اختر رضا سلیمیؔ ہری پور کے رہنے والے شاعر نقاد اور ادیب ہیں۔ ان کی وجہ شہرت ان کی شاعری ہے لیکن میرا ان سے تعارف جندر کی وجہ سے ہوا تھا۔ جندر کی جب سے تعریف سنی تھی اس کو پڑھنے کا اشتیاق جاگ اٹھا تھا لیکن یہ ایسا شاندار ناول ہو گا مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا۔ سانجھ والوں سے لینے تو کچھ اور ناول گیا تھا جو ملے نہیں تھے لیکن نکلتے نکلتے پیچھے سے انہوں نے آواز دے کر بتایا کہ ان کے پاس جندر آیا ہوا ہے اگر لینا چاہو تو۔ پھر کیا تھا جندر خریدا اور ان کو ڈھیر ساری دعائیں دیتے ہوئے باہر نکل آیا۔
جب ناول شروع کیا تو پہلا صفحہ پڑھتے ہی ایسا جاندار آغاز محسوس ہوا جو بہت عرصے بعد پڑھنے کو ملا تھا۔ جندر ایک معدوم ہوتی تہزیب کی کہانی ہے۔ ایک ایسی خوبصورت کہانی جس نے یقیناً اردو ادب کا مان بڑھایا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر یہ انگلش میں یا کہیں کسی اور زبان میں لکھی جاتی تو اب تک بڑے انعامات سمیٹ چکی ہوتی۔ مجھے اس ناول نے بے حد متاثر کیا ہے۔ ناولٹ میں جو تھوڑے بہت میں میں نے پڑھے ہیں اس سے پہلے مجھے بس عبداللہ حسین کے ناولٹ قید نے یوں متاثر کیا تھا۔ آئیوندرچ کا ناول ”درینہ کا پل“ بھی اسی طرز کا ناول ہے جسے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ اس میں سائبریا میں بننے والے ایک پل کے اردگرد بسنے والے لوگوں کی بدلتی زندگیوں کا احوال ہے۔
جندر کیا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے آپ کا اس تہزیب سے تعلق ہونا یا اس سے تعارف ہونا بہت ضروری ہے جس میں جندر چلتا تھا۔ جندر آٹا پیسنے والی چکی ہے۔ آپ اسے پن چکی بھی کہہ سکتے ہیں۔ جس نے پن چکی دیکھی اور ہاتھ سے آٹا پیسنے والی چکی کی آواز سن رکھی ہے۔ وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس وقت جب چکی میں گندم ڈال کر یا خالی چلایا جاتا ہے تو اس میں کیسی آوازیں پیدا ہوتی ہیں۔ تب آپ یقیناً جندر سے جڑے ناول کے مرکزی کردار ولی خان کے احساسات کو سمجھ سکیں گے۔
یہ کہانی پوٹھوہار کے پہاڑوں پر بسنے والے گاوں سے تقریباً ایک میل دور لگے جندر کی ہے جو دو سو سال پہلے ولی خان کے دادا کے دادا نے بنایا تھا۔ ولی خان کو وہ جندر ورثے میں ملتا ہے۔ وہ جندر چلانے والوں کی آخری نسل میں سے ہے کیونکہ ایک تو اس کا بیٹا پڑھ کر شہر میں رہنے چلا جاتا ہے۔ دوسرا بجلی سے چلنے والی چکیوں کے آنے کے بعد اب ولی خان کے جندر پر لوگ آٹا پسوانے آنا کم ہو گئے ہیں۔ وہ ولی خان جس کو نیند ہی جندر کے چلنے کی آواز سے آتی تھی اب جندر بند ہو جانے کی وجہ سے موت کو اپنے قریب دیکھ رہا ہے۔
ولی خان کے پیدا ہوتے ہی اس کی ماں فوت ہو جاتی ہے۔ اس کا باپ اس سے بہت پیار کرتا ہے لیکن اس کے میٹرک میں پہنچتے ہی وہ بھی فوت ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ولی خان اکیلا اپنا خاندانی جندر سنبھال لیتا ہے۔ وہ جندر چلاتا ہے اور جندر کی آواز میں بیٹھ کر اردو ادب سے لے کر دنیا بھر کا ادب پڑھتا ہے۔ پھر اس کی کزن جو گاوں کی پہلی میٹرک پاس، بی اے پاس اور استانی ہوتی ہے۔ اُس کی رہنمائی میں وہ فلسفہ اور نفسیات جیسے مضمونوں میں دلچسپی لینا شروع کر دیتا ہے۔ اس کی وہ کزن بعد میں اس کی بیوی بنتی ہے۔ شادی کے ابتدائی مہینوں میں جب اسے پتا چلتا ہے کہ وہ جسے آزاد مرد سمجھ کر شادی کرنے کی خواہاں تھی وہ تو سونے کے لیے چلتے ہوئے جندر کی آواز کا محتاج ہے۔ اس وجہ سے وہ اسے چھوڑ کر گاوں رہنے چلی جاتی ہے اور دوبارہ کبھی اسے نہیں ملتی۔ اس کا ایک بیٹا ہے جو پڑھ لکھ کر شہر میں بڑا افسر لگ جاتا ہے اور اس بات میں اپنی توہین محسوس کرتا ہے کہ اس کا باپ ایک جندروئی ہے۔
اختر رضا سلیمی صاحب نے جندریوں کے بدلتے حالات، تہزیبی ارتقا اور اس ارتقا کی وجہ سے معدوم ہوئی ایک ایسی تصویر کو زندہ کیا ہے جس سے پہلے نہ اردو ادب واقف تھا اور نہ اردو ادب کا قاری خاص کر جو شہروں میں رہ رہے ہیں۔ سلیمی صاحب کہانی بیان کرنے کا انداز اس قدر جکڑ لینا والا تھا اور منظر نگاری اس قدر محسور کر دینے والی تھی کہ شروع سے آخر تک کتاب چھوڑنے کا دل ہی نہیں کیا۔ ہاں لیکن پڑھتے ہوئے اکثر رکنا پڑا کیونکہ ایسا تخیل اور ایسے فقرے کے واللہ ایک دفعہ دل خوش ہو جاتا ہے کہ ایسا شاندار قلم کار بھی آج کے دور میں اردو ادب کو میسر ہے۔
جندر کے علاوہ سلیمیؔ صاحب نے موت پر لکھا ہے۔ یوں تو یہ موت استعارہ تھی اس معدوم ہوتی تہزیب کا جو ٹریکٹر کی ایجاد کے ساتھ ہی مرنا شروع ہو گئی تھی۔ اُس دیہاتی اکٹھ کا جو گندم کی بوائی اور کٹائی کے علاوہ دیگر مواقعوں پر ہوتا تھا لیکن نئی ایجادات نے اسے ختم کر دیا۔ یہ موت ہے اجتماعی خاندان کے تصور کا خاتمہ کرتی اور نیوکلر فیملی کی بنیاد رکھتی نئی تہزیب کے اثر سے ختم ہونے والی تہزیب کی، جہاں کے رہنے والے لوگ آج نیوکلر فیملی کے حق میں بڑے شدومد سے دلائل دے رہے ہوتے ہیں۔ لیکن موت کی جو تصویر سلیمی صاحب نے کھینچی ہے جس شاندار انداز میں کھینچی ہے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ اگر دوست برا نا منائیں تو موت کی ایسی منظر کشی میں نے تارڈ صاحب کے ہاں بھی نہیں دیکھی۔ ہاں لیکن ایک بات بہت مزے کی تھی کہ سلیمی صاحب کا کردار ولی خان ایک جگہ یہ سوچتے ہوئے کہ اس کے بیٹے کی تربیت اس کی ماں نے کیسی کی ہو گی یا اس کا اپنی ماں کے ساتھ کیسا تعلق ہو گا تو اس تعلق کے لیے وہ ایڈی پس ریکس کا سوچتا ہے۔ اب یہ نہیں پتا کہ یہ ایڈی پس ریکس کے خیال کی وجہ ولی خان کی محدود علمیت ہے یا سلیمی صاحب کو لگتا ہے کہ ماں اور بیٹے کے درمیان ایسا رشتہ ایڈی پس ریکس کے جزبات کو پیدا کرتا ہے؟
میرا ماننا ہے کہ اگر آپ کو تھوڑا سا بھی لگاو اردو ادب سے ہے تو آپ یہ ناول ضرور پڑھیں۔ سچ کہوں تو مجھے یہ پڑھ کر اردو ادب پر فخر ہونے لگا ہے۔ اور ہاں اسے پڑھ کر اُن اپر کلاس والوں کی لاعلمی پر اب ہنسی آ رہی ہے جن سے لاہور ادبی میلے میں دو دن بس یہی سنا کہ اردو میں کچھ تخلیقی لکھا نہیں جا رہا۔ آخر پر اگر آپ کو ناول پڑھ کر لگے کہ بندے نے کچھ زیادہ جزباتی ہو کر ناول پر لکھ دیا تھا تو معاف کر دیجیۓ گا کیونکہ اپن کوئی پروفیشنل نقاد تو ہے نہیں اور نا اتنا پڑھا لکھا ہوں۔
اگر زیادہ بور نہیں ہوئے تو سلیمی صاحب کے چند اقتباس دیکھ لیں۔ ناول کا آغاز ان لائنوں سے ہوتا ہے۔
”مجھے یقین ہے کہ جب پو پھٹے گی اور روشنی کی کرنیں دروازے کی درزوں سے اندر جھانکیں گی تو پانی سر سے گزر چکا ہوگا اور میری سانسوں کا زیروبم ، جو اس وقت جندر کی کوک اور ندی کے شور سے مل کر ایک کرب آمیز سماں باندھ رہا ہے ، کائنات کی اتھاہ گہرائیوں میں گم ہو چکا ہوگا اور پیچھے صرف بہتے پانی کا شور اور جندر کی اداس کوک ہی رہ جاے گا ، جو اس وقت تک سنائی دیتی رہے گی جب تک جندر کے پیچھواڑے موجود ، معدوم ہوتے راستے پر سے گزرتے ہوے ، کسی شخص کو اچانک میرا خیال نہ آجاے اور وہ یوں ہی بغیر کسی پیشگی منصوبے کے ، محض میرا آتا پتا کرنے ، جندر کے صحن کو اس اجاڑ راستے سے ملانے والے ، سات قدمی زینے پر سے اترتا ہوا جندر کے دروازے تک نہ آجاے۔۔۔
یہ دروازہ ، جسے میں رات کو سونے سے پہلے ہمیشہ اندر سے کنڈی لگا دیا کرتا تھا ، آج اسے بند کرتے ہوے میں نے احتیاطاً کنڈی نہیں لگائی ، کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ آج میری زندگی کی آخری رات ہے اور میرے بعد اسے ، کسی مانوس یا ان جانی دستک پر ، اندر سے کھولنے والا نہیں ہوگا۔۔
میرے بعد یہاں آنے والا پہلا شخص کون ہوگا؟“
جب ولی خان سوچ رہا ہوتا ہے کہ اس کے مرنے پر جب بیس پچیس دن تک کوئی اسے دیکھنے نہیں آئے گا تو اس کی لاش کے ساتھ کیڑیاں کیا کریں گی۔ اِس کو ہم ایک مرتی ہوئی تہزہب کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے اس پر باہر سے آنے والوں کے اثرات بھی سمجھ سکتے ہیں۔
”پہلے مرحلے میں آنے والی چیونٹیاں کی ٹولی ، رضائی میں لیپٹے میرے دھڑ سے سفر کرتی ہوئی جب زرد ہوچکے میرے چہرے تک پہنچنے گی تو اسے میری سفید آنکھیں آٹے کے مانند لگیں گی۔۔ ٹولی میں موجود چیونٹیاں پہلے تو اپنے اپنے چھ پیروں میں سے دو درمیانے پیروں کو مضبوطی سے جما کر کھڑی ہو جائیں گی پھر اگلے پیروں کو حرکت میں لاکر میری آنکھوں کا ماس کھودنے اور پچھلے دو پیروں کے زریعے اسے ایک طرف ہٹانے کی کوشش کریں گی ، لیکن تھوڑی ہی دیر کی محنت مشقت کے بعد انھیں اندازہ ہو جاے گا کہ انھیں کھودنے کی کوشش بے کار ہیں۔۔۔
پھر وہ اپنے پیروں کے بجاے اپنے سر پر لگی ” زندہ قینچی ” کو عمل میں لاکر انھیں کترنا شروع کر دیں گی۔۔۔ اسی دوران میں وہ ، ایک نامعلوم مواصلاتی رابطے کے زریعے زیر زمین اپنے تاریک گھروں میں موجود ، باقی ساتھیوں کو بھی آگاہ کر دیں گی اور اطلاع پاتے ہیں وہاں موجود بے شمار چیونٹیاں ، گھروں کے برآمدے میں بے حس و حرکت لٹکی اپنی اپنی ٹوکریاں کی طرف دوڑ پڑیں گی اور وقت تک اپنی نوکیلی مونچھوں کے زریعے , انھیں بار بار چھوتی رہیں گی جب تک وہ زندہ ہو کر حرکت نہ کرنے لگیں۔۔۔
جوں ہی ٹوکریاں حرکت کریں گئی ان کے جبڑے کھل جائیں گے اور ان کے لبوں سے رس کے قطرے ٹپکنا شروع ہو جائیں گے ، ہر چیونٹی اپنی اپنی ٹوکری کا رس چاٹنے ہی تازہ دم ہو کر مزدوری کرنے میری طرف چل پڑے گئی اور ان کا یہاں آنا جانا اس وقت تک لگا رہے گا جب تک میرے چہرے پر ماس کا ایک بھی ریشہ باقی ہے۔۔۔
ان میں سے کچھ چیونٹیاں میرے کھلے ہوئے منہ کے راستے پیٹ کی طرف اور کچھ نتھنوں کے ذریعے دماغ کی طرف سفر کریں گی اور میرے دماغ کے پیچیدہ تانے بانے کو ، جنہیں بابا جمال دین کی سنائی ہوئی لوک داستانوں اور کتابوں میں پڑھی ہوئی کہانیوں نے اور بھی پیچیدہ بنا دیا ہے ، یوں ادھیڑ کر رکھ دیں گئی جسے ہاتھوں سے بنی سویٹر کو ایک دھاگا کھنچ کر آسانی سے ادھیڑ لیا جاتا ہے۔۔۔
میری یاداشت کو محفوظ رکھنے خلیے تو یقیناً ان کا رزق بن جائیں گے لیکن ان میں ہزاروں کرداروں کے انجام کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ، جنہوں نے کہانیوں سے نکل کر میری یاداشت میں پناہ لی تھی ، اور نہ ان خوابوں کے بارے میں جنہیں اس کائنات میں صرف میں نے دیکھا ہے“
ایک جندروئی کی زندگی میں رات کی اہمیت اور اس کے طلسم کا ذکر کرتے ہوئے ولی خان کہتا ہے۔
”ایک جندروئی کے لیے ، رات سب سے محفوظ پناہ گیر ثابت ہوتی ہے۔۔۔ جوں جوں چیزیں اپنا وجود اندھیرے میں گم کرتی جاتی ہیں ، ان سے چمٹا نامعلوم خوف بھی آہستہ آہستہ ان سے علیحدہ ہوتا جاتا ہے اور اس کی جگہ ایک طلسم لے لیتا ہے۔ ندی کے بہاؤ پر ٹھہری رات کے طلسم سے صرف ایک جندروئی ہی آشنا ہو سکتا ہے۔ رات کے وقت جندروئی کسی سے نہیں ڈرتا سواے اپنی ذات کے۔۔۔ اندھیرے کے چادر تنتے ہی جب چیزیں اس کی نظروں سے اوجھل ہونا شروع ہوتی ہیں ، اس پر اپنی ذات کے اسرار کھکنا شروع ہو جاتے ہیں ، جو اس کے گرد حیرت کا ایک ہالہ سا تان دیتے ہیں۔۔۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ہالہ اتنا طاقت ور ہو جاتا ہے کہ بسا اوقات وہ دن کے وقت بھی بہ مشکل ہی اس سے باہر اپاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر جندروئی دن کے وقت بھی ، میرے باپ کی طرح ، اپنے آپ ہی میں گم رہتے ہیں۔ جندر پر چھائی ہوئی رات کے بارے میں سوچتے ہوئے مجھے ہمیشہ یہ خیال آتا ہے کہ گوتم بدھ اگر نروان حاصل کرنے کے لیے برگد کے سائے کے بجاے کسی جندر کا انتخاب کرتا تو بہت کم وقت میں اپنی منزل پا لیتا کہ میرے نیزدیک ارتکاز توجہ کے لیے ، اس اسرار بھری کائنات میں ، گھومتے جندر کی سریلی گونج سے بہتر کوئی نہیں“
” زخم جدائی کا بھی کیوں نہ ہو بھر ہی جاتا ہے "
”میں نے ہمیشہ یہی سنا ہے کہ موت آتی ہے تو انسان مر جاتا ہے۔ لیکن میرے خیال میں موت کہیں باہر سے وارد نہیں ہوتے وہ زندگی کی سرشت میں شامل ہوتی ہے ننن جوں ہی کسی وجود میں زندگی ترتیب پاتی ہے ، موت بھی اس میں پناہ حاصل کر لیتی ہے اور زندگی کو اس وجود سے باہر دھکیلنے کا عمل شروع کر دیتی ہے۔۔ جس وجود کی زندگی جتنی طاقت ور ہوتی ہے وہ اتنے ہی طویل عرصے تک وہاں قدم جمائے رکھتی ہے“ـ
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn