Qalamkar Website Header Image

ناول: موتھ سموک تبصرہ بلال حسن بھٹی

محسن حامد پاکستانی ناول نگار ہیں۔ وہ لاہور میں پیدا ہوئے۔ پرسٹن یونیورسٹی پڑھتے رہے اور ہاروڈ لا سکول سے کارپوریٹ لا کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ لکھنے کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان کا پہلا ناول موتھ سموک 2000 ریلکٹنٹ فنڈامینڈلسٹ 2007 ہاو ٹو گیٹ فلتھی ریچ ان رائزنگ ایشیا 2013 اور ایگسٹ ویسٹ 2017 لکھا۔ محسن اپنے دوسرے ناول ریلکٹنٹ فنڈامینٹلسٹ کی وجہ سے ادب کی دنیا میں مشہور ہوئے۔ انکا یہ ناول نیویارک بیسٹ سیلنگ بکس کی لسٹ میں شامل رہا ہے۔ لیکن پتا نہیں کیوں مجھے یہ ناول اس قدر متاثر کن نہیں لگا جتنا اس کا شور سنا ہوا تھا۔ دنیا کے بہت سی مشہور شخصیات اس کتاب کا حوالہ دیتے ہیں۔ یہ ناول ایک ایسے ذہین پاکستانی کی کہانی ہے جو امریکہ کی پرسٹن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتا ہے اور بہترین فرم میں نوکری حاصل کر لیتا ہے۔ لیکن نائن الیون کے بعد وہی لوگ جو اسکی عزت کرتے تھے۔ اسے نفرت کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں اور وہ اس نفرت کو برداشت نہیں کر سکتا اس لیے پاکستان واپس آ جاتا ہے۔


محسن کا پہلا ناول موتھ سموک تھا۔ اس کی کہانی نوے کے آواخر کے لاہور کی کہانی ہے جب پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کرنا تھا اورہر طرف اسی کے چرچے تھے۔ ڈالر کی قیمتیں بڑھ گئی تھیں۔ برآمدات اور درآمدات میں عدم توازن کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہونے کے دھانے پر پہنچا ہوا تھا۔ بم دھماکہ کرنے کے حق میں رائے دینے والے دو دھائیاں پہلے بھٹو کے اس بیان کو دھرا رہے تھے جس میں وہ بم بنانے کے عزم کا اظہار کرتا ہے چاہے گھاس کھا کر گزارا کرنا پڑے۔ نوے کی دہائی میں سوشلزم اور ایشیا سرخ ہے کا نعرہ لگانے والوں کی اکثریت مشرف بہ کپیٹرلزم ہو کر لبرل بن چکے تھے۔ طبقاتی استحصال کا شعور تو تھا لیکن ستر اور اسی کی دہائی کی وہ نسل تھک کر مایوس ہو چکی تھی جو سوشلزم کے ذریعے اس طبقاتی استحصال کو ختم کرنے کے خواب دیکھ رہی تھی۔ اس کہانی میں ہم لاہور کے دو مختلف رنگ دیکھتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی اور جی سی کے فارغ التحصیل وہ نوجوان ہیں جن کے والدین پہلے ہی کسی اچھے عہدے پر ہیں اور وہ بھی اُن کے نقش قدم پر چلتے یا ان کی مدد سے باہر سے ڈگری لے کر آتے ہیں یا یہاں ریہہ کر کسی اچھے عہدے پر پہنچ جاتے ہیں۔ 


جیسا کہ ہم اورنگزیب کے کردار میں دیکھتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف دارشکوہ کی طرح مڈل کلاس فیملی کے نوجوان ہوتے ہیں۔ جنہیں نوکری سے لے کر تعلیم حاصل کرنے تک سخت محنت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص کر نوکری کے لیے تو ریفرنس یا دوسرے لفظوں میں سفارش کی ضرورت لازمی پڑتی ہے۔ اگر سفارش نا ہو تو نوکری ملنا تقریباً نا ممکن ہو جاتا ہے۔ مڈل اور اپر کلاس کو جس طریقے سے پروفیسر نے تقسیم کیا وہ بہت دلچسپ ہے۔ وہ کہتے ہیں یہاں دو طبقے ہیں۔ پہلا وہ جو اے سی میں رہتا ہے۔ وہ ہر کام اے سی میں ریہہ کر کرتا ہے۔ چاہے گھررہنا ہو یا باہر نکل کر کچھ کام کرنا ہو اور دوسرا جو اے سی کے بغیر رہتے ہیں اور بس اللہ پر توکلکیے رہتے ہیں۔

ناول کے اہم کرداروں میں دراشکوہ شہزاد، اورنگزیب اور ممتاز ہیں۔ کرداروں پر بات کرنے سے پہلے بتاتا چلوں کہ اگر آپ کو یہ کوئی مغل دور کے نام محسوس ہو رہے ہیں تو یہ اتنی عجیب بات بھی نہیں ہے۔ گو کہ یہ ناول نوے کی دہائی کے آخری سالوں کا ذکر کرتا ہے لیکن اس کے کرداروں کے نام شاہجان کے بیٹوں اورنگزیب، دارا اور نادر کے ناموں پر رکھے گئے ہیں۔ محسن حامد نے آغاز میں یہی تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ شاہ جہاں کے بیٹوں کی ہی کہانی ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس سے انصاف نہیں کر پائے بلکہ اگر وہ ان مغل شہزادوں کی زندگیوں کو کہانی سے دور رکھتے تو کہانی مزید نکھر کر سامنے آتی اور جو تنقید اس وجہ سے ہوئی ہے وہ بھی نا ہوتی۔

یہ بھی پڑھئے:  چار درویش اور کچھوا: کاشف رضا تم شوکت تھانوی نکلوگے،سوچا نہ تھا

دارا شکوہ: ایک مڈل کلاس خاندان سے تعلق رکھنے والے فوجی باپ کا بیٹا جس کا باپ ستر کی جنگ میں بنگلہ دیش میں شہید ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی ماں کے ساتھ اکیلا رہتا ہے۔ اس کی کفالت اس کے باپ کا ایک دوست خرم کرتا ہے۔ جس کے بارے میں دارو کو کبھی کبھی شک پڑتا ہے کہ اس کی ماں کے ساتھ خرم کے ناجائز تعلقات تھے۔ اسی لیے جی سی یونیورسٹی سے لے کر بینک میں نوکری دلوانے تک وہ دارو کی مدد کرتا ہے۔ خاص کر جس دن اس کو بینک کی نوکری ملتی ہے تو اس کی ماں ہوٹل میں خرم انکل کے ساتھ کھانا کھا رہی ہوتی یے۔ جس سے اس کے شک کو بڑھاوا ملتا ہے۔ دارو اپنی ذات میں ایک الجھا ہوا شخص ہے۔ جو بینک میں اپنے منہ پھٹ ہونے کی وجہ سے نوکری کھو دیتا ہے۔ چونکہ تب تک اس کی ماں مر جاتی ہے اس لیے وہ اکیلا رہتا ہے۔ نوکری ختم ہونے کے بعد وہ پہلے تو ادھار مانگ کر گزارا کرتا ہے۔ خود چرس پیتا ہے پھر ہیروئن پر لگ جاتا ہے۔

 اپنا گزارا چلانے کے لیے چرس بیچنا شروع کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے دوست اورنگزیب کی بیوی کے ساتھ ناجائز تعلق قائم کرتا جو بہت حد تک ممتاز کی پیش قدمی کا نتیجہ ہوتا ہے جسے وہ روکتا نہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ آخر پر ایک ایسے قتل کی سزا میں پھانسی پر چڑھا دیا جاتا ہے جس کا اصل ملزم اس کا دوست اورنگزیب ہوتا ہے۔ لیکن وہ اپنی اور اپنے باپ کی طاقت کی وجہ سے خود کی بجائے دارا کو پھنسا دیتا ہے۔


اورنگزیب: ایک سول سرونٹ کا بیٹا جس کا باپ ملٹری کو چھوڑ کر سول سروس میں آتا ہے اور خوب دو نمبر پیسے کماتا ہے۔ اورنگزیب ذہین، خوبصورت اور امریکہ سے قانون کی ڈگری کے ساتھ ساتھ ایک عدد خوبصورت بیوی ممتاز اور بیٹا معظم لے کر اپنے باپ کے کالے دھن کو سفید کرنے واپس پاکستان لوٹتا ہے۔ ایک طرف وہ اپنے بچپن کے یار دارو سے رابطہ رکھتا ہے لیکن دوسری طرف وہ اس کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کے ساتھ رابطہ بڑھانے لگتا ہے جو اس کی معاشی حثیت کے مطابق ہو اور جن سے وہ کوئی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ پیسے کمانے کی ہوس میں وہ اپنی بیوی کو بھی وقت نہیں دے پاتا۔ وہ ایک طرف اپنے دوست دارو سے بہت پیار کرتا ہے۔ دوسری طرف وہ اپنی بیوی سے اس قدر پیار کرتا ہے کہ وہ اس کو دارو کے ساتھ اس کے بیڈ پر دیکھ کر بھی کچھ نہیں بولتا اور خود کو بہت اچھا سمجھتا ہے۔ لیکن آخر پر ایک بے گناہ دارو کو ایسے قتل میں پھنساتا ہے جس کا ذمہ دار وہ خود ہے اور دارو یہ جانتے ہوئے بھی کہ اورنگزیب نے اس بچے کا قتل کیا ہے اس کا نام پولیس کے سامنے نہیں لیتا۔ وہ ایک اپر کلاس کے منافقانہ کردار کی بہت اچھی نمائندگی کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  لمحہ بھر کے لئے سو چیئے تو ہم کہاں کھڑے ہیں؟ - حیدر جاوید سید

ممتاز: ممتاز کا کردار ناول کا سب سے دلچسپ کردار ہے۔وہ کراچی میں پیدا ہوئی اور امریکہ میں پڑھی ہے۔ اسے وہیں اورنگزیب سے پیار ہوتا ہے اور وہ شادی کر لیتے ہیں۔ سال بعد وہ اس کے بچے معظم کو جنم دیتی ہے۔ پہلے تو وہ بچہ پیدا نہیں کرنا چاہتی لیکن اسے اورنگزیب اور اس کے والدین کی خوشی میں ایسا کرنا پڑتا ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ خود کو اکیلا محسوس کرنا شروع کر دیتی ہے کیونکہ اورنگزیب اس سے نا بات کرتا ہے نا کوئی جسمانی تعلق رکھتا ہے۔ رات کو جب وہ گھر آتا ہے تو بہت تھکا ہوتا ہے لیکن اس تھکاوٹ کے باوجود ممتاز کو اگنور کر کے وہ معظم کے ساتھ کھیلتا رہتا ہے۔ اس اکیلے پن کو ختم کرنے کے لیے ممتاز ذوالفقار منٹو کے سوڈو نام کے ساتھ اخبار میں تہلکہ خیز انویسٹگیٹو کالم لکھنے لگ جاتی ہے۔ جس میں وہ جسمانی اور مالی کرپشن کی کہانیاں لکھ کر خوب نام کماتی ہے۔ اِس سے اس کی تنہائی تو دور ہو جاتی ہے لیکن جسمانی ضرورت کے لیے وہ دارو کا شکار کرتی ہے جو پہلے ہی کھوکھلا اور نوکری نہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹا پھوٹا ہوتا ہے۔ وہ بھی کسی قسم کا ڈیفنس نہیں کرتا۔ ممتاز کا کردار ایک موتھ، ایک پتنگے کا سا کردار ہے۔ جیسے ایک پتنگا یہ جانتے ہوئے کہ موم بتی سے نکلنے والے شعلے کے پاس جانا اس کے لیے نقصان دہ ہے وہ پھر بھی گھوم پھر کر اس کے پاس جاتا ہے۔ ایسے ہی ممتاز یہ جانتے ہوئے کہ دارو سے اس کا تعلق اس کی زندگی کوتباہ کر سکتا ہے وہ پھر بھی دارو سے تعلق رکھتی ہے۔ زخمی ہونے پر اس کا خیال رکھتی یے۔ اس کو پیسے دیتی ہے۔ دوسری طرف وہ اس کشمکش میں رہتی ہے کہ وہ ایک اچھی ماں نہیں ہے کیونکہ اس کا بیٹا ایسے کہتا ہے۔ وہ اس بات پر روتی بھی ہے لیکن آخر پر وہ اپنے شوہر اور بچے کو چھوڑ کر اکیلی ریہنے چلی جاتی ہے۔ ہاں وہ ذوالفقار منٹو کے طور پر یہ بھی عیاں کر دیتی ہے کہ یہ قتل دارو نے نہیں اورنگزیب نے کیا ہے لیکن پھر بھی دارو کو پھانسی سے نہیں بچا سکتی۔

چونکہ یہ ناول محسن حامد کا پہلا ناول تھا اس لیے ان کی غلطیوں کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے جو انہوں نے مغل بادشاہ کے ساتھ کہانی کو منسلک کرنے کی کوشش کی ہے۔ محسن حامد نے اپر کلاس کی عیاشی، منافقت اور کالا دھن کمانے کی ہوس کے ساتھ ساتھ جنسی بے راہ روی اور مڈل کلاس کے غریب، معاشی جنگ لڑتے اور انقلاب کا خواب دیکھتے اسی نوے کے نوجوانوں کی زندگیوں کو بہت خوبصورتی سے ناول میں سمویا ہے۔ اس میں کلیشن کوف اور چرس ہیروئن کے اس تحفے کو بھی دکھایا گیا ہے جو افغان جہاد کا ثمر تھی۔ کہانی دلچسپ ہے اور آخر تک پڑھنے والے کو اپنے ساتھ جوڑے رکھتی ہے۔ بس اسی لیے پہلی دفعہ ایک دن میں اسے ختم کیے بنا کوئی اور چارہ نہ تھا۔

 


حالیہ بلاگ پوسٹس