یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ نے عورت اور مرد کو ایک دوسرے کی تسکین کے لیے پیدا کیا ہے یہ تسکین صرف جنسی تسکین نہیں ہے بلکہ اس میں جذباتی اور دماغی ہر طرح کا سکون شامل ہے آپ ایک دوسرے سے اپنے دکھ درد تکالیف پریشانیاں خوشیاں خیالات شیئر کر سکتے ہیں.اللہ نے مرد و عورت کو نکاح کے ذریعے ایک دوسرے کے بستر پر لا کر بنی نوع انسان کو یہ پیغام دیا کہ میں نے تمہیں ایک دوسرے کا ہمراز بنایا ہے اب تم نے معاشرے کی اونچ نیچ کو روزمرہ کی پریشانیوں کو اکیلے نہیں سوچنا بلکہ ایک دوسرے سے شیئر کر کے اس کا حل نکالنا ہے.ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے عورت کو صرف جنسی تعلقات یا بچے پیدا کرنے والی مشین سمجھ لیا اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ شادی یا پیار کے کسی بھی بندھن کے کچھ عرصے بعد ہمیں عورت بوجھ لگنے لگتی ہے.
حالانکہ ہم اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ دکھ سکھ شیئر کرنے سے محبت بڑھتی ہے جبکہ عورت کے متعلق مشہور انگلش رائٹر جان گرے لکھتا ہے کہ جب خواتین کسی مسئلے کے بارے میں شکایت کرتی ہیں تو دراصل وہ چاہتی ہیں کہ انکے مسئلے کا وجود تسلیم کیا جائے اور ان کی بات سنی جائے
ایسی ہی بات سکندرِ اعظم کی والدہ نے اسے لکھے گئے ایک خط میں کہی تھی.
لیکن ہم تو اتنا گوارہ بھی نہیں کرتے کہ چند لفظوں سے بہل جانے والی صنف کو اتنا مقام دے دیں کہ وہ دل کھول کر چند لفظ آپ کو سنا سکے آپ کے سامنے کسی تکلیف پر آنسو بہا سکے اور بدلے میں ساری زندگی وفا کا پیکر بنی رہے. ایک اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو تاریخی مواد میسر ہے اس میں سے ہم نے ان چند عورتوں کو ترجیح دے رکھی ہے جو دغا باز تھی جبکہ ایک کثیر تعداد میں با وفا عورتوں کو نظر انداز کر دیا جنہوں نے اپنے شوہروں سے وفا کی یہاں ہم بغیر تفریق مذہب کے ان خواتین کا ذکر کریں گے. ہم کچھ واقعات سنا کر عورت کی بے وفائی کا رونا تو رو لیتے ہیں لیکن جناب خدیجہ کی آقائے دو عالم سے وفا داری اور محبت کا ذکر نہیں کرتے یا اس سے عورت کے پیکرِ وفا ہونے پر دلیل نہیں دیتے.
ذرا ام حبیبہ بنت ابو سفیان کی اپنے شوہر سے محبت تو دیکھیں کہ اپنے والد سے مخاطب ہو کر کہتی ہیں میرے شوہر کے بستر پر نہ بیٹھو کہ تم مشرک ہو اور میرے شوہر رسول اللہ ص ہیں ذرا جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی اپنے شوہر سے محبت دیکھیے کیا کیا ظلم برداشت نہیں کیا اس عظیم خاتون نے اپنے شوہر کے حق کے لیے. اگر بات عورت کی ہی ہو رہی ہے تو مدینہ کے اس حاکم کی بیوی کی بات کر لیتے ہیں جس نے خلیفہ کے گردن پر چلنے والی تلوار کو اپنے نازک ہاتھوں سے روکنے کی اور انگلیاں کٹوا لیں. تاریخ کو عورت کے تعصب سے پاک کر کے پڑھیں تو ایک سے ایک بڑھ کر وفا کا نمونہ ملے گا. یہی عورتیں اپنے شوہروں کے مر جانے پر زندہ جل جاتی تھیں. جب محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کر کے راجہ داہر کو شکست دی تو اس دھرتی کی ایسی سینکڑوں عورتیں تھیں جنہوں نے اپنے مردوں کے مرنے کے بعد عرب لشکر کے ساتھ جانے کی بجائے آگ میں چھلانگ لگانا مناسب سمجھا.
ذرا تاریخ کھولیں تو سہی عشق و محبت کے کیسے کیسے مجسمے موجود ہیں اس صنف نازک میں
دارا شکوہ کا دربار لگا ہے ایک ایرانی کنیز اس کے سامنے کھڑی ہے دارا نے اسے خاص عزت بخشی لیکن اس نے دارا کی شان شوکت کو ٹھکراتے ہوئے اپنے محبوب کو ترجیح دی اور اس کی خواہش پوری کی گئی
جب یہی تذکرہ چلا ہے تو ذوالفقار علی بھٹو سے وفا نبھاتی اس ایرانی خاتون کا ذکر کیوں نہ کیا جائے جو شوہر کی محبت میں سر ڈنڈا مار کر قتل کر دی گئی. سو سو یہ ایک مختصر تذکرہ ہے جو باوفا بیویوں اور محبوباؤں کا سامنے رکھ دیا گیا.
آئیے وفا اور محبت کے اس مجسمے سے پیار کیا کیجیے اور حقیقی معنوں میں اسے ہمسفر بنائیے تو آپ کبھی بھی شادی کو بوجھ نہیں سمجھیں گے. پنجابی کے چند فضول سے اشعار جو بیوی کو بوجھ ثابت کرتے ہیں ان کی حیثیت مزاح کے علاوہ کچھ بھی نہیں اقبال نے کہا تھا کہ
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
عورت کے ساتھ جاگنا بھی سیکھیے کہ یہ صنف آپ کے لیے بوجھ نہیں ہے بلکہ آپ کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے ہی آپ کی زندگی میں آئی ہے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn