زندگی ایک ایسا پُراسرار معمہ ہے جس پہ جتنا سوچا جائے حل نہیں ہوتا ایک ایسا خزانہ ہے جو تہہ در تہہ کئی پرتوں سے ڈھکا چھپا ہے اور ایک پرت کھولنے پہ مزید کئی پرتیں سامنے آتی ہیں. نشیب و فراز، دکھ درد، سکھ سکون اور کئی بے شمار رنگوں سے مزین تصویر کا نام زندگی ہے. غلطیاں بہت ہو جاتی ہیں اور انہی غلطیوں سے انسان سیکھتا بھی ہے گرتا ہے تو فقط اٹھنا نہیں جانتا بلکہ گرنے کا سبب بھی تلاش کرتا ہے فقط اٹھنا کمال نہیں بلکہ گرنے کا سبب جاننا کمال ہے اور یہی چیز اٹھنے میں کردار ادا کرتا ہے.
چونکہ اب سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا ایک دوسرے کے قریب آ گئی ہے اور روز گزرتے لمحے اور اس میں ہونے والے واقعات اکثریت تک پہنچ جاتے ہیں. ان میں آپ کو فطرت کے حسیں مناظر دیکھنے کو ملیں گے مختلف خیالات پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ملے گا لیکن ان میں اکثر واقعات تشدد پہ مبنی ملیں گے گرتی انسانی لہو اب گویا روز کا معمول ہے انسانیت سسکتی ہے. یہ یا تو دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی، توسیع پسندی، قبضہ گیری کی شکل میں ہوگی یا کسی بھی دوسری شکل میں ہوگی. کسی غریب بچے کا باغ سے پھل توڑنے پہ درخت سے باندھنے یا گھروں میں کام کرتے نوکروں پہ تشدد کا منظر ہو، لگتا ہے وہ جو درخت سے بندھا ہے وہ میں ہی ہوں . یہی غلطیاں ہم سے بھی سرزد ہوئی ہیں لیکن ہمیں موقع ملا اور اس غریب کو نہ موقع ملا نہ اس کے دکھ کا مداوا ہوا اور نہ ہی اس کی ذہنی و فکری تربیت کر کے اسے نئی زندگی شروع کرنے کا حق دیا گیا.
بعض لوگ کہتے ہیں چونکہ سخت سزائیں نہیں دی جاتی اس لئے جرائم ختم نہیں ہوتے. اگر گردن زنی و پھانسیاں جیسی سخت سزائیں دینے سے جرائم ختم ہو سکتے تو آج دنیا کے بعض ممالک میں جرائم کا نام و نشان بھی نہیں ملنا چاہیے تھا لیکن جرائم آج بھی ہوتے ہیں بلکہ ان میں اضافہ ہی ہوا ہے یہ الگ بات ہے کہ ان ممالک کے اندرونی قصے اکثر منظر عام پر لائے نہیں جاتے اور جو لائے جاتے ہیں ان پہ ہم دھیان نہیں دیتے. بہرحال میرے اپنے خیال میں سخت سزاؤں سے جرائم کم یا ختم نہیں ہو سکتے جتنا ذہنی و فکری تربیت کرنے سے کم سے کم یا ختم ہو سکتے ہیں. ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ علم مومن کی میراث ہے لیکن آج علم کا نام و نشان نہیں. تحقیق و جستجو کے متلاشی کے لب کھلتے ہی اس کی جان لینے کے درپے ہوتے ہیں توہین توہین کے شور میں علم و تحقیق دب جاتی ہے.
زندگی میں بحث و مباحثہ اور مکالمہ نئی تحقیق کو جنم دیتی ہے لیکن علم و فہم اور دانش کے ساتھ مکالمہ نہ کہ ایک دوسرے پہ کفر کا فتوٰی لگانے والا مناظره ہو. کتنی خوبصورت تصویرِ زندگی ہوتی کہ ہوٹلوں، ہسپتالوں، ایئر پورٹس اور ہر اس مقام پر کتابوں کے انبار ہوتے جہاں لوگ موجود ہوں. ٹولیوں کی شکل میں چائے پیتے انسانوں کا تاریخ، فلسفہ، سائنس اور دیگر موضوعات پر جستجو ہوتی دلیل و منطق سے گفتگو ہوتی. نیا سوچ نئی فکر جنم لیتی نئی تہذیب نمو پاتی.
اگر واقعی ہمیں معاشرے کی فکر ہے تو علم و تحقیق، دلیل و منطق اور برداشت کا پودا لگانا پڑے گا تب پھل ملے گا پھول کھلیں گے ظلمت کا خاتمہ ہوگا روشنی کی نئی کرن نمودار ہوگی معاشرہ سدھار کی طرف جائے گا اور آنے والی نسل کو ایک ترقی پذیر معاشرہ منتقل ہوگا جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید بہتری کی طرف سفر جاری رکھے گا. ماضی کے نفرت آنگیز پودوں کے کاشت کا پھل آج ہمیں ملا ہے اور ہماری کاشت کا پھل کل ہماری نسل پائے گا. اب ہم پر منحصر ہے کہ اپنے لئے اور آنے والی نسل کے لئے ہم کیا کر رہے ہیں اور اس کا ثمر کیا ہوگا؟ پھل پھول یا فصلِ خار؟
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn