خدا کے ہونے کی دلیل کیا ہے؟ یہ موضوع جتنا قدیم ہے، اتنا گنجلک اور متنازع فیہ بھی ہے ۔ حیرت ہے خدا کی دلیل طلب کرنے والے نے کبھی اپنے ہونے کی دلیل طلب نہیں کی ۔کمالِ حیرت ۔ بے انت ، بے سمت اور بیکراں سمندر میں تیرنے والی آبی مخلوق سمندر کے ہونے کی دلیل میں سرگرداں ہے!!
اگر خدا ایک مجموعہ صفات ہے تو اسے تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ صفات سے کام لیا جاتا ہے، صفات سے ذاتی تعارف حاصل کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔ صفات کی دنیا میں صفات کا جوڑ اور توڑ سائنس اور ٹیکنالوجی کا شعبہ ہے ۔ اور سائنس کے شعبے میں ٹائم، اسپیس اور انرجی سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کی دریافت ممکن ہے، بجز خدا کے۔ کیونکہ خدا کی دریافت سائنس کا شعبہ ہے، نہ دعویٰ۔ ایک دیانت دار سائنسدان خدا کے ہونے یا ہونے کے سوال کا جواب نہیں دے گا، بلکہ وہ اعتراف کرے گا کہ اس سوال کا جواب تلاش کرنا اس کے شعبے کا نصاب ہی نہیں، اس لیے وہ اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ ایک بابِ حیرت یہ بھی ہے کہ جو شعبہ ہائے حیات اس سوال کا جواب مکمل وثوق اور دعوے کے ساتھ لیے بیٹھے ہیں، ان سے رجوع کرنے میں ہم متامل ہوتے ہیں، یا متساہل!! مراد یہ کہ سائنسدان ، فلسفی اور مصنفین بروزن ِ معترضین، جن کا یہ دعویٰ ہر گز نہیں کہ وہ خدا کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں وثوق سے کچھ پیش کر سکتے ہیں ، ان کے پاس تو ہم بھاگ بھاگ کر جارہے ہیں ۔اور ہمارے بھاگ ہی پھوٹ گئے ہیں ،کہ ہم اُن شخصیات سے اُلٹ سمت میں بھاگ رہے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ وہ خدا کے فرستادگان ہیں، خالق ِ ارض وسما کی نمائندگان ہیں!! گویا جو لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس باب میں و ہ حالتِ تشکیک میں ہیں ، ان کے پاس ہم” یقین” کا سبق لینے جاتے ہیں ۔ اور جنہیں تسلیم کرنے سے ہم بابِ تسلیم میں داخل ہو سکتے ہیں، اُن سےحالتِ انکار میں ہوتے ہیں!! تلاش کے باب میں یہ فکری تضاد ہمارا راستہ روکے کھڑا ہے۔ کیا لوہے کے خریدار کبھی ٹمبر مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں؟؟
دراصل جاننے کیلئے ہمیں ماننا ہوتا ہے۔ اور ماننے سے ہم گریزاں رہتے ہیں۔ مان لینا اور مانتے چلے جانا ایک زندگی بھر کا سودا ہے۔ لیکن ہمیں اپنی عقل پر مان ہوتا ہے۔ راہِ تسلیم میں ہمیں اپنی عقل اور اَنا کی کچھ قربانی بھی دینا ہوتی ہے۔ آج کا خود غرض انسان قربانی کے مراحل سے کیسے گزرے!! خدا کی تلاش کسی خود غرض کے بس کی بات نہیں۔ شائد خدا اپنی خودی کی نفی کا حاصل ہوتا ہے۔
جن کا کُل سرمایہ فکر اسی زمان و مکان تک محدود ہے، جو صرف نظر آنے والی دنیا اور دکھائی دینے والی دلیل کے اَسیر ہیں، جن کی آنکھ کی پتلی ، دولت، شہرت اور منصب کی چکا چوند سے پھیل جاتی ہے۔ خدا کی طلب ان کی ضرورت نہیں۔ متلاشیانِ حق تو وہ مردانِ بلند ہمت ہیں جن کی جولانی فکر کیلئے یہ زمین وآسمان کم پڑ جاتے ہیں ۔ ہمدمِ دیرینہ سید سرفراز علی مرحوم کا ایک شعر توجہ کا دامن کھینچ رہا ہے:
الٰہی ، کھول دے مجھ پر فضائے ماورائے کُن
مری پرواز کو یہ آسماں کم ہیں، بہت ہی کم
خدا کی دلیل طلب کرنے والوں کو نوید ہو کہ خدا کو خود کو منوانے کی اتنی جلدی نہیں۔ وہ کہتا ہے ، تم بھی انتظار کرو، ہم بھی انتظار کرتے ہیں ۔اور یہ کہ جب جان حلق میں اٹک جاتی ہے تو ہم تمہارے بہت قریب ہوتے ہیں۔ وہ نہ ماننے والوں کو نہ ماننے کی مکمل آزادی دیتا ہے۔اُس کے ہاں ” لااکراہ فی الدین” اور” لکم دینکم ولی دین” کا پروٹوکول بھی موجود ہے۔ دراصل خدا کا ہونا ، اتنا زیادہ ہونا ہے کہ اس کی دلیل طلب کرنا یا دلیل دینے کی کوشش کرنا ۔خدا کی توہین ِ کرنے کے مترادف معلوم ہوتا ہے۔ دلیل ایک اضافی حسن ہےاوراس حسن کا اضافہ ماننے کے بعد ملتا ہے۔ فضل ماننے والوں کا حق ہے ماننا دلیل پر منحصر نہیں۔ دلیل مل گئی تو نورعلیٰ نور۔ نہیں بھی ملی، تو کچھ نقصان نہ ہوا!! دلیل نہ ملی، ایمان تو مل گیا۔ ایمان دل کا سودا ہے ، دلیل کا نہیں۔ دلیل پر مستعار لیا گیا "ایمان” عارضی ہوتا ہے ۔ دماغی قوت اور یادداشت کے سہارے پر کھڑاایمان ، ایمان نہیں محض کسی نظریے سے اتفاق ہے۔ اور یہ اتفاق زیادہ دیر قائم نہیں رہتا۔ دماغ اور یادداشت دیگر اعضائے رئیسہ کی طرح بہت جلد ضعیف ہو جائیں گے ۔ ایسے میں ایسے ایمان کا کیا ہوگا؟؟
انبیا کرام نے خدا کے ہونے کی دلیل میں فقط خود کو پیش کیا۔ وہ خود حجت ِ خدا ٹھہرے۔ نظر آنے والا بے عیب کردار، نظر نہ آنے والی سبحان ذات کو ثابت کرگیا۔ سبحان اللہ!! شعبہ نبوت و رسالت میں ہر نبی اور رسول نے ایک ہی بات کی، ان کی باتوں میں تضاد و تفرقہ نہ تھا۔ کسی بات کے حق ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہوتی ہے کہ حق، حق کو نہیں کاٹتا۔ آدم ؑ سے لے رسول ِ ختمی مرتبت ؐ تک بنی آدم کو ایک ہی پیغام تسلسل کے ساتھ ملتا رہا۔ ایک لاکھ چوبیس ہزارانبیا ایک ہی پیغام کے داعی تھے۔ حضرت آدم ؑ سے شروع ہونے والی نبوت، نبی آخر الزمانﷺ پر ختم ہو رہی ہے۔منطقی بات ہے، جس چیز کی ابتدا ہوگی ، اس کی انتہا بھی ہوگی۔ دائرۂ نبوت و رسالت اپنی تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ پیغام مکمل ہو کر اکملیت تک پہنچ گیا۔ اب اس کی تشریحات و تصریحات کیلئے بارگاہِ نبوت ؐ سے اَولیااللہ کی نامزدگی ہوتی رہے گی ۔ جو اس پیغام کو اپنے درست سیاق و سباق کے ساتھ سناتے رہیں گے ، ولایت کے پاس پیغام رسالت ؐ اپنی حقیقی روح true letter and spirit کے ساتھ موجود رہے گا۔ولایت تاقیامت ہے۔اس لئے اس دین کی حفاظت بھی تاقیامت ہے۔ کوئی شرپسند اس دین میں اس طرح نقب نہیں لگا سکے گا کہ مدعائے دین مسخ یا منسوخ ہوکر رہ جائے۔ یہی ہے مفہوم ومقصود آیت ۔ وانا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحٰفظون۔ ہم ہی ہیں اسے نازل کرنے والے ،اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔صیغہ جمع کی وضاحت بھی باب ِ ولایت میں ممکن ہے!!
اصحابِ صفہ کے وارث صوفیا نے سنت نبوی ؐ کے مطابق اپنے کردار سے پیغام رسالت ؐکاابلاغ کیا۔ مخلوق ِ خدا نے ان کے کردار کی بلندی وعظمت دیکھ کر اندازہ کیا کہ ان کا خداکتنا علو ہے، ان کا نبیؐ کتنا عظیم ہے۔ ایک ہزار برس قبل ایک عظیم صوفی لاہور میں وارد ہوتا ہے۔ یہاں کی بت پرستی ، شرک اور جہالت کو دُور کرنے کیلئے اس نے عربی میں کلام کرکے چھ کلمے نہیں سنائے ، بلکہ صرف اور صرف اپنے کردار کا جوہر دکھایا۔اس جوہر کی چکاچوند نے مخلوق کی عقل کو نہیں، دل کو متاثر کیا۔ اس ولی اللہ نے خدمت ِ خلق میں شب وروز یوں صرف کیے کہ یہاں کے باشندگان ان کے گرویدگان ہوگئے ۔ متلاشی نگاہوں نے آپ ؒ کی امامت میں کعبہ بھی دیکھ لیا اور دل کی آنکھوں سے کعبے والے کو بھی!! بوسیلہ ولایت ، بواسطہ رسالتؐ ۔ حادث کی رسائی قدیم تک ہوئی ۔ توحید ثابت ہوئی۔ بغیر کسی اضافی دلیل کے!!
سچ تو یہ ہے کہ آج تک کسی محب نے محبوب کے محبوب ہونے کی کوئی دلیل طلب نہیں کی۔ دلیل تو دُور کی بات رہی ۔ رہ ِ محبت میں غیر سے رائے لینا بھی حرام ہے۔ معبود اگر محبوب نہ ہو۔ تو کیا معبد، کیامندر، کیا دیر ، کیا حرم ۔سب حجابات سے اَٹے پڑے ہیں۔ محبت کی آنکھ میں بینائی موجود ہو، تویہ پتھر، پہاڑ، غار اور دیوار شعائرات ہیں بصورت ِ دیگر حجابات!! شاید دلیل محبوب کو محجوب کرنے میں کام آتی ہے۔ بغیر دلیل کا تعلق، ہمیشہ کا تعلق ہوتا ہے۔ دلیل کا محتاج تعلق، مفاد کا تعلق ہوتا ہے۔ اور مفاد پر قائم تعلق، کبھی قائم نہیں رہتا۔
آمدم برسرِ مطلب۔ کشف المحجوب میں باب ِ معرفت میں حضرت علی ہجویری ؒ فرماتے ہیں کہ ایمان معرفت ِ خداوندی کی ابتدائی شکل ہے۔ اور معرفت ِ خداوندی کیلئے عقل علت نہیں۔ کہ ایسا ہوتا تو اہلِ کفارمیں ہر ذی عقل صاحب ِ ایمان ہوتا اور اہلِ اسلام میں غبی اورکم عمر بچوں پر ایمان کا اطلاق نہ ہوتا۔ گویا دلیل تو دُور کی بات، اس باب میں عقل بھی ناکافی ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصف ؒ فرمایا کرتے ” خدا کی دلیل دینے والا شخص بھی اتنا ہی گمراہ ہے ، جتنا دلیل طلب کرنے والا۔ سورج کی دلیل دیکھنے والی آنکھ ہوتی ہے”۔ خالقِ ارض وسما ، خالقِ نور و ظلمات بھی ہے۔ اس لیے یہاں جتنے دلائل نور کے حق میں ہیں، اتنے ہی ظلمت کے ثبوت میں بھی موجود ہیں ۔ اس لئے دلیل کی طاقت سے، یا طاقت کی دلیل سے نور کا عالم ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے، باہر کی دنیا میں خدا کی صفات ملتی ہیں ، ذات نہیں ۔بیرونِ خانہ خدا کی نشانیاں ہیں۔ ذات ، بذات ِ خود نہیں۔ ذات کی تلاش اسے زیبا ہے ، جسے ظاہر سے زیادہ باطن عزیز ہو۔ ذات کی تلاش ، متلاشیان باطن پر ختم ہے۔ ذات کو صرف ذات ڈھونڈ سکتی ہے۔ کوئی صفت ، آلہ ، مہارت یا عبارت نہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا یہ قولِ حق ، برحق ہے کہ جس نے صفات سے خدا کو پہچانا ، اس نے شرک کیا۔
درحقیقت خدا کی ذات کا تعلق ماننے سے ہے، جاننے سے نہیں ۔ جو جاننے کی جستجو میں ہے، وہ جان لے کہ جاننے کا راستہ من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ( جس نے خود کو جانا اس نے اپنے رب کو جانا) کے قولِ قدیم سے گزرتا ہے۔ اور جو خود کو جان لے گا ، وہ خود کو ایک جزو کی حیثیت ہی سے جانے گا۔ اور جزو کا جاننا ، کُل پر محیط نہیں ہو سکتا۔ وہ ۔کوئی سوال، کلیہ یا نظریہ نہیں کہ جسے دلیل سے ثابت کرنا مطلوب ہے۔ وہ ایک ذات ہے۔ جو دل کو مطلوب ہے۔ ذات دلیل سے نہیں، گواہی سے ثابت ہوتی ہے۔ مقصود و مطلوب ۔ایمان بالتوحید ہے۔اور ، ایمان بالتوحید کا مطلب ایمان بالرسالت ؐ ہوتا ہے۔اَحد کی واحد دلیل ،اُس کا بندہ اور رسولؐ ہے ۔اللہ کی دلیل۔ اللہ کا رسول ؐہے!!
اب دلیلوں کی کوئی ضرورت نہیں
دلیلِ خدا آپﷺ کی ذات ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn