میں رہنے والے لوگ گرم ماحول میں ریہہ رہے تھے۔ اس کے لیے جلد سے پسینہ نکلنا چاہیے تا کہ انسان ٹھنڈا ہو سکے۔ کیونکہ وہ جلد ننگی تھی اور الٹراوئلڈ شعاعوں کا شکار ہو سکتی تھیں اور ہمارے اباو اجداد کی جلد گہرے رنگ تھی۔ فطری سورج کی شعاعوں سے بچنے والی سیاہی۔
سورج کی روشنی وٹائمن ڈی مہیا کرتا ہے جو ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے بہت اہم ہے۔ پنتیس ہزار سال پہلے جب میرے اباو اجداد یورپ میں داخل ہوئے ان کی جلد روشنی جزب کرنے کی وجہ سے پہلے ہی مزید پیلی ہو گئی تھی۔
نینا جبلونسکی : جو پہلے لوگ یورپ گئے تھے ان کا رنگ بہت پھیکا تھا۔ کیونکہ یورپ چالیس سے پچاس درجہ حرارت میں کم الٹرا وائلٹ شعاعوں والا علاقہ تھا۔ آبادی جو یورپ میں ریہہ رہی تھی اور جو وہاں رہنے والوں کی آبادی نہیں تھی۔ کی اس ایسی رنگت والی جلد ہونی چاہیے جو الٹرا وائلٹ ہی کی شعاعوں کو جلد کے اندر جانے کی اجازت دے تاکہ وہ وٹامن ڈی کی حاصل کر سکیں جن کی انہیں ضرورت ہے۔ ساحل کی آبادی بہت دلچسپ ہوتی ہے کیونکہ اگر ان کی رسائی مچھلی تک ہوتی ہےجو کہ وٹامن ڈی سے بھرپور خوراک ہے۔ پھر وہ اپنے اندرونی علاقوں کے بھائیوں سے تھوڑے گہرے کلر کا ہو سکتے ہیں۔ لیکن ایک چیز کے بارے میں ہمیں سوچنا ہو گا۔ جب ہم یورپ کی آبادی کی بات کرتے ہیں خاص کر وہ لوگ جو شمالی علاقوں میں چلے گئے وہ ننگے نہیں تھے۔ انہوں نے پنکھوں اور سادہ قسم کے کپڑوں سے خود کو ڈھانپا ہوا تھا۔ اس طرح ان کی تھوڑی جلد سورج کے سامنے ننگی ہوتی ہے۔ ہمیں اس کو بھی مدنظر رکھنا ہوا گا۔ جب آپ کپڑے پہنیں گے تو آپ کی تھوڑی جلد سورج کے سامنے ننگی ہو ہوگی اور جلد کا جو حصہ ننگا ہوا گا اس کو وٹامن ڈی حاصل کرنے کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی تھی۔
برف کے زمانے نے پہلے یورپینز کو تمام دنیا سے منقطع کر کے کسی دوسرے سے رابطے کے موقعے کو ختم کر دیا۔ تنہائی میں انہوں نے خاص خوبیوں اپنائیں۔ ان کے بالوں کا رنگ بدلا، ان کے ناکوں کی شکل بدل گئی حتی کہ ان کی لمبائی بھی۔
آج وہ لوگ جو یورپین کی نسل سے ہیں جیسا کہ میں اور باسکٹ بال کا یہ فرینچ کھلاڑی اپنے اجداد سے بہت مختلف نظر آتے ہیں۔
ہمارے اجداد نے یہاں پہنچنےکے لیے اتنا عرصہ کیوں لگایا۔ انہوں نے جیسا مرضی سفرکیا ہو، یہ تو یقینی ہے کہ انہوں نے یقینی طور پر سارے رستے زندگی کی نئی مہارتیں سیکھی ہیں۔
میرے اجداد کو مشرق وسطی سے یورپ پہنچنے میں اتنی دیر کیوں گی؟ اور وہ اتنے کیوں بدلے؟ یہ تھیوری قابل قبول ہے کہ انہوں نے بحیرہ روم سے ترکی کی طرف سفر کیا۔ پھر ہماری تحقیق کام کرے گی۔
ہمارے پاس یہ ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ پہلے یورپین مشرق وسطی سے سیدھے یہاں آئے تھے۔ اچانک ہمیں ثبوت ملا کہ وہ مکمل طور پر کسی اور جگہ سے یورپ آئے تھے۔ مشرق وسطی چھوڑتے ہوئے میرے یورپین اجداد نے ایک مشکل ترین اور چرچراہٹ بھرا چکر لیا۔ میں ان کے جینیاتی کھوج کے لیے دوردراز کے علاقے کا سفر کرنے لگا ہوں۔
جیسے ہی دنیا کی آبادی کی سیمپلنگ بڑھنے لگی تو میں نے دنیا کے ایک سب سے بڑا بلائینڈ سپاٹ کو کنڑرول کیا۔
بچپن سے ہی میں سلک روڈ کے کرداروں تاجر اور مارکولو جیسے مسافر اور چنگیز خان جیسے فاتح پر توجہ دیتا آیا ہوں۔ میں نے ان کے اجداد کے خون کے نمونے لینے کے لیے پرانے سویت ریپبلک اور مشرق وسطی کے ایسے علاقے کا سفر کیا جو دنیا میں بہت کم لوگوں میں جانا جاتا ہے۔
بشکاک پرانے سویٹ ریپبلک کی ریاست کرکستان کا درالخلافہ ہے۔ میں پہلی دفعہ یہاں 1996 میں آیا تھا۔ یہ بہت دور افتادہ علاقہ ہے۔ اس میں سے کچھ دیہات ایسے تھے جنہوں نے پچھلے دو تین سو سال سے کوئی غیر ملکی نہیں دیکھا تھا۔ جب میں یہاں آیا تھا تو یہ نئی جگہ تھی جہاں مجھ سے پہلے کسی مغربی سائنسدان نے سفر نہیں کیا تھا۔ یہ ایک صدی سے لوہے کے پردوں کے پیچھے چھپا ہے۔ آج بھی یہ دنیا کے دور افتادہ علاقوں میں سے ایک ہے۔
اس سنسان علاقے سے میں نے دو ہزار سے زیادہ لوگوں کے خون کے نمونے لیے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب میں نے دریافت کیا کہ ان کے خون میں قابل ذکر راز اور اورقدیم مارکر چھپے ہیں۔ میں نے فوری اعتراف کیا کہ تقریبا مغربی یورپ میں تمام لوگ ناروئے سے سپین اور آئرلینڈ آسٹریا میں اس مارکر کو لیے پھر رہے ہیں۔ ہمارے کچھ یورپی اجداد نے افریقہ سے مشرق وسطی کا رستہ اختیار نہ کیا۔ بلکہ وہ وسطی ایشیا سے چالیس ہزار سال پہلے گزرے تھے۔ اسی وجہ سے وہ میرے وطن اتنی تاخیر سے پہنچے۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ کیسے میرے قدیم خاندان نے مشرق وسطی کے اس ویرانے سے سب کچھ سمیٹا ہو گا۔
ویلیم کیلون سوچتا ہے کہ یہاں ایک دفعہ پھر موسم نے اہم کردار ادا کیا۔ وہ کہتا ہے یہاں بہت ساری گھاس اور چرنے والے جانور تھے اس لیے ان انسانوں کے پاس اپنی بقا کا موقع تھا۔
بقا کے لیے خوراک ضروری تھی۔ وہ افریقی شکاریوں نے اپنی شکاری مہارتوں کو بہتر کرتے اور ٹھنڈے درجہ حرارت کو اپناتے ہوئے جدید دور کے قازقستان تک پہنچے۔ وسطی ایشیا کے مارکر کی دریافت نے پہلے یورپین کے سفر کے فہم کو تبدیل کر دیا۔ یورپ ان خوفناک وسطی ایشیائی شکاریوں کی منزل تھا۔ کیا ان کا سفر ان کو کہیں اور لے گیا؟ ہم نے اپنی تحقیق کو وسیع کیا اور بہت حیران کن نتائج حاصل کیے۔ مارکر ہر جگہ یورپ، ایشیا، روس، شمالی اور جنوبی امریکہ اورجہاں ہم دیکھیں موجود ہے۔ یہ لسٹ لامحدود نظر آ رہی ہے۔
ہم نے حیران کن نتائج حاصل کیے کہ اگر افریقہ انسانیت کے پالنے والی ہے تو وسطی ایشیا ان کو پروان چڑھانے والی ہے۔اکتائے ہوئے اور سنجیدہ چہرے۔ اگر آپ چہرے دیکھیں تو آپ کو پتا چل جائے گا کہ ہم اس وقت کہاں ہیں۔ ہم یوریشیا بر اعظم پر کہیں بھی ہو سکتے ہیں۔ ہم غالبا وسطی ایشا میں ہیں۔ ہمارے ایک طرف چند میل دور چین ہے تو جنوب میں چند سو کلومیٹر دور افغانستان ہے۔ یہ براعظم یوریشیا کی مرکزی گزرگاہ ہے۔
میں یہاں بہت اہم وجہ سے آیا ہوں۔ ان دو ہزار لوگوں کے خون کے نمونوں میں ایک غیر معمولی انسان ہے۔ اس کا نام نیازف ہے اور وہ براہ راست اس شخص کی اولاد ہے جو چالیس ہزار سال پہلے چھوٹی سی سپیلنگ کی غلطی کے بعد وسطی ایشیائی مارکر ہے۔ یہ جینیاتی مارکر شمالی ہیمیسفیئر میں پھیلتی گئی اور اربوں لوگوں کی وارث ہے۔ نیازف کے اجداد کی شاخیں یورپ، انڈیا کے کچھ حصوں روس اور امریکہ تک پھیلی ہوئی ہے۔ لیکن نیازف کا خاندان ہمیشہ یہیں رہا۔ اس کے ڈی این کی پہلی دفع تحقیق کرنا ایک غیر معمولی لمحہ تھا۔ ایک لمحے میں میں نے جان لیا کہ ہم نے بہت اہم چیز دریافت کی ہے۔ اب ہم اسے ملنے جا رہے ہیں۔ دوہزار نسلوں سے نیازف کے اجداد وسطی ایشیا میں رہ رہے ہیں۔ میں اس سے دوبارہ ملنے کے بارے میں پرجوش ہوں۔ اب میں اس ساری تاریخ کو سمجھتا ہوں جو اس کے خون میں موجود ہے۔
ہیلو نیازف۔
میں سپنسر ویلز ہوں۔ میں اپنے جوتے اتارتا ہوں۔
نیازف: آئیے اندر آئیے۔
یہ حیران کن لمحہ تھا۔ آپ لیب میں دریافتیں کرتے ہیں۔ میرے جینیٹک مارکر کا چہرہ ایسا تھا۔ میرے لیے یہ حیران کن تھا۔ ہو سکتا ہے وہ میرے سے قد میں چھوٹا ہو لیکن وہ ہماری تاریخ میں غیر معمولی جینز کا حامل ہے۔ میں اپنی خون پر مشتمل تقریر کرنے کے لیے کھڑا ہوا۔
آپ کو کیسا لگے گا اگر میں کہوں کہ تمہارا خون چالیس ہزار سال پرانے لوگوں سے ملتا ہے۔ تمہارا خاندان سب سے پہلے وسطی ایشیا میں آنے والا خاندان ہے۔ منگولوں اور تاجکوں سے بھی پہلے آنے والا خاندان۔
اپنار ویلز: کیا تم جانتے ہو ڈی این اے کیا ہے؟
نیازف: ہاں میں نے سن رکھا ہے۔
سپنسر ویلز: یہ بلیو پرنٹ ہے۔ تمہارئی اانسٹرکسن کی کتاب ہے۔
اب ہم وائے کرومسومز پر تحقیق کر رہے ہیں جو کہ ڈی این اے کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ جو تم کو مرد بنانے کے علاوہ کچھ زیاہ نہیں کرتا۔ تم نے اپنا وائے کرومسوم اپنے والاد سے حاصل کیا ہے۔
مترجم: یہ ایک خاندان ہے۔ یہ تصویر اس کے باپ اور دادا کی ہے ۔
سپنسر ویلز: تمہارے وائے کرومسومز تمہارے داد سے تمہارے باپ میں اور پھر تمہارے باپ سے تم میں منتقل ہوا ہے۔ اگر ہم کو اسی طرح پیچھے لے جائیں تم سے تمہارے باپ اور اس کے باپ تو اس طرح یہ دو ہزار نسلوں تک پیچھے جاتا ہے۔ اگر ہم ایسا کریں تو ہم ایک انسان تک پہنچ جاتے ہیں۔ تم وسطی ایشیا کے جنوب میں چالیس ہزار سال سے رہ رہے ہو۔ یہ آدمی بہت اہم ہے کیونکہ یہ یورپین، مقامی امریکن اور بہت سے انڈین کا بزرگ ہے۔ میں تم کو مکمل یقین کے ساتھ بتا سکتا ہوں کہ تمہارا وائے کرومسوم اور اس کا وائے کرومسوم یہاں چالیس ہزار سال سے رہ رہا ہے۔ اس لیے تمہیں مبارک ہو کہ تمہارا خون بہت دلچسپ ہے۔
اسے لگا تھا کہ ڈاکٹر اسے بتانے آیا ہے کہ اسے کینسر ہے لیکن اب وہ پرسکون ہے۔
جینیاتی طور پر ہم ایک دوسرے سے بہت قریبی تھے۔ نیازف کے دادا کے اجداد جو وسطی ایشیا میں ریہہ رہے ہیں ان کی شکلوں میں حیران کن حد تک مشاہبت ہے۔ ایک گروپ نے ایشیا سے مغرب کی طرف سفر کیا اور پہلا یورپی بن گیا۔ نیازف کی فیملی کی ایک شاخ امریکہ پہنچ گئی اور وہ مقامی امریکن کہلائے۔ وہاں پہنچنے کے لیے انہیں ایک ایسا سفر اختیار کرنا پڑا جس کی موسمی تبدیلیوں شدت بارے انہوں کبھی سنا بھی نہ ہو گا۔ برف کے زمانے کو یاد کرو۔ یہ بیس سال پرانے وقت کی بات ہے لیکن ہماری تحقیق دکھاتی ہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب انہوں نے اُدھر کا سفر کیا تھا اور ان میں سے کچھ ابھی بھی وہیں موجود ہیں۔ نیازف کی قدیم مارکر ظاہر کرتی ہے وہ رشینز کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
وہ لوگ چگچی کہلاتے ہیں اور انہوں نے پندرہ ہزار سال پہلے امریکہ میں پڑاو کیا تھا۔ چگچی کو تلاش کرنا آسان ہے۔ وہ روس کی شمال مشرقی سرحد کے آخر میں رہتا ہے۔ وہاں پہنچنے کے لیے مجھے ماسکو جانے گا۔ یہ سردیوں کا موسم ہے اور واحد جگہ ہے جہاں میں فلائٹ لے سکوں گا کیونکہ باقی تمام جگہوں پر پروازیں بند ہیں۔اس قبیلے کو تلاش کرنا آسان نہیں۔ میں امید کرتا ہوں چگچی مجھے دیکھا دیں گے کہ کس طرح وسطی ایشیا کے شکاری برف کے دل سے بچتے کیسے ہیں۔ ابھی یہ فلائٹ میرے سفر کا آغاز ہے۔
ہم ماسکو سے پانچ ہزار میل کا سفر کر کے یہاں پہنچے ہیں۔ یہ شمالی روس کا ایک علاقہ ہے۔ ہم چگچی قبیلے کی طرف جا رہے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ان سے کیسے ملیں گے لیکن یہ کافی دلچسپ ہوتا جا رہا ہے۔
چگچی چار ہزار میل مشرق کی جانب ارٹِک دے کے اندر رہتا ہے۔ جہاں درجہ حرارت منفی سو تک گِر جاتا ہے۔ میرا گائیڈ ابھی پہنچا نہیں اور میں اسی کی طرف جا رہا ہوں۔ میں نے اسے بتایا کہ ہم کچھ دیر بعد چگچی کیمپ کے پاس ہی ملیں گی۔
میں ان لوگوں کو ملنے جا رہا ہوں جو پندرہ ہزار سال پہلے امریکہ رہنے والے لوگوں کے براہ راست اولاد ہیں۔ میرے جینز کی طرف سفر نے مجھے یہ شاندار نظارہ دکھایا۔ یہ بہت حیران کن اور شاندار ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی جنت ہے۔
وہ ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے یا یہ تجسس بھی ہو سکتا ہے۔ میں دیکھ سکتا ہوں کہ یہاں بہت سے ملاقاتی ہیں۔ میں ایک اور ہاتھ ملانے والے کو قریبی آتا دیکھ سکتا ہوں۔ یہ وہ وقت جب میں اپنی ہائی سکول سے تھوڑی سی سیکھی رشین کو استعمال کروں گا۔ وہ اس درجہ حرارت میں اپنی ساری زندگی گزارتے ہیں جو مجھے پیرالائز کر رہا ہے۔ اردگرد دیکھ کر میں پوری طرح سمجھنے سے محروم ہوں۔ ہو سکتا ہے ہم جلد سے بھائی ہوں لیکن وہ ظاہری طورپر مختلف ہے۔ تاہم وہ سردی سے بہت طریقے سے بچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
نینا بلانسکی: جانتی ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ چگچی انسانی بیالوجی میں برگزمین اور ایلین قوانین کی بہترین مثال ہیں۔ یہ بہت ہی ٹھنڈا علاقہ ہے۔ جسم کی سطح کم ہو جاتی ہے اور ان کے جسم کے ملحقہ حصے بھی کم ہو جاتے ہیں۔ جن کے چھوٹے بازو اور چھوٹی ٹانگیں چھوٹی انگلیاں اور چھوٹی جڑیں ہوتی ہیں۔ اپنے جسم کی گرمائش کو محفوظ کرنے کا سب سے بہترین بٹھی ہے۔
ویکٹر اور اس کا خاندان یہاں سے جا رہے ہیں اور اور نئے چارواہے آئیں گے جو اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ انسان اس ماحول میں بھی زندہ رہ سکتا اور بچ سکتا ہے۔ اورایک سبق بھی کہ ہمیں رہنمائی کی کتنی ضرورت ہے۔
لیکن وہاں اورلوگ ہیں۔ میرا جینیاتی خاندان بتاتا ہے کہ پندرہ ہزار سال پہلے چگچی کے خاندان اس علاقے میں نئی دنیا کا قیام کرنے کے لیے آئے تھے۔
جیسے ہی موسم بدلا اور سطح سمندر کم ہوئی تو بنجر سمندر سے نئی جگہ نمودار ہوئی جو برینجیا کہلائی۔ یہ نئی زمین رشیا کو الاسکا سے جوڑتی ہے۔ برفانی بھیڑوں کے اس جھنڈ کو نئے چرواہے کی ضرورت ہے۔ چند لوگوں نے ان کی پیروی کی اور انسانیت کو وہاں لے گئے۔
سطح سمندر بہت نیچے تھی اتنی کہ چالیس منزلہ عمارت تعمیر کی جا سکے۔ میں بتا رہا تھا کہ کس حد تک سطح سمندر بدل گئی تھی۔
وہ زیادہ دور نہیں جا سکتے تھے اور وہ ساری برف کی وجہ سے شمالی آلاسکا میں پھنس گئے اور ان کے پیچھے چیزیں بہتر کام کر رہی تھیں۔ جیسے ہی برف کا زمانہ ختم ہوا سمندر کی سطح بلند ہوئی اور پہلے امریکیوں کو زمین کی اس چھوٹی سی جگہ پر محدود کر دیا لیکن وہ بچ گئے اور وہاں سے نکل گئے۔ پہلے امریکی یہاں تقریبا تیرہ ہزار سال پہلے آئے۔ اور وہ غالبا آلاسکا سے گیارہ ہزار پہلے اس جگہ پہنچے جو چٹیلی پہاڑیوں کے مشرقی جانب واقع تھا۔ ہو سکتا ہے وہاں مشرق سے مغرب کی طرف برف ہو لیکن وہ مشرق سے مغرب کی طرف آئے تھے اور شمالی امریکہ میں پہنچ گئے۔ جو ان کے لیے خالی خطہ تھا جہاں کچھ زیادہ وسائل نہیں تھے۔
سفر جو افریقہ سے شروع ہوا تھا وسطی ایشیا میں تقسیم ہوا اب آخری براعظم تک پہنچ گیا۔ ہزاروں سال تک یہ لوگ مشکل حالات تک سفر کرتے رہے اور اب لوگوں کی اس برانچ کو ایک وطن مل گیا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn