آج بھی میری نوک قلم کے نیچے بے شمار ننگی حقیقتیں گردش کرنی تھیں۔کئی دل فگار رویے پیٹنے تھے۔رونے ڈالنے تھے ۔ماتم کرنا تھا۔جذبات کی تندہی دیکھانی تھی۔ اور پھر یہ تمام کڑیاں مرد کی سفاکی اور درندگی سے جوڑ دینی تھیں آج بھی مرد کا عمومی دلخراش رویہ زیر بحث لاناتھا۔آج بھی کسی تیزاب جلی لڑکی، ہوس کا نشانہ بنی بچی،کلھاڑی کے وار سے سجا لہو بدن ،سوختہ جاں بنی کومل وجود کی فریادیں آج بھی رقم کرنی تھیں۔مگرمردکی درندگی لکھتے لکھتےآج میرا قلم رک گیا، ذہن ماؤف ہوگیا، ہمت جواب دے گئی۔لفظ جو باندی بنے کھڑ ے رہتے تھے آج باغی ہو گئے۔میں ششدرتھی، نالاں تھی،خود سے خفاتھی۔کیونکہ آج مرد کی درندگی کی جگہ عورت نے لے لی۔آج میرے سامنےمیری ہی جنس کھڑی تھی۔بھڑیا نما ماں کی صورت مرد کی حیوانیت اور بربریت کا شکا ر بننے والی عورت آج خود حیوان تھی، ناگن تھی جو اپنے ہی بچوںکو پیدا کرکےتخلیق کے مراحل سے گزارنے کے بعدکھاجاتی ہے۔مگریہاں تو یہ درندہ صفت عورت پھلے پالتی پوستی ہے ۔اور جب اسکے اندر زندگی انگڑائیاں لیتے ہوے جوبن پے آتی ہے تو یہ اسے تب کھا تی ہے۔
حیوانو ں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں کچھ قا عد ے کچھ قانون ہوتے ہیں ،مگر جب انسان حیوان کی سطح پر آ جائے تو وه حیوانیت کی سطح سے بھی گر جاتا ہے۔یہ سیکھنے سکھانے کا عمل جو صدیوں سےجار ی تھا ، اب جا کہ اس نے بھی مہارت پکڑی۔اس کام میں اس کا استاد مرد تھا اب وہ بھی اس کے شانہ بشانہ ہے۔اس سفاکیت ، جنونیت ،غیرت سے اٹی مکروہ حسا سیت سے لبا لب اب عورت بھی ہے۔قحط سالی ہے ،ہما رے معاشرے میں کہ اب عورت نما حیوان ،اپنی ہی جنس کو کھا نے لگی ہے ۔روندنے لگی ہے ،ما رنے لگی ہے، بنھبوڑ نے لگی ہے۔اب عورت نما حیوان بھی غیرت کے للکا رے مارتی میدان میں نکلی ہے۔اسکے منہ کو بھی خو ن لگ چکا ہے ۔یہ بھی اب اماؤس کی رات کے پچھلے پہرنکلی ہوئی خون آشام بلا ہے۔جب کسی معاشرے میں خون بہا نا عا م ہو جائے تو وہاں سے ہی معاشرتی تنزلی کا آ غاز شروع ہو جاتا ہے ،اور اخلاقی زوال عام ہو جاتا ہے۔زمانہ جاہلیت اور دور جدید کا اگرموازنہ کیا جائے تو دو لفظوں میں مد عا سمجھ میں آ جاتا ہے۔اس دور میں بیٹیاں دفن جوگیاں تھیں تو آج یہ سڑن جوگیاں ہیں۔ پھلے دور میں علم کی کمی تھی، فہم نہیں تھا۔مگر اب علم و آگہی،اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی زمانہ جاہلیت پورے قد و کاٹھ کے ساتھ کھڑا ہے
زمانہ جاہلیت ختم ہی کہا ں تھا؟
پہلے باپ چپ چاپ دفن کرتا تھا،اور اب ما ں اپنے ہا تھوں سے جلا دیتی ہے ،پہلے صرف جسم دفن ہوتے تھے ،مگر اب تو جسموں کے ساتھ روحیں بھی جلا ئی جاتی ہیں۔
آج کا دور لڑکیوں کہ لیے زیادہ سفاک نہیں کیا؟
لاہور کی سترہ سالہ زینت ماں کے ہاتھوں انسانیت سوزظلم کا شکار ہوئی کیونکہ اس نے پسند کی شادی کر لی تھی ۔انیس سالہ صبا کو اس کے باپ نے آج فائرنگ کر کے مار ڈالا۔پاکستان میں عورت مرد کی شانہ بشانہ قدم سے قدم ملائے کھڑی ہے،کون کہتا ہے آج کی عورت مردسے پیچھے ہے؟
تمام شرعی تقاضے نبھاتے ہوئےشادی کرنا ،ایک حلال کام ہے۔ہما رے معاشرے میں لڑکی کاکسی کو پسند کرنا غلط، پسند کا اظہا ر کرنا غلط ، ا ور جب کوئی راستہ نہ پا کے گھر چھوڑ دیتی ہے تو ملعو ن ٹہرتی ہے،اور پهر جب شادی کر لو تو واجب القتل !یہاں یہی سزا ملتی ہے۔سزا مقرر بھی یہی ہے۔میں نے اس ماں کا انٹرویو بار ہا سنا ،جس میں وه اقرار کرتی ہےانتہائی کروفر سے ،انتہائی سنگدلی سے،مگر میں سوچ رہی تھی جلا نے کے اس عمل میں کوئی تو ایسا مقام آیا ہو گا جہاں ممتا بھی جھلسی ہو گی، سسکی ہو گی ،مگر غیرت کا تقاضا تھا ۔جلتے شعلوں میں بیٹی جلنے دی جائے ،مگر پانی نہ ڈالا جائے۔ زنا حرام ہے اسلام میں ۔اسے حرام قرار دیتے ہوئے اس کی سزا مقرر کی گئی۔ زنا کی جرم میں غیر شادی شدہ عورت و مرد کو سو کوڑے کی سزا، جبکہ شادی شدہ مرد و عورت کو سنگسار کا حکم ہے۔یہ تو اسلامی نقطہ نظر ہے جو واضح ہے اس میں کوئی ابہام نہیں ہے مگر ہمارا معاشرہ بد قسمتی کے اس زوال تک پہنچ گیا ہے کہ شادی جیسا فریضہ حلال ہے،مگر پسند کی شادی ہماری نظر میں حرام بن گی ہے ۔اور اس کی سزا صرف موت ہے۔پہلے یہ سزا باپ ،بھائی دیتے تھے اب وہ اس قید سے آزاد ہوئے ،اب ماں بھی یہ فریضہ اکیلے یا سب کے ساتھ مل کر سر انجام دیتی ہے۔شادی کرنا اور حرام کا ری کرنا دو الگ راستے ہیں مگر دونوں کی ایک سزا کسی صورت جائز نہیں ہے
میں بھا گ کر شا دی کرنے کی حق میں نہیں ہوں۔ محبت کاہو جانا ایک فطر ی عمل ہے،جو ذات پات ،مذہب سے بالاترہو کرخود بخود ہو جا تی ہے، والدین بھی جتنی جلدی اس تقا ضے کو سمجھ جائیں تو بہتر ہے۔ اور لڑکیاں بھی یہ سوچ لیں کہ بھا گ کر شا دی کرنا کوئی سود مند فیصلہ نہیں۔ یہ گھا ٹے کا سودا ہے ،کچھ ہی عر صے کہ بعد ا س طعنے کہ لیے خود کو تیار بھی رکھنا کہ تم اپنےماں باپ کی وفادار نہیں تو میری کیاہوگی۔ سوچو اس وقت اپنے بے وقعت ہونے کا احساس جل کر مرنے سے بھی زیادہ کربناک ہوگا !یاد رکھیےشادی کرنا غلط نہیں مگر بھا گ کر شادی کرنا غلط ہے۔ان دو سالو ں میں 300و یں عورتیں نذر آتش ہوئیں،ان واقعا ت کا پے در پے رونما ہونا کوئی نیک شگون نہیں ہے،کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم صفحہ ہستی سے مٹ جائیں اور نشان عبرت بن جائیں اور آ نے والی نسلیں کہیں گی کہ یہ وہ قوم تھی جو بیٹیاں زندہ کھا تی تھی۔قانون بنا لینا ہی قابل فخر نہیں ہوتا ،بلکہ قانون نافذ کرنابھی ضروری ہے ۔پارلیمنٹرین اور جج صا حبا ن کو یہ بات اب سمجھناہو گی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn