محسن نقوی کو گولیوں سے مارنے والوں نے یہ کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ محسن نقوی تو کفن کا داغ بدن کے لہو سے دھو کر بند قبا، طلوع اشک، عذاب دید، موج ادراک، ریزہء حرف، رداے خواب، برگ صحرا، خیمہء جان، فرات فکر، رخت شب اور میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی کی صورت میں دائمی زندگی پائے گا۔
خوابوں کے شاعر کا کیا کمال ہے کہ وہ ایک طرف ہیر کے مقبرے پر پیاسے ملنے آنے والی سانولی کے لفظوں کو جرات اظہار دیتے ہیں اور دوسری طرف عشق اہلبیت میں لکھنے والوں کو خاک نجف و کربلا پر سجدہ ریزی کے آداب و ہنر بھی سکھاتے ہیں ۔
محسن نقوی کے لکھے ہوئے یہ چار مصرعے میرے دل و دماغ پر ہر وقت حکمرانی کرتے ہیں:-
لے زندگی کا خمس علیؑ کے غلام سے
اے موت آ ضرور، مگر احترام سے
عاشق ہوں گر ذرا بھی اذیت ہوئی مجھے
شکوہ کروں گا تیرا اپنے امامؑ سے
اب یہ زندہ و جاوید معجزہ نہیں ہے تو اور کیا ہے کہ علیؑ کے غلام نے اپنی زندگی کا خمس علیؑ علیؑ کرتے ادا کر دیا۔ موت علیؑ کے غلام کے پاس آئی، اور ایسی شان و شوکت، آن اور احترام سے آئی کہ انہوں نے اپنے امام بر حق کے مشن پر چلتے ہوئے باطل کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا اور اپنی آقا زادی زینب بنت علی علیہ السلام کی طرح یزیدیت کے منہ پر تماچہ مارتے ہوئے ان کی تکفیری سوچ و فکر اور کردار و افکار کو ہمیشہ کے لئے بے نقاب کر کے رکھ دیا۔۔!!
یہ فقط محسن نقوی کا ہی اعزاز ہے کہ وہ آج مرکر بھی ہر مکتب میں اور ہر ممبر پر، ہر محفل میں، ہر شعر میں، ہر استعارہ میں، ہر قافیے میں، ہر ردیف میں، ہر دل میں اور اس میں چلنے والی دھڑکن میں، ہر جسم میں اور اس میں دوڑتے ہوئے خون میں زندہ ہیں، ان کی شخصیت، ان کا لب و لہجہ، اور ان کی سوچ و فکر پائندہ ہے اور علیؑ کا نام لینے کے جرم میں لوگوں کو مارنے والے، بے گناہوں کے سروں سے فٹبال کھیلنے والے ہر ممبر پر، ہر محفل میں لعنت کے حقدار ٹھہرتے ہیں اور دنیا کے سامنے ملعون و دہشت گرد ثابت ہو چکے ہیں۔
محسن نقوی شہید نے جس انداز میں موت کو دعوت دی وہ بھی بے مثل و بے مثال ہے۔ وہ بلا خوف و خطر جس جرات سے موت کے بعد کا منظر پیش کرتے ہیں اس سے ان کی قوت ایمانی اور محبت اہلبیت کے مقام و مرتبے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
فشار قبر کو ایسا نڈھال کر دوں گا
میں مشکلوں کی طبیعت بحال کر دوں گا
علی ؑ کے نام نے جرات وہ دی ہے کہ زیر لحد
میں خود فرشتوں پہ کوئی سوال کر دوں گا۔۔!!
خوبصورت لہجے کے عظیم شاعر محسنؔ نقوی کو یومِ شہادت پر شہید کی نظر…!!
میرے قاتل کو پُکارو کہ میں زندہ ہوں ابھی
پھر سے مقتل کو سنوارو کہ میں زندہ ہوں ابھی
یہ شبِ ہجر تو ساتھی ہے میری برسوں سے
جاؤ سو جاؤ ستارو کہ میں زندہ ہوں ابھی
یہ پریشان سے گیسو دیکھے نہیں جاتے
اپنی زُلفوں کو سنوارو کہ میں زندہ ہوں ابھی
لاکھ موجوں میں گھرا ہوں ابھی ڈوبا تو نہیں
مجھ کو ساحل سے پُکارو کہ میں زندہ ہوں ابھی
قبر سے آج بھی محسنؔ کی آتی ہے صدا
تم کہاں ہو میرے یارو کہ میں زندہ ہوں ابھی”
محسن نقوی آج بھی اشعار کی صورت میں نبی زادیوں پر یوں نوحہ کناں ہیں:-
محسن کو رولاۓ گا تا حشر یہ لہو اکثر ….!
زہراء ؑ تیری کلیوں کا صحرا میں بکھر جانا…..!!
آج چودہ سو سال گزر جانے کے بعد بھی نبی زادیوں کے صحرا میں بکھر جانے پر کائنات نوحہ کناں ہے، اور محسن نقوی کے چاہنے والوں کی آنکھیں آج بھی ان کی یاد اور غم میں نم اور انسانیت ان کی بلندی درجات کے لئے بدست دعا ہے۔
شہید کو ہم آج خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn