Qalamkar Website Header Image

سپنسر ویلز: ہمارے اجداد بہت سخت لوگ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور عزت دینے والا ہے
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو۔
القران (49:13)
ویڈیو پیشکش: ولید ہیگینز

ہم اس خیال سے بہت مختلف نظر آتے ہیں جو پرانے وقتوں میں ناممکن لگتا تھا۔ اس پر یقین کرنا مشکل ہے کہ چھے ارب انسان ایک ہی آباو اجداد سے تعلق رکھتے ہیں۔ ابھی تک دنیا کے تین عظیم مزاہب عیسائیت، اسلام اور یہودیت ایک انسان پر یقین رکھتے ہیں۔ جو سب کا باپ ہے۔ اس وجہ سے آدم آدھی دنیا کے لوگوں کے ایمان کی اہم شخصیت ہیں۔
اب سائنس جینیٹک آدم تلاش کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ ایک واحد بزرگ جس کا ڈین اے انٹارکٹا کے قدیم قبیلوں سے لے کر ایمازون کے ایمرینڈینز تک، صحرا کے آدمی سے لے کر وال سٹریٹ کے تاجر تک آج زمین پر زندہ رہنے والے تمام انسانوں میں ایک آدمی کا ڈی این اے موجود ہے۔
سپنسر ویلز نیشنل جیوگرافی کے ایک ماہر جینیات سائینسی آدم تلاش کرنے کے سفر میں ہماری رہنمائی کریں گے اور انکشاف کریں گے جو اسے اتنا اہم بناتا ہے کہ وہ زمین پر موجود تمام انسانوں کا باپ بن سکا۔
لیکن آپ کئی نسلوں پرانی اس کڑی کو کیسے جوڑئیں گے۔ ایک ایسی کڑی جو انسانی خاندان کے درخت کی جڑوں کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ ہمارے زیادہ تر ڈی این اے ہمارے تمام اباو اجداد سے گڈ مڈ ہے۔ یہ ہم سب کو منفرد بناتا ہے لیکن کچھ حصے وائے کروموسوم ڈی این کا وہ سپیشل حصہ جو صرف مرد رکھتے ہیں۔ یہ خاندانی نام کی طرح باپ سے بیٹے میں بغیر تبدیل ہوئے منتقل ہوتا ہے جہاں یہ تقریباً مستقل رہتے ہیں ۔
وائے کروموسوم آج کے انسانوں کو ماضی کے انسانوں کے ساتھ جوڑتا ہے۔ ڈی این اے کا یہ چھوٹا سا حصہ ہمیں انسانیت کی تاریخ میں پیچھے جانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ان دنوں ہم ڈی این کا استعمال یہ جاننے کے لیے کرتے ہیں کہ کون سا شخص کس بچے کا بائیولوجیکل باپ ہے۔ کیا یہ آج موجودہ اربوں لوگوں کو واپس ایک بزرگ کے ساتھ جوڑ سکتا ہے؟ ویلز کا ماننا ہے کہ اس کا جواب ہاں ہے۔ وائے کروموسوم آج کے انسانوں کو ان کے مشترکہ اباوجداد سے جوڑتا ہے۔ وائے کروموسوم ساری دنیا میں موجود انسانوں کے ماخز کو تلاش کر سکتا ہے۔

اہم بات یہ کہ سب سے بڑے بزرگ کو تلاش کیا جائے۔ ایک ایسا انسان جس نے اپنے جینیٹک نقشوں کے اثرات بے شمار لوگوں پر چھوڑے۔ شاخوں کے سرے کی طرح ہے، درخت کی وسیع شاخیں ایک انسان پر آ کر ملتی ہیں۔ ماہر جینیات اسے اس قدر پیچھے تلاش کر سکتے ہیں کہ وہ آخری سب سے بڑے بزرگ تک پہنچ جائیں جو کہ سائینسی آدم یے۔

ہماری تلاش ایک ایسی غیر متوقع جگہ سے شروع ہوتی ہے جہاں کے سب کے بڑے بزرگ نے اپنا ڈی این اے لاکھوں لوگوں تک پہنچا۔ اس نے اپنے پیچھے ایک وسیع روایت چھوڑی ہے۔ ویلز کہتا ہے کہ ہم سان فراسسکو کے ایک بار سے اسے تلاش کرنے کا آغاز کریں گے۔

“بے ویو بوٹ کلب ” مینگولین تارکین وطن کے ایک گروپ کی پینے کی جگہ ہے۔ یہ آدمی اشتعال انگیز قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ ان کا تعلق عظیم مینگول بادشاہ چنگیز خان سے ہے۔

سپنسر: منگولیا میں رہنے والے کتنے لوگ مکمل طور پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کا تعلق چنگیز خان سے ہے؟

منگولین شخص: ہر ایک آدمی۔ بلکہ منگولیا میں رہنے والے دس ملین لوگ خود کو چنگیز خان سے جوڑتے ہیں۔

یہ خلاف عقل لگتا ہٍے۔ مینگولیا میں تمام لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انکا تعلق چنگیز خان سے ہے جیسے امریکہ میں لوگ اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ ان کا تعلق جارج وشنگٹن کے خاندان سے ہے۔ کیا ان کے اس دعوی میں کوئی سچائی ہے کہ ان کا تعلق نسلوں پرانے ایک ہی بزرگ سے ہے؟ آدم کی طرف سفر پر یہ ہمارا پہلا قدم ہے۔

سپنر: کیا تم لوگ یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہو کہ تمہارا تعلق چنگیز خان سے ہو سکتا ہے؟

مینگولین شخص: ہاں۔ شروع کرتے ہیں۔

تمام لوگوں کو ایک برش دیا جاتا ہے جس کو انہوں نے اپنے منہ کے اندر صاف کرنے کی طرز پر گھومانا ہے۔ چند بار گھمانے سے ویلز ہمارے جینیاتی ماضی کے راز کو افشاں کر دے گا۔ ایک بار گھمانے سے ویلز کو یہ پتا چل جائے گا کہ آٹھ ہزار سال پہلے اور ہزاروں میل دور منگول جنگجو سے ان کا کوئی تعلق ہے۔

چنگیز خان تاریخ عالم کی ایک عظیم شخصیت ہے۔ آٹھ صدیاں پہلے اس نے دنیا کی سب سے بڑی سلطنت پر حکمرانی کی تھی۔ سان فراسسکو کی بار میں موجود لوگوں کا تعلق اس غیر معمولی انسان کے ساتھ ہونے کے کتنے امکانات ہیں۔

اس کا تجزیہ مشین مینگولی ڈی این اے کی تحقیق کر کے بتائے گی۔ اس کو ایسے وائے کروموسومز کی تلاش ہے جو ان کو چنگیز خان سے جوڑے۔

اس تعلق کو تلاش کرنا غیر حقیقی لگ رہا ہے۔ ویلز کے پاس کچھ حیران کر دینے والی خبر ہے۔ اس نے یہ ثبوت حاصل کر لیے ہیں کہ ان میں سے دو لوگوں کو تعلق چنگیز خان سے ہے۔ اس طرح ویلز کو کیسے پتا چلا کہ ان کا تعلق چنگیز خاں سے ہے؟ وہ ان کو پہلے کبھی نہیں ملا۔ اس کے پاس ان کا شجرہ نسب بھی نہیں ہے اور نہ اس کے پاس چنگیز خان کا ڈی این اے ہے لیکن ویلز کو یقین ہے کئ وائے کروموسوم اس تعلق کی تصدیق کر سکتا ہے۔


زیادہ تر وائے کروموسوم بغیر تبدیل ہوئے باپ سے بیٹے میں منتقل ہو جاتا ہے جیسے خاندان کا آخری نام، لیکن بعض اوقات کچھ فرق آ جاتا ہے۔ جس طرح خاندان کے نام کے سپیلنگ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ اکثر اوقات ایک آدمی کے وائے کرومسومز میں موجود ہارمونز میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ جس کا اثر اس کے تمام بیٹوں پر پڑتا ہے اور وہ برینڈ کی طرح پھیل جاتا ہے۔ اس بنیاد پر ویلز نے دریافت کیا کہ سولہ ملین لوگ آپس میں کزنز ہیں۔ ان کے ہارمونز ایک ہی انسان سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ ان کا تعلق ایک ہی آدمی سے ہے۔ جو کہ وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والا بزرگ تھا۔ وہ کون تھا، ویلز اور دوسرے ماہر جینیات نے کچھ شواہد کو اکٹھا کیا ہے۔ ایک جگہ منگولیا میں تبدیل ہوتے ہارمونز کا جھرمٹ تلاش کیا گیا جس کے تعلق منگولیا سے ہے اور وہ ہزار سال پرانا ہے۔

سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ وہ بہت طاقتور انسان ہو گا اور خاندان کو بڑھانے کے لیے اس کے بہت سے بیٹے تھے۔ تمام شواہد ایک آدمی سے ملتے ہیں جس کا نام چنگیز خان ہے۔ قرائنی ثبوت اس بات کو ماننے پر مجبور کرتے ہیں۔ خان کی حکومت قازقستان سے کوریا تک پھیلی ہوئی تھی۔ وہ ایک ایسے بادشاہی سلسلے کا آغاز کر گیا جو کئی نسلوں تک جاری رہی۔ اس کے بیٹوں اور ان کے بیٹوں میں اس کے وائے کرومسومز پھیلانے کی طاقت موجود تھی۔ جب اس کی فوج مشرق وسطی پر حملہ آور ہوئی تو انہوں نے اپنے دشمنوں کو کاٹ دیا اوراکثر ان کی عورتوں کو اٹھا کر ساتھ لے جاتے تھے

چنگیز خان کے وائے کروموسوم اور دوسرے لوگوں کے ڈی این اے اس کے ساتھ کسی نامعلوم قبر میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو گئے۔ لیکن اس کے وائے کروموسوم میں ہونے والی تبدیلی اب تک اس کی آنے والی نسلوں میں موجود ہے۔

تحقیق بتاتی ہے کہ وائے کرومسومز سینکڑوں سال پیچھے لے جاتے ہیں لیکن سائینسی آدم کو تلاش کرنے کے لیے ہمیں ایسے انسان کو تلاش کرنا ہو جو لاکھوں لوگوں کا نہیں بلکہ اربوں لوگوں کا باپ ہے۔ جیسے ہی لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں تو وہ اکثر اس جگہ سے بہت دور چلے جاتے ہیں جہاں سے ان کی نسل کا آغاز ہوتا ہے۔ ہمارا خاندانی درخت اوپر والے حصے میں الجھا ہوا ہے۔

خاندانی لکیروں کو تلاش کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ ان الجھنوں سے بچنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ ان لوگوں کے وائے کرومسومز کی تحقیق کی جائے جو ابھی تک اپنے اباو اجداد کے علاقوں میں رہ رہے ہیں۔ ہمارے خاندانی درخت کی اصلی تصویر جاننے کے لیے ویلز نیشنل جیوگرافک سوسائٹی اور ای بی ایم کے ساتھ مل کر ایک ریسرچ پراجیکٹ کر رہا ہے۔ یہ جینوگرافک پراجیکٹ کہلاتا ہے۔ یہ بہت بڑا کام ہے۔ اس کے لیے کئی سال لگیں گے۔ جب اس نے مکمل کر لیا تو ویلز یہ بتانے کے قابل ہو جائے گا کہ کوئی بھی شخص دنیا کے کس خطے سے آیا ہے۔ ویلز اور اس کے ساتھیوں نے سارے کرہ ارض پر ڈی این اے کے نمونے حاصل کرنے کے لیے سفر کیا۔ آسٹریلیا کے ابریجنیز سے لے کر ساوتھ امریکہ کے قبائل تک انہوں نے وسطی ایشیا سے جنوبی افریقہ اور ہھر سائبیریا کا سفر کیا۔ اسی تکنیک کے ساتھ جو چنگیز خان کے لیے استعمال کی تھی ویلز نے اس ہارمونی تبدیلی کو ایک اور اہم مشترکہ بزرگ سے جوڑا ہے۔ وہ ایمنائل کے نام سے جانا جاتا ہے جو چالیس ہزار سال پہلے کے دور سے تعلق رکھتا ہے۔ ویلز کی ریسرچ کے مطابق وہ شخص موجودہ آدھی دنیا میں زندہ انسانوں کا بزرگ ہو سکتا ہے۔ ہم آدم کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ لیکن ویلز جانتا ہے کہ کچھ لوگوں میں ایمنائل ہارمونز موجود نہیں ہیں۔ تمام انسانوں کے ایک بزرگ کو تلاش کرنے کے لیے اس کو درخت کی مزید گہرائی میں جانا ہو گا۔ لیکن وہ اس سے آگے کہاں جائے؟ جنیٹکس کی دنیا سے باہر کچھ نشانیاں ہیں۔ وہ ثبوت جن کو آپ چھو سکتے ہیں۔ ہڈیوں کے ثبوت ہیں۔ ڈی این سے پہلے انسانیت کے ماضی کی تصویر فوسلز سے سامنے آتی تھی۔ وہ تصویر نامکمل ہوتی ہے۔ سب سے قدیم ترین فاسل افریقہ سے ملی جو لاکھوں سال پرانی تھی۔ پرانے زمانے کے لوگوں کی بقایات اس سے دور اور جگہوں پر بھی ملی ہیں۔ مشرق وسطی میں ابتدائی انسانوں کے فوسلز ملے ہیں۔ انسانوں سے پہلے کی فاقیات ایشیا سے ملی ہے۔ فوسلز شواہدات کے مطابق تین جگہیں انسانیت کی جائے پیدائش ہو سکتی ہیں ایشیا، مشرق وسطی اور افریقہ۔

یہ بھی پڑھئے:  آئیں قلم کار کا حصہ بنیں

کیا ڈی این اے یہ مسئلہ حل کر سکے گا کہ سائینسی آدم کس جگہ پیدا ہوا؟

ویلز ایسی جگہ کی تلاش میں ہے جہاں ان تینوں خطوں کے لوگ آپس میں مل کر رہتے ہیں اس نے کینیا کے ساحل پر ایک چھوٹے جزیرے پاٹے کا رخ کیا۔ ایک پراسرار جگہ جس میں ایسے شواہدات ہیں جو افریقہ میں موجود نہیں ہیں۔ یادگاریں جو اسلامی ہو سکتی یے۔ مزار جو تقریبا چائینیز لگ رہے ہیں۔ لوگوں کے چہروں سے ظاہر ہے کہ یہاں کتنے جینز کا مکسچر ہے۔ کچھ لوگوں کی کھال یورپین جیسی ہے، کچھ عرب ہو سکتے ہیں اور کچھ لوگوں کی آنکھیں ایشین لگتی ہیں۔ کئی سالوں تک یورپ، مشرق وسطی بلکہ ہو سکتا ہے چائنا اور دنیا کے تمام ممالک کے لوگ یہاں آتے تھے۔

تاریخ نے جینیٹک میلٹنگ پارٹ تخلیق کیا ہے۔

ویلز: تمہارے ڈی این اے اور جینز کا سیمپل لے کر ہم ان لوگوں کے بارے میں کچھ کہہ سکیں گے جن کا آپ سے تعلق ہے مطلب آپ کے آباواجداد۔

اگر یہاں تمام لوگوں کا ڈی این اےایک ہی بزرگ سے ملتا ہے تو وہ آدم ہو سکتا۔ ویلز نے یہاں پچیس مقامی لوگوں کے سیمپلز لیے تھے۔ ڈی این اے نے ثابت کیا کہ پاتے کے ان آدمیوں کا تعلق ایشیا، یورپ، انڈیا، سعودی عرب اور مشرق وسطی کے تمام علاقوں سے ہے۔ پاٹے کے اس چھوٹے سے جزیرے میں جتنی جینز میں تغیر ہے اتنا تو دنیا کے کئی ممالک میں رہنے والوں میں نہیں ہو گا۔ سیمپل سے ایک اور اہم چیز پتا چلی ہے جو نئے سب سے بڑے بزرگ سے ملاتی ہے۔

وائے کرومسوم دنیا کے تمام جگہوں سے آیا ہے لیکن ان سب میں ایک بات مشترک ہے خاص ہارمونز جسے سائنسدان ایم 168 کہتے ہیں۔ غالبا کرہ ارض پر پائے جانے والے تمام لوگوں میں وہ ہارمونز مشترک ہیں۔ جو چنگیز خان، سان فران سسکو کے منگولین اور تھامس جفریسن اور ویلز خود وہی ڈی این اے رکھتا تھا تقریبا تین ارب سے زیاہ لوگوں میں یہ ہارمونز مشترک ہیں۔ جو ایک انسان پر جا کر رکتی ہے۔ یہ حیرت انگیز حقائق ہیں۔ چنگیز خان لاکھوں لوگوں کا بزرگ ہو سکتا ہے لیکن یہ جینز رکھنے والے آدمی کی اولاد اربوں لوگ ہو سکتے ہیں۔ ہم درخت کی تہہ تک پہنچنے کے قریب ہیں۔ یہ آدمی ایم 168 آدم ہو سکتا ہے۔

یہاں صرف ایک مسئلہ ہو سکتا ہے۔ سپنسر ویلز نے کینیا کے جزیرے پر ایک آدمی تلاش کیا ہے جو اس سب میں شامل نہیں ہے۔ اس کےوائے کروموسوم میں تبدیلی نہیں ہوئی۔ یہ بہت اہم اشارہ ہے۔ یہ اکیلا نہیں ہے یہاں اور بھی لوگ ہو سکتے ہیں۔ جو ایم 168 کی نسل سے نہیں ہیں اس لیے یہ آدم ہو سکتا ہے۔ ایم 168 انسانی جینز کے درخت میں کافی نیچے ہے لیکن یہ اس کی بنیاد نہیں ہو سکتا۔ پاٹے جزیرے پر اس ایک آدمی کا وائے کروموسوم ہمارے پزل کا آخری حصہ ہو سکتا ہے۔

اس آدمی کا خاندان جنوبی یا مشرقی افریقہ سے ہے۔ اس آدمی کے وائے کروموسوم کو ہزاروں انسانوں کے ساتھ ملانے سے بہت ہم دریافت ہو سکتی ہے۔ اس تغیر کا تعلق افریقہ میں دریافت ہوا اور یہ دنیا میں موجود تمام لوگوں کے وائے کروموسوم میں نمودار ہوئی۔۔ یہ بین القوامی ہارمونز کا تغیر ہے جس پر ہم کام کر رہے تھے۔۔ ہم نے ڈی این اے کے ٹریل کے تمام راستوں کی درخت کی تہہ تک پیروی کی اور ہر شاخ ایک انسان سے جا کر ملتی ہے۔ ایک وائے کرومسوم سے۔ ۔ یہاں ایک آدمی ہونا چاہیے جس نے موجودہ دنیا تک کے تمام انسانوں کو پیدا کیا ہو۔ وہی آخری اور سب سے بڑا بزرگ ہو گا۔ وہی سائنسی آدم ہو گا۔ اس کی اولادوں میں سے ایک ایم 168 ہو گا۔ وہ تھامس جیفریسن کے قدیم مشرق وسطی کے اباو اجداد کا باپ ہو سکتا ہے۔ ۔ اس نے چنگیز خان کے وائے کرومسومزکو پیدا کیا۔ دراصل دنیا میں پائے جانے تمام انسانعن کا وائے کروموسوم کا تعلق اس ایک افریقی آدمی سے ہے۔ ۔ وہ سائینسی آدم ہے۔

ویلز کا ماننا ہے کہ اس افریقی آدمی کے وائے کروموسوم کے پیٹرن کا تعلق مشرقی افریقہ کی رفت وادی سے ہے جو غالباً تنزانیہ کا علاقہ ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ یہ سائنسی آدم کا گھر ہے۔ اس کی حوا کا باغ۔ ماہر جینیات اس قدیم وائے کروموسوم کے ہارمونز مین ہونے والی تبدیلی کی تاریخ بتا سکتے ہیں۔ جس سے سائینسی آدم کی عمر تلاش کی جا سکتی ہے۔

ویلز کا ماننا ہے کہ وہ ساٹھ ہزار سال پہلے پیدا ہو تھا۔ یہ کافی قدیم لگتا ہے۔ لیکن یہ ہمیں بندر مرد کے زمانے تک نہیں پہچانتا بلکہ ہومو ایریکٹکس کے زمانے تک بھی نہیں پہچانتا۔ اگر اس کا انسانی ارتقائی عمل کے اربوں سال سے تقابل کریں تو ہم آدم کو ماضی قریب میں ہی دریافت کر لیں گے۔ اس بات کی تنقیدی تحقیق یہ بتاتی کہ جب اور جہاں آدم رہتا تھا وہ اس جیسا نظر نہیں آتا تھا۔مشرقی افریقہ میں ایک قبیلہ ہٹزابے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کا ڈی این اے تقریباً سیدھا آدم سے ملتا ہے۔ وہ ہمیں آدم کی دنیا کی ایک جھلک دکھاتے ہیں۔

وائے کروموسوم کا تغیر ہمیں بتاتا ہے کہ سائنسی آدم ساٹھ ہزار پہلے پیدا ہوا۔ یہ انسانی تاریخ کا غیر معمولی دور تھا۔ بحرانوں کا دور۔ سانسدانوں کا ماننا ہے کہ انسان اپنی توسیع کے دہانے پر تھا۔ ساری آبادی چند ہزار سالوں پر مشتمل ہے۔ لیکن تاریخ کے اس لمحے انسان نے حیران کن ترقی حاصل کرنا شروع کی۔ پہلی دفع آرٹ کا نمونہ نمودار ہوا۔ اوزار مزید ترقی یافتہ ہونے لگے۔ اس نئی ترقی اور دریافت نے انسانوں کو اس قابل بنایا کہ وہ اس سیارے کو فتح کر لیں۔ کسی اہم چیز نے انسانی فطرت کو بدل دیا۔ وہ کیا چیز تھی یہ ابھی تک ایک معمہ ہے۔ لیکن یہ ایسا لگتا ہے کہ آدم کے فوراً بعد نمودار ہوا تھا۔ ہزابین ہمارے جیسے ترقی یافتہ ہو سکتے تھے لیکن انہوں نے ایک معاشرے کی حثیت سے دنیا کے ابتدائی جدید انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کو ترجیح دی جو آدم کا طرز زندگی ہو سکتا ہے۔

ہزابے اکٹھے شکار شکارکرتے ہیں۔ اس ماحول میں جینا ایک بہت بڑی چنوتی تھی۔ وہ ایک ایسے علم پر یقین رکھتے تھے۔ جو ویلز کے مطابق آدم نے تخلیق کیا تھا۔ تقریبا آدم کا خاندان خود کو شکار کے لیے تیار کر رہا ہے۔ ہزابے کے لوگوں لوگوں نے مقامی درختوں سے ہتھیار بنانے کا فن حاصل کر رکھا ہے۔ شاخین طاقت ور اور لچکیلی ہیں۔ آگے ان کو سیدھا کر کے تیر کی شکل دیتی دیتی ہے وہ سادہ لگتے ہیں لیکن جب یہ نمودار ہوئے تھے تب یہ انقلابی تھے۔ ہتھیار جو فاصلے سے قتل کرتے تھے وہ انتہائی ملک تھے۔ ہزابین اپنے ہتھیار اٹھا کر شکار کے خلاف وہی کرتے تھے جیسے آدم اور اس کے بیٹے کرتے تھے۔ اپنا ہتھیاراُٹھا کر اس کا سر اپنے شکار کو مارتے تھے۔

یہ بھی پڑھئے:  بول تاکہ پہچانا جائے

ہزابے شکار کے لیے جو طریقہ استعمال کرتے ہیں وہ کسی نا کسی نے ایجاد کیا اور تکمیل کو پہنچایا ہو گا۔ قبیلے کے اندر سے ہی کسی نے پہلے استعمال ہونے والے طریقے سے آگے بڑھنے کا سوچا ہو گا۔ ویلز کا ماننا ہے کہ آدم نے خود سب سے پہلے یہ ذہانت دکھائی ہو گی۔ جدت کی روایت ہماری جنس کی ترقی کا اہم نقطہ ہے۔ ان کے پاس ایک اور اہم مہارت ہے جسے زبان کہتے ہیں۔ ویلز کا ماننا ہے کہ آدم کے پاس یہ قابلیت تھی کہ وہ ایک نئی پچیدہ بولی ایجاد کرے۔ حیران کن طور پر ہزابے ہمیں دکھا سکتے ہیں کہ آدم کیسے بولتا تھا۔

وہ زمین پر دنیا کی قدیم زبانوں میں سے ایک بولتے ہیں۔

ان کی بولی جدید زبانوں سے کہیں زیادہ پچیدہ ہے جو یہ بتاتی ہے کہ یہ یہاں بہت عرصہ سے ہے۔ انگلش زبان کی تیس مختلف آوازیں ہیں لیکن ان کی زبان کی سو سے زیادہ آوازیں ہیں۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ جب انسانوں نے بولنا شروع کیا ہو گا۔ تو انہوں نے ایسی آوازوں کا استعمال کیا ہو گا۔ ہو سکتا ہے ہم ان کو سنتے ہوئے خود آدم کو سن رہے ہوں۔

میریٹ رہلین۔ ماہر لسنیات سٹینفرڈ یونیورسٹی: بش خاندان واحد خاندان ہے جس کے پاس یہ آوازیں ہیں جو دنیا میں کسی اور قبیلے کے پاس نہیں ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جو بش زبان کو دنیا کی باقی تمام زبانوں سے منفرد بناتی ہے۔ ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ غالبا یہ آوازیں دنیا کی تمام زبانوں میں پائی جانے والی آوازوں کی اجداد ہیں۔ جن میں ایک غالبا افریقہ میں گم ہو گئی۔ پھر وہ گروہ جن کی یہ زبان تھی وہ افریقہ چھوڑ کر پوری دنیا میں پھیل گئے

رچرڈ کلائیین۔ ماہر بشریات سٹینفرڈ یونیورسٹی: پھر ہر آؑثار قدیمہ کے نظریے کے مطابق جیسا کہ آرٹ کے تخلیق کرنے والے ہیں ہڈیاں، ہاتھی کے دانت اورکھال کو مزہبی رسومات اور آداب کے مطابق دفن کرتے تھے۔

ماہر آثار قدیمہ کے مطابق ہر پچاس ہزار سال بعد یہ تخلیقی صلاحیتیاں نمودار ہوتی ہیں جن میں رویوں کا فرق ہو گا۔ جو مستحکم ہوں گی اور اسی طرح کلچر آگے بڑھے گا۔

پھر کچھ ہوا اور ان میں سے ایک چھوٹا سا گروہ افریقہ چھوڑ کر ایک نا معلوم دنیا کی طرف سفر کو نکلا۔ آپ ان کے بچوں میں سے ہیں۔

سپنسر ویلز:سنیں میں آپ سے سچ کہوں گا۔ مجھے ایک مسئلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ میں نے دس سال اس سفر کی تفصیل کا جائزہ لینے اور اسکی دوبارہ تصدیق کرنے میں گزارے ہیں۔ مجھے اس رزلٹ پر مکمل اندرونی یقین ہے۔ لیکن میں کہنا چاہوں گا کہ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو نا ممکن ہے۔

اگر ہمارے اباو اجداد نے سفر کیا ہے جو ہم مانتے ہیں کہ کیا ہے تو وہ سب سے بڑے انسان ہوں گے۔ دنیا کو فتح کرنے کے لیے جس رفتار، طاقت اور عزم کی ضرورت تھی وہ تھا عقیدے سے انحراف کرنا۔ جو ابھی تک ہمارے خون میں موجود ہے۔

لیکن اس سے مجھے یہ نہیں پتا چلا کہ انہوں نے افریقہ کیوں چھوڑا، کیا وہ نکال دیے گئے تھے یا انہوں نے نئے شوق تلاش کر لیے تھے؟

اس کا جواب آٹھ سو میل دور جنوبی افریقہ کے ساحل پر ہو سکتا ہے۔

یہ پراسرار ماضی کی غار ہے۔ سالوں پہلے یہ انسانوں کی جائے پناہ تھی جو یقینی طور پر تباہ ہو گئی تھی۔ کیوں ہوئی یہ میں نے یونیورسٹی آف کیپ ٹاون کے ایک ماہر آثار قدیمہ روبن ییٹس سے کہا کہ وہ مجھے اس کے بارے میں سمجھائے۔

روبن ییٹس: یہ ایک جبڑا ہے۔ اس میں اہم تھوڑی کا ہونا ہے۔ جو موجودہ انسانوں سے مختلف نہیں ہے۔

سپمنسر ویلز: جو ہمیں پراسرار مر گٰئی چیزوں کے بارے میں بتاتا ہے۔

روبن ییٹس: اب ہم اگر اس کو دوسری طرح دیکھیں تو آپ ٹکڑوں میں تقسیم بلیڈ دیکھیں گے اور یہ کیلوں کی طرح چھیلے ہوئے تھے۔ پھر آپ دیکھیں گے ان کو نوک کی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ ان کے نمونے ہیں۔ یہ سوچتے ہیں کہ پتھر کے زمانے کے لوگ پچاس ہزارسال پہلے کوئی چھت نہیں رکھتے تھے۔ کچھ نا کچھ یقینا یہاں ہوا تھا۔

پچاس ہزار سال پہلے، یہ کافی جانا پہچانا نہیں لگ رہا ہے؟ کن وجوہات کی بنا پر یہ لوگ نست و نابود ہو گئے تھے؟ رچرڈ کلائین مانتا ہے کہ بنی نوع انسان کا بالکل زندہ رہنا ایک معجزہ ہے۔

رچرڈ کلائین: سولہ سے تیس ہزار سال کے عرصے کے دوران والی تاریخ کے آثار قدیمہ کی جگہ تلاش کرنا کافی مشکل کام ہے۔ جانور تباہ ہو گئے اور انسانوں نے بھی اس کی پیروی کی۔ سولہ ہزار سے تیس ہزار سال تک کی تاریخ میں آثار قدیمہ کی مدد سے جنوبی افریقہ میں آبادی کے ثبوت ملتےہیں۔

جولیا تھورپ کیپ ٹاون یونیورسٹی میں موسمیاتی تبدیلی کی ماہر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح عجیب و غریب طریقے سے خشکی نے سطح سمندر کو کم کیا اور غار کو اونچا اور خشک چھوڑ دیا۔

جولیا تھورپ: بہتر ہزار سال پہلے درجہ حرات بہت تیزی سے کم ہوا اور اس موقع پر سمندر بہت تیزی سے اس مقام سے پیچھے ہٹنا شروع ہو گیا۔ تو یہ مقام مختلف قسم کی جگہوں میں تبدیل ہو گیا۔

سپنسر ویلز: یہ تبدیلیاں کس قسم کی تھیں؟

جولیا تھورپ: سمندر پیچھے ہٹتا گیا یہاں تک کے چالیس کلومیٹر تک پیچھے ہٹا۔ پھر یہ رہنے کی جگہ بن گیا۔ یہاں جو بیٹھنے کی جگہیں آج آپ کو نظر آ رہی ہیں وہ سمندری خواراک کے ڈھیر تھے۔ جو بیالیس کلومیٹر دور یہاں لانا ممکن نہیں تھا۔

سپنسر ویلز: ان موسمی تبدیلیوں کے کیا ثبوت ہی؟

جولیا تھورپ: ہمارے پاس سمندر کے نیچے مقامات کے حوالے سے ثبوت نہیں ہیں۔ کم از کم براہ راست ثبوت نہیں ہیں۔ لیکن ہمارے پاس طویل المدتی عالمی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بہت سے ثبوت ہیں۔ جسے ہم نے بہت لمبے جنوبی افریقہ کے میرین ساحل اور دنیا کے دیگر ساحلوں سے اکٹھا کر کے حاصل کیا۔ ہم ریت کے ان ذروں جتنی چھوٹی مخلوق سے معلومات حاصل کرتے ہیں جو بہت زیادہ چھوٹی ہیں۔ یہ ریت کے زروں جتنی چھوٹی مخلوق میں بہت سی معلومات پوشیدہ ہیں۔ ہم اس سے آکسیجن اور کاربن آئیسوٹاپس کو ماپ سکتے ہیں۔ جو ہمیں بتاتی ہے کہ سینکڑوں ہزاروں سال پرانے دور میں سطح سمندر پر کیا ہو رہا تھا اور جنوبی اور شمال قطب پر کیا ہو رہا تھا۔

ستر سے پچاس ہزار سال پہلے برف کی چوٹیاں بڑھتی جا رہی تھیں۔ ہم بین القوامی تباہی کی بات کر رہے ہیں جو یادگار موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ دنیا برف کے زمانے کی پکڑ میں تھی۔ پولیرائز شیٹ جنوب کی طرف بڑھتی جا رہی تھی جو دنیا کی بہت ساری برفی نمی کو روک رہی تھی۔ افریقہ میں صحرا بڑھنے لگے اور ہر طرف سطح سمندر کم ہونے لگی جس سے جنوبی افریقہ کے ساحلوں پر غاریں اونچی اور خشک ہونے لگیں۔

زمین پر سر سبز و شاداب چراگاہیں صحراوں میں بدلنے لگیں اور شکار کرنا مشکل ہوتا گیا۔ شکاری جنہیں پہلے شکار آسانی سے مل جاتا تھا اب شدت سے خوراک کی تلاش میں بھٹک رہے تھے۔ دنیا تباہی کے دہانے پر تھی۔ لیکن معجزانہ طور پر کسی نے اس میں زندگی پھینک دی۔ اب چھوٹے چھوٹے لوگوں نے وہ ناممکن بات سوچی اور انہوں نے افریقہ کو ہمیشہ کے لیےچھوڑ دیا۔ آنے والے انسان افریقہ چھوڑ کر کہاں رہے، مشرق وسطی، یورپ، انڈیا؟
نہیں یہ آسٹریلیا چلے گئے۔


حالیہ بلاگ پوسٹس