. اور یوں محب وطن ہونے کی ذمہ داری سے فارغ ہو مطمئن ہوکر یاجوج ماجوج کی طرح ہمیشہ ادھورے رہ جانے والے کام مزید بگاڑنے کے مشن لاحاصل پر جت گئی۔
ہائے پھر شام ہونے والی ہے
دھند اور دھول،دونوں مل جل کر
بادلوں جیسا روپ دھارے ہیں
تھک گئے بوجھ ڈھوتے ڈھوتے ہم
گتھیاں الجھنوں کی سلجھاتے
راستے لمبے ہوتے جاتے ہیں
شانے بھی جھک چلے ہیں اب اپنے
اور کام ہیں کہ
سب کام یونہی بکھرے ہیں
بینک والوں سے کچھ ضروری کام پڑ گیا تھا اس لیے مجبورا ان کا تھڑا چڑھی ورنہ بینکرز کی اگاڑی اور پچھاڑی (نہایت معذرت کیساتھ ) سے بچ کر چلنے کی ہر ممکن کوشش رہتی ہے ۔ وہاں خوشخبری سنی کہ صبح مانگی دعاوں میں سے most important والی پر عمل شروع ہوگیا ہے اور مظفر آباد کے قریب دو ہندوستانی جنگی جہاز مار گرائے گئے ۔کچھ ایسا جوش اور ولولہ عوام الناس اور خاص میں دیکھنے کو ملا جیسا ہمسایہ سے ورلڈ کپ چھین کر دیکھا تھا ۔
گھر پہنچتے ہی سوشل میڈیا کی دنیا کا بٹن دبایا اور موجود سے لاتعلق ہوکر لامحدود میں کھوگئی ۔
ایک فارورڈد میسج کوئی دس ایک احباب کی طرف سے ملا تھا جس میں ایٹم بم سر پر برسنے کی صورت میں بچاو کی ترکیبیں بتائی گئی تھیں ۔ ہائے ہائے نہ بنایا تہہ خانہ گھر میں میاں صاحب نے، لاکھ میرے کہنے کے باوجود (وہ بیچارے بھی کیا کرتے برادران یوسف نے بچپن میں تہہ خانے میں رہنے والی چڑیلوں ڈائنوں بھوتوں والی ڈراونی فلموں سے ایسا ایسا ڈرا رکھا تھا کہ آج تک تہہ خانے کا خوف نہ نکلا) ورنہ آج کم ازکم ایٹم بم سے بچاو کا انتظام تو ہوتا خیر اللہ مالک ہے چلو اب کیا ہوسکتا ہے۔!
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn