Qalamkar Website Header Image

پاکستان کو درپیش چیلنجز اورضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی شکست

پاکستان اس وقت بے شمار مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، اس کے بدخواہ سازشوں میں مصروف ہیں، اندرونی اور بیرونی محاذوں پر اسے کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ پانی کی کمی کے باعث قحط کے سائے پاکستان کی منڈیر پر منڈالا رہے ہیں۔ اس وقت سب سے اہم چیلنج تیزی سے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں۔ آئی ایم ایف اور اور چین سے لیے گئے قرضوں کی واپسی بھی درد سر بنی ہوئی ہے۔حکومتی ذمہ داروں کے مطابق پاکستان کو فوری طور پر بارہ ارب ڈالرز درکار ہیں۔
ان بارہ ارب ڈالرز کے حصول کے لیے وزیر اعظم عمران احمد خان نیازی اور وزیر خزانہ دنیا میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وزیر اعظم دوسری بار برادر ملک سعودی عرب سے ہوآئے ہیں، اب چین اور ملائیشیا کی یاترا پر بھی جا رہے ہیں۔ سعودی عرب سے کیا جواب عنایت ہوا ہے اس بارے وزیر اعظم قوم کو ضرور بتائیں گے کیونکہ اس حکومت نے قوم سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ قوم سے کچھ نہیں چھپائیں گے اور سچ سچ بولیں گے۔

دنیا میں قوموں کو مشکلات سے نکالنے کے لیے آئی ایم ایف سب سے بڑا ادارہ ہے، اس ادارے سے صرف پاکستان ہی نہیں امریکہ ،روس اور دیگر ممالک سمیت پوری اقوام عالم قرض حاصل کرتی ہے۔ پاکستان اپنے قیام کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کے قائم کردہ ’’ ورلڈ بنک‘‘ اور انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ سے فیض یاب ہوتا آرہا ہے۔ اور اس فیض کو جاری و ساری رکھنے کے لیے پاکستان اسکی عائد کردہ شرائط پر صدق دل سے عمل پیرا بھی رہتا ہے۔
ان اداروں کی شرائط کی پاسداری کے نتائج سب کے سامنے ہیں کہ پاکستان مشکلات کے چنگل سے نجات پانے کی بجائے مذید دلدل میں دھنسا جاررہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے دنیا سے پسماندگی اور غربت دور کرنے کے لیے قائم کیے گئے ہیں لیکن ان اداروں کے سرپرستوں کی نیت میں فتور کے سبب پاکستان سمیت بہت سارے ممالک مسائلستان بنتے جارہے ہیں۔ اس کی وجہ ہے کہ عالمی اداروں کے سرپرست ممالک غریب ممالک کو اپنا غلام بنائے رکھنے کے خبط میں مبتلا ہیں۔

دوسرا یہ کہ غریب ممالک کے سیاستدانوں نے بھی اپنے اذہان میں بٹھا لیا ہوا ہے کہ انہیں اقتدار کے سنگھاسن پر صرف ان بڑے ممالک تابعداری اور آشیرباد ہی بٹھا سکتی ہے۔ جس کے واسطے سیاستدان اور اقتدار کی خواہش مند جرنیل بھی ان ممالک کے طواف کرتے پائے جاتے ہیں۔اور چونکہ اقتدار ہی ان کی منزل ہوتی ہے اس لیے وہ ان کی سب شرائط آنکھیں موند کر قبول کرتے جاتے ہیں نتیجہ میں قوم ذلیل و رسوا ہوتی جارہی ہے۔موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کے آگے سرنڈر کرتے ہوئے بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کے ساتھ دیگر مصنوعات پر ٹیکس لگائے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مین کمی کرکے عوام کی مشکلات کو بڑھا دیا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر کم کرنے سے پاکستان پر واجب الادا قرضوں کے حجم میں ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  بنگلہ دیش نے 48 سال بعدسرحد پر نصب پلرز پر سے پاکستان کا نام مٹا دیا

آئی ایم ایف کے پاس کشکول لے کرجانے کی بجائے خود کشی کرنے کا جذبہ رکھنے والے وزیر اعظم کو خزانہ خالی ہونے، بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات کی وجہ سے آئی ایم ایف کے دروازہ پر دستک دینا پڑی ہے۔ اپوزیشن کو اس پر سیاست نہیں کرنی چاہیے بلکہ پاکستان( حکومت )کو اس مشکل گھڑی سے نکلنے میں مدد کرنی چاہیے۔وفاقی حکومت کی جانب سے قوم کو خوشخبری سنائی گئی تھی کہ وہ کسی قسم کا دباؤ قبول نہیں کرے گی لیکن اس کے پہلے منی بجٹ میں ’’نان فائلرز‘‘ کو جائیدادیں اور گاڑیاں خریدنے کی اجازت مرحمت فرمانے کے پس پردہ محرکات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ فیصلہ وزیر خزانہ اسد عمر نے کسی جانب سے دباؤ کے باعث کیا تھا اور جب ملک میں شور و غوغا ہوا تو اپنی عزت و ناموس بچانے کے لیے اسے واپس لے لیا گیا۔ اس فیصلے سے ثابت ہوا کہ یہ حکومت دباؤ میں آجاتی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے اور اس سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں کہ ڈالرز کو ’’پر‘‘ لگانے میں بعض حکومتی وزرا کا ہاتھ ہے اگر وہ ’’چپ کا روزہ‘‘ رکھتے اور یہ کہنے سے پرہیز کرتے کہ ہم ’’کنگلے‘‘ ہیں تو دنیا ہماری مدد کرنے پررضامند ہوتی کنگلے تو سگے بھائی بھی ہوں تو انہیں بھائی قرض نہیں دیتے ۔ہم نے سعودی عرب سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں کہ وہ ہمیں مالی بحران سے نکالنے اور ڈیفالٹر ہونے سے بچانے کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دے گا تو یہ درست نہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  مملکتِ خُداداد میں عورت تحفظ کی طلب گار

سعودی عرب کو صحافی جمال خشوگی کے قتل نے مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ جس کی ایک جھلک سعودی عرب کی جانب سے بلائی گئی عالمی سرمایہ کاری کانفرنس کا امریکہ،روس، برطانیہ اور جرمنی سمیت پورے یورپ کے بائیکاٹ میں  دکھائی دیتی ہے۔ جرمنی نے تو دفاعی معاہدے تک معطل کردئیے ہیں۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔وزیراعظم عمران خاں فیصلے لینے اور اقدامات اٹھانے سے قبل پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں تو یہ ان کی حکومت اور پاکستان کے لیے زیادہ بہتر ہوگا۔

میں ان سطور کے توسط سے یہ درخواست کرنا چاہوں گا کہ حکومت درپیش چیلنجز کے حوالے سے بذریعہ پارلیمنٹ اعتماد میں لے اور اپنی انا کا مسئلہ بنانے کی بجائے آل پارٹیز کانفرنس بلائے اور تمام سیاسی قیادت کی آشیرباد سے ملک کو مشکلات سے نجات دلانے کی کوشش کی جائے۔اس اقدام سے وزیر اعظم عمران خاں اور ان کی حکومت کے قد کاٹھ میں اضافہ ہی ہوگا کمی ہر گز نہیں ہوگی۔
عام انتخابات دوہزار اٹھارہ میں جو کامیابی پاکستان تحریک انصاف نے سمیٹی تھی ،ضمنی انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی دس نشستوں پر شکست نے اسے زگ لگانا شروع کردیا ہے۔ اس ’’جھٹکے پر بھی وزیر اعظم کو غور ضرور کرنا ہوگا کیونکہ یہ نشستیں خود ان اور گورنر خیبرپختونخوا کی خالی کردہ تھیں۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ عمران خاں یہ جیتی ہوئی نشستیں دوبارہ حاصل کرنے کے لیے محنت کرتے۔ مختلف جگہوں پر پارٹی کے اندر پائے جانے والے اختلافات کو ختم کرواتے؟

 

حالیہ بلاگ پوسٹس