نصرت فتح علی خان کا اصل نام پرویز خان تھا اور وہ 13 اکتوبر 1948ءکو فیصل آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ تاہم بعد میں ایک بزرگ کے کہنے پر ان نام بدل کر نصرت رکھ دیا گیا تھا۔ موسیقی سے شغف ان کو ورثے میں ملا تھا۔ ان کے آباؤ اجداد نے کلاسیکی موسیقی اور بالخصوص قوالی کے حوالے سے بڑا نام کمایا تھا اور انہیں مقبول بنانے میں ان کے والد استاد فتح علی خان نے بے پناہ کام کیا تھا۔ نصرت فتح علی نے موسیقی کی ابتدائی تربیت اپنے والد اور اپنے تایا استاد مبارک علی خان سے حاصل کی اور اپنی پہلی باقاعدہ پرفارمنس اپنے والد کے انتقال کے بعد استاد مبارک علی خان کے ساتھ گاکر دی۔
وہ خاصے عرصے تک روایتی قوالوں کی طرح گاتے رہے مگر پھر انہوں نے اپنی موسیقی اور گائیکی کو نئی جہت سے آشنا کیا اورپاپ اور کلاسیکی موسیقی کو یکجان کردیا۔ نصرت فتح علی خان کی عالمی شہرت کا آغاز 1980ءکی دہائی کے آخری حصے سے ہوا جب پیٹر جبریل نے ان سے مارٹن اسکورسس کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ کا ساؤنڈ ٹریک تیار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، یہ ان کے فنی سفر کا نیا رخ تھا۔ 90 کی دہائی میں انہوں نے پاکستان اور ہندوستان میں اپنی موسیقی کی دھوم مچادی۔ انہیں کئی بھارتی فلموں کی موسیقی ترتیب دینے اور ان میں گائیکی کا مظاہرہ کرنے کی دعوت دی گئی۔ وہ برصغیر سے باہر بھی بے حد مقبول تھے۔نصرت فتح علی کے مقبول نغمات میں دم مست قلندر، آفریں آفریں، اکھیاں اڈیک دیاں، سانوں اک پل چین نہ آئے اورغم ہے یاخوشی ہے تو کے علاوہ مظفر وارثی کی لکھی ہوئی مشہور حمد کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے سرفہرست ہیں۔
نصرت فتح علی خان کو حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ اس کے علاوہ انہیں دنیا بھر کے متعدد اعزازات بھی حاصل ہوئے تھے۔ 16 اگست 1997ءکو نصرت فتح علی خان لندن کے ایک اسپتال میں وفات پاگئے۔وہ فیصل آباد میں آسودہ خاک ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn