میرے خیال میں نئی حکومت پہلے دن سے ہی الٹے راستے پر چل رہی ہے۔ یہ عمران خان کو بددعا ہے یا کسی آسیب کا سایہ مگر یہ افسوس ناک امر ہے کہ وہ جو کہتے ہیں اور جس موقف پرانہیں پذیرائی ملتی ہے خان صاحب بعد میں اسی موقف کے الٹ چل پڑتے ہیں۔خان صاحب کے اسی انداز کو ان کے سیاسی مخالفین یوٹرن سے تعبیر کرتے ہیں۔
اپوزیشن اور دھرنوں کے دور میں خان صاحب احتساب کے عمل کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے اور دونوں بڑی جماعتوں نون لیگ اور پی پی پی پر اس حوالے سے مک مکا کا الزام عائد کرتے ہوئے یہ کہتے رہے کہ وہ اوپر سے احتساب شروع کریں گے ۔۔۔۔لیکن سر منڈاتے ہی اولے پڑ گئے کے مصداق تبدیلی کا پورا نزلہ غریب اور بے بس عوام پر گرا۔ پہلے بجلی اور گیس کے بلوں میں اضافے اور پیٹرولیم مصنوعات کی قمیتں بڑھانے کے باعث مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوا تو اب لوگوں کو ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کی نوید سنانے والا خان، عوام کے تین تین اور پانچ پانچ مرلے کے گھر مسمار کر کے انہیں کرپٹ چور اور قبضہ گروپ سمیت نہ جانے کیا کیا القابات سے نواز رہا ہے۔ارے بھائی آپ تو انہیں پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے والے تھے اب ان کے اپنے ہاتھوں سے پوری زندگی کی جمع پونجی سے بنائے گھر گرانے کے کیوں درپے ہو رہے ہو۔ مانا کہ ان بےچاروں کو ماضی میں کسی قبضہ گروپ نے سبز باغ دکھا کر زمین بیچ دی جو بعد میں سرکار کی نکل آئی تو بھائی اس چور اور اس کے خاندان کو پکڑو۔
کیا ہی اچھا ہو کہ سرکار ان چھوٹے چھوٹے گھر والوں سے آسان قسطوں میں اس زمین کی وہ قیمت وصول کر لے جو اس وقت کی سرکاری یعنی ڈی سی ریٹ بنتی ہے۔اس طرح ان غریب لوگوں کے گھر بھی قانونی ہو جائیں گے اور عمران خان کے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا ٹارگٹ بھی پورا ہو جائے گا۔ ساتھ ہی حکومت کو اچھی خاصی آمدن بھی ہو جائے گی جو یقینا 27 لاکھ کی بھینسوں کی فروخت سے ممکن نہیں۔ اسی طرح چھوٹے چھوٹے پلازے گرانے کی بجائے ان کے مالکان سے بھی زمین کی قیمت وصول کر لی جائے تو حکومت اگر نئی نوکریاں نہ بھی دے سکےتو کم ازکم ان پلازوں کی مسماری سے پیدا ہونے والی بے روزگاری کے سیلاب سے بچ جائیں گے۔میرا خان صاحب کو یہی مشورہ ہے کہ وہ جذبات میں غلط فیصلے کرنے کی بجائےدرست فیصلے کرتے ہوئے اپنے سیاسی وژن کا اظہار کریں۔میرا خیال ہے لوگ اب بھی ان کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہیں لیکن اس کے لئے انہیں ماضی کے تمام لٹیروں کے بچھائے گئے جال سے بچنا ہو گا۔ زرداری، نواز اور شہباز شریف تو یہی چاہتے ہیں کہ خان احتساب کا عمل نیچے سے شروع کر کے ان کے چنگل میں پھنس کر رہ جائے اور پھر اس کی ایسی مت ماری جائے کہ یہ اصل چوروں کااحستاب کرنے کے قابل ہی نہ رہے۔
اسی طرح چیف جسٹس صاحب سے مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ وہ ملک سے مخلص لوگوں کو امتحان میں مت ڈالیں۔مہنگائی کا نوٹس ضرور لیں، مہنگی تعلیم اور مہنگی صحت کی سہولتیں دینے والوں کے لئے کوئی نظام ضرور بنائیں لیکن ایسا کرتے وقت احتیاط سے کام لیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ بےسمت دوڑ میں ہم عابد محمود بھٹی جیسے محب وطن کھو دیں۔
قمرالزمان بھٹی ایک تجربہ کار صحافی ہیں اور صحافتی آزادی اور حقوق کی جنگ لڑنے کا عملی تجربہ رکھتے ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستگی کے ساتھ لاہور پریس کلب کی گورننگ باڈی کے مسلسل تین سال رکن اور پنجاب اسمبلی پریس گیلری کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ سرمایہ دار طبقے، طبقاتی نظام اور ان کے نمائندوں ک خلاف کھل کر لکھتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn