Qalamkar Website Header Image

شکریہ عمران خان! قیدیوں کو رہائی دلوانے کا بہت اجر ہے۔

جیل خانہ جات میں بلاشبہ اس وقت دنیا کا سب سے متنازعہ جیل کا نظام سعودی عرب کا ہے۔ سعودیہ ایک کثیر القومی غیرملکی تارکین وطن کا ملک ہے۔ دنیا کے ہر کونے سے لوگ سعودیہ آ کر کام کرتے ہیں۔ ان کام کرنے والوں میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو جرائم کی طرف راغب ہو جاتے ہیں یا کسی وجہ سے بےگناہ ہونے کے باوجود جرم کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔ سعودی جیلوں میں کئی ممالک کے باشندے جن میں بڑی تعداد میں پاکستانی بھی شامل ہیں اسیری کی زندگی گزار رہے ہیں۔

بڑی خبر آئی ہے کہ سعودی ولی عہد نے سعودیہ کے جیلوں میں قید 3 ہزار پاکستانیوں میں سے 2 ہزار 1 سو 7 قیدیوں کی فوری رہائی کے احکامات جاری کر دئیے ہیں۔ یہ قیدی مختلف چھوٹے موٹے جرائم میں سعودی جیلوں میں قید تھے جن میں چوری چکاری، اخلاقی جرائم، منشیات اور فراڈ کے الزامات بھی شامل ہیں۔ ابتدائی مرحلہ میں معمولی الزامات میں قید پاکستانیوں کی رہائی کی جائے گی اور بتدریج تمام قیدیوں کو رہا کرکے پاکستان ڈیپورٹ کر دیا جائے گا۔ ان تمام قیدیوں کی پاکستان واپسی کے لئے ٹکٹ کے اخراجات بھی سعودی حکومت ہی برداشت کرے گی۔ چونکہ ان قیدیوں کی رہائی براہ راست ولی عہد کے حکم سے انجام پائی ہے اس لئے ان قیدیوں کو رہا کرنے کے عمل میں وہ شرط بھی ختم کر دئیے جانے کا امکان ہے کہ جس پولیس اہلکار نے اس قیدی کو گرفتار کیا ہے وہی آ کر اسے رہا کرے گا ورنہ تب تک وہ سزا پوری کرنے کے بعد بھی جیل میں ہی سڑتے رہیں گے۔

راقم کو ماضی قریب میں چند ایسے قیدیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے جو سعودی عرب جیلوں میں قید کاٹ چکے ہیں۔ ان لوٹنے والوں کا کہنا ہے کہ سعودی جیلیں ایک شدید ترین عذاب کا مقام ہیں جہاں سے واپسی قسمت سے ہی ملا کرتی ہے۔ ان جیلوں سے رہائی کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ قیدیوں کی سب الجھنیں دور ہو جاتی ہیں بلکہ وہ شدید معاشی، سماجی اور نفسیاتی مسائل سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ سعودیہ میں اگر کوئی کسی جرم کے ارتکاب میں یا ناکردہ جرم میں جیل پہنچ جائے تو اسے گرفتاری سے مقدمہ سے قید اور رہائی کے بعد سیدھا اس کے ملک ڈیپورٹ (deport) ہونے کے مراحل طے ہونے کے طویل عرصہ میں اتنا بھی موقع نہیں ملتا کہ وہ اپنے جسم کے کپڑوں کے علاوہ اپنے لئے دوسرے کپڑے یا اپنی جمع پونجی بھی لے سکے-

یہ بھی پڑھئے:  ایدھی صاحب ! لال سلام | عامر حسینی

انسانی حقوق کی تنظیمیں سعودی جیلوں میں شدید ترین مسائل اور خرابیوں کی شدت سے بھی پوری طرح آگاہ نہیں ہیں مگر اس کے باوجود بھی وہ سعودی جیلوں کے حالات اور قیدیوں کو بنیادی حقوق نہ مہیا کئے جانے کے خلاف سعودی حکومت پر تنقید تو کر رہی ہیں لیکن جو قیدی اب واپس آچکے ان پر اب کیا بیت رہی ہے؟ وہ کس حالت میں ہیں؟ اور ان کی زندگیوں میں کیا تبدیلی آئی ہے؟ یہ جاننے کی کوشش شاید ہی کسی نے کی ہو۔

سعودی جیل سے رہائی پانے والے ایک دوست انعام کو آج بھی معاشی کے ساتھ ساتھ شدید ذہنی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ انعام کا کہنا ہے کہ رہائی کے چھ ماہ کے بعد بھی راتوں کو اسے قیدخانے کی یاد خوابوں میں تنگ کرتی ہے۔ یہ چالیس سالہ شخص گاؤں میں نانبائی تھا۔ ہمسایوں کا کہنا ہے کہ وہ اب ویسا ہنس مکھ اور باتونی نہیں رہا جیسا کہ وہ سعودیہ جانے اور وہاں جا کر اپنے کفیل کے پیسے چرانے کے ایک جھوٹے الزام میں جیل جانے سے پہلے تھا۔ "وہ اب بہت کم بولتا ہے۔ ہنستا بھی کم ہے اور کھویا کھویا رہنے لگا ہے”۔ جیل میں تین سالہ قید کے دوران اس کا کہنا ہے کہ گھر کی فکر اور زندگی سے بےزاری نے اسے چار مرتبہ اپنی جان لینے پر مجبور کیا لیکن جیل حکام نے اسے بچا لیا۔

سعودی جیل سے رہائی پا کر آنے والوں میں انعام کے علاوہ ایک اور شخص عامر تنولی بھی ہے جو پیشہ کے اعتبار سے ٹیکسی ڈرائیور ہے۔ صرف 27 سال کی عمر میں ہی وہ دنیا سے اتنا تنگ ہے کہ کسی سے بھی اپنے مسئلہ پر بات کرنے کو بھی تیار نہیں۔ عامر کے گھر والوں نے اس کی چچا زاد سے اس کی منگنی کر دی ہے اور اب اسے شادی کی فکر بھی لاحق ہوگئی ہے۔ مستقبل اس کا انتظار کر رہا ہے لیکن ذہنی مسائل اس کی راہ روک رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  کرونا جیسی بلا اور ہمارے سیاسی رویے

شعیب ایک چھوٹے سے سرسبز پہاڑی گاؤں کا تیس سالہ نوجوان ہے۔ اس کی سوچ دیگر سابق قیدیوں سے مختلف ہے۔ مکینیکل انجینئرنگ ڈگری رکھنے والے شعیب کا کہنا ہے کہ "ان کی زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ سعودی عرب کا آزاد ویزہ خرید کر جانے سے پہلے بھی میں بے روزگار تھا اور اب بھی ہوں۔ دکھ صرف یہ ہے کہ چھ مہینے سے واجب الادا تنخواہ مانگنے کے جرم میں کفیل نے اسے جھوٹا الزام لگا کر جیل بند کروا دیا اور پیسے نہ ہونے کے وجہ سے اسے دو سال تک قید کاٹنی پڑی۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے کہ ’’معافی دینے کو اپنا شعار بناؤ۔ نیکی کا حکم دو اور جاہلوں سے دُور رہو‘‘۔ (بحوالہ سورہ اعراف)۔ سعودیہ میں قیدیوں کی جو ابتر حالت ہے وہ شدید عذاب سے کم نہیں ہے- ان میں کئی ایک واقعی مجرم ہیں تو ان کی بھی کمی نہیں جو بےگناہ کسی جرم کا شکار بن گئے اور جیل پہنچ گئے۔ یا ان میں سے کئی ایک ایسے ہوں گے جن کا جرم معمولی مگر سزا غیر معمولی ہے۔ ایسے مظلوموں کی امداد سے وزیر اعظم عمران خاں نے بہت اجر کمایا ہے۔ ویلڈن عمران خاں۔ آپ کا شدید ترین سیاسی مخالف اس کاوش پر آپ کو خراج تحسین پیش کرتا ہے-

حالیہ بلاگ پوسٹس