Qalamkar Website Header Image

پاکستان پر حملہ کی سازش میں تیسرا کون؟

دفاعی امور کے عالمی سطح پر مانے ہوئے نامور ماہراور مشہور صحافی رابرٹ فسک کی رپورٹ عالمی میڈیا میں پرنٹ ہوئی ہے، انہوں نے نام لئے بغیر ایک سپر پاور کا ذکر کیا ہے جو بالا کوٹ آزاد کشمیر پر حملہ کرنے میں بھارت اور اسرائیل کے ساتھ شامل تھا۔
سوشل میڈیا پر کچھ احمق اور جذباتی و متعصب لوگوں نے سوچے سمجھے بغیر تیسرے ملک کے طور پر ایران اور سعودیہ کو ملوث کرنا شروع کر دیا ہے اور خصوصاََپاکستانی شیعوں کو گالیاں دی جا رہی ہیں اور غداری کے فتوے لگا رہے ہیں۔ حالانکہ ایران یا سعودیہ وغیرہ تو سپر پاور ہونے کے سٹینڈرڈ میں لفظ "س” کے ساتھ بھی کھڑے نہیں ہو سکتے چہ جائیکہ ہم انہیں سپر پاور قرار دیں۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ اس اصلی سپر پاور کو ڈھونڈا جا سکے۔

فی الزمانہ دنیا میں 5 ہی مسلمہ سپر پاور ہیں جو اس اسٹیٹس کے ساتھ ساتھ ایسی سیاسی و عسکری حیثیت بھی رکھتی ہیں کہ تیسری دنیا کے اس طرح کے معاملات میں دخل دے سکیں، ان سپر پاور ممالک میں چین، روس، برطانیہ، فرانس اور امریکہ شامل ہیں۔ سب سے پہلے چین کو ہی لے لیتے ہیں۔ جو پاکستان کا بہترین دوست ہے اور انڈیا کے ساتھ اس کی پرانی کھٹ پھٹ بھی چل رہی ہے، ویسے بھی چین ماضی میں یہ اعلان کر چکا ہے کہ پاکستان پر حملہ چین پر حملہ تصور کیا جائے گا اور وہ پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ اس لئے اس کو اس مشکوک فہرست سے خارج کر دیتے ہیں۔

روس بھی اس لئے نہیں ہو سکتا کہ اس کی ساری توجہ مڈل ایسٹ پر مرکوز ہے اور وہ پاکستان و چین کے ساتھ نیا محاذ نہیں کھول سکتا۔ برطانیہ اس وقت بریگزٹ معاملہ میں بہت پریشان ہے۔ اس کے ویسے بھی پاکستان کے ساتھ ایسے اختلافات نہیں کہ وہ حملہ ہی کر دے یا اس میں مدد دے۔ اگر اسے پاکستان پر ایسا حملہ کرنا ہوتا تو وہ 7/7 حملوں کے بعد یہ حملہ کرتا جس میں کچھ پاکستانی نژاد برطانوی ملوث تھے۔

اب آتے ہیں فرانس کی طرف۔ اس وقت فرانس اور انڈیا میں رافیل طیاروں کی ایک بڑی ڈیل چل رہی ہے جس کے تحت فرانس نے انڈیا کو سینکڑوں رافیل طیارے دینے ہیں جو انتہائی مہنگے بھی ہیں اور کارکردگی میں ایف 16سے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔ فرانس نے اس ڈیل کو فائنل کرنے کے لئے مشہور بھارتی سرمایہ کار نتن امبانی کو اپنا نمائندہ بنایا ہوا ہے جو بھارتی وزیر اعظم نریندر سنگھ مودی کا خاص الخاص یار ہے اور مودی کو الیکشن لڑنے کے لئے ہمیشہ سے فنڈنگ کرتا رہا ہے۔ انڈین اپوزیشن الزام لگا رہی ہے کہ رافیل طیاروں کی اس ڈیل میں امبانی کو کروڑوں ڈالر یا بھارتی 30 ہزار کروڑ روپے کا خالص نفع ہونا ہے۔ اس لئے امبانی کو فائدہ دینے کے لئے رافیل طیارے اصل سے کہیں زیادہ قیمت پر خریدے جا رہے ہیں اور اس میں بھاری کک بیکس بھی شامل ہیں۔ بھارتی پارلیمنٹ میں ان الزامات کی بازگشت کے بعد بہت زوردار بحث ہوئی جس پر اس کی خریداری مؤخر ہو گئی اور اس کا فیصلہ اگلی حکومت پر چھوڑ دیا گیا۔ کچھ انڈین صحافی کہتے ہیں کہ رافیل طیاروں کی خریداری کے معاملہ میں تیزی لانے کے لئے انڈین حکومت نے جان بوجھ کر MiG اور میراج طیاروں سے حملہ کروایا تاکہ ایک تو اس سے اپنے ووٹروں کو پاکستان پر حملہ کرنے کی خوشی دے کر ان کی ہمدردی بٹوری جائے اور جب یہ حملہ ناکام ہو تو کہا جائے کہ اگر رافیل طیارے ہوتے تو نتیجہ کچھ اور ہوتا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر سنگھ مودی نے بھی من و عن یہی بیان دیا ہے کہ اگر رافیل طیارے ہوتے تو سرجیکل سٹرائیک کا نتیجہ کچھ اور ہوتا۔ اس تناظر میں انڈیا اور اسرائیل کے ساتھ فرانس بھی ملوث ہو سکتا ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ پاکستانی ریڈار سسٹم کی فعالیت کا جائزہ لینے کے لئے اس مشن میں شامل ہوا ہو۔ پاکستان میں زمینی ریڈار سسٹم کے علاوہ اواکس طیاروں میں بھی ریڈار سسٹم نصب ہے۔ ان 8 اواکس طیاروں میں سے 4 سویڈن ساختہ ہیں اور 4 چینی ساختہ۔ زمینی ریڈار سسٹم تو جام کیا جا سکتا ہے، سویڈن طیاروں میں نصب ریڈار سسٹم کو جام کرنے کی آپشن بھی فرانس اور انڈیا کسی طرح سویڈن سے نکلوا سکتے ہیں مگر چین سے یہ معلومات لینا بہت مشکل تھا۔ اس لئے ہو سکتا ہے کہ فرانس اور انڈیا نے پاکستانی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جب میراج اور MiG طیارے پاکستان میں ریڈار جیمرز کے ساتھ داخل کئے ہوں تو ان کی یہ توقع ہو کہ پاکستان اپنے اواکس طیاروں سے مداخلت کرے گا مگر ہوا یہ کہ پاکستان کا زمینی ریڈار سسٹم تو جام ہو گیا مگر پاکستان نے اواکس طیاروں کو پرواز ہی نہیں کروایا بلکہ جے ایف 17 تھنڈر سے انڈین طیاروں کو مار بھگایا جوایف 16 طیاروں کی جدید ترین شکل ہیں اور پاکستان میں ہی تیار ہوتے ہیں۔ فرانسیسی رافیل طیاروں کی ڈیل کروانے کے لئے بےچینی واضح ہے اور اس بڑے پیمانے کی ڈیل کے لئے فرانس کی شمولیت کے امکان کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

یہ بھی پڑھئے:  مولانا فضل الرحمن (بشمول اپوزیشن) بمقابلہ بوکھلائی، گبھرائی تحریک انصاف حکومت

اب اس فہرست میں واحد سپر پاور کا نام بچتا ہے جسے امریکہ کہتے ہیں جو اسرائیل کا مربی بھی ہے تو انڈیا پر مہربان بھی ہے۔ جس کا صدر ٹرمپ جنونی بھی ہے اور دوسرے جنونی مودی کا یار بھی ہے۔ مزید عرض یہ ہے کہ افغانستان میں نیٹو اور امریکی فوج کے انخلاء کے باوجود نیٹو کا Resolute Support Mission وہاں موجود رہے گا۔ جس کا کام افغان نیشنل آرمی کی لاجسٹک سپورٹ مدد اور رہنمائی ہے۔ جبکہ نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد بھی جو ہمیں اکثر ڈرون حملوں کی خبریں ملتی ہیں، وہ اسی مشن کی سربراہی میں انجام دئے جاتے ہیں۔ اس مشن میں 13 ہزار فوجی شامل ہیں جن کا تعلق نیٹو میں شامل مختلف ممبر ممالک سے ہے۔ لہذا بھارت اور اسرائیل کے ساتھ تیسرا ملک کون ہوسکتا ہے، اس کا جواب دینا اتنا مشکل نہیں ہونا چاہئے۔ جو امریکہ افغانستان میں موجود اپنے ریزولیوٹ مشن کے ذریعہ پاک افغان بارڈر یا پاک ایران بارڈر پر ڈرون حملے کر سکتا ہے، وہ مشن بھارت، اسرائیل کے ساتھ مل کر پاکستان میں کسی مہم جوئی کا منصوبہ بھی بنا سکتا ہے۔

بھارتی طیاروں کی تباہی اور پائلٹ کی گرفتاری کی فوراََ بعد ڈونلڈ ٹرمپ کا انتہائی سرعت کے ساتھ مداخلت کرنا اور یہ کہنا کہ "پاکستان اور انڈیا سے اچھی خبریں آرہی ہیں” کافی کچھ واضح کردیتا ہے کہ یہ تیسرا ملک کون تھا۔ البتہ پاکستان کا تیسرے ملک کا نام نہ لینا بہرحال بہتر طرزِ عمل ہے، کیوں کہ دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بَیر نہیں لیا جاسکتا۔ اور ویسے بھی موجودہ صورتحال اس کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ ہم براہ راست امریکہ کا نام لے کر خود کو بیک وقت کئی محاذوں پر الجھا لیں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس